• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بینظیر بھٹو شہید کی واپسی کسی این آر او کا نتیجہ نہیں تھی، رحمن ملک

اسلام آباد (این این آئی) سابق وزیر داخلہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رحمن ملک نے کہا ہے کہ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی پرویز مشرف کیساتھ کسی این آر او کا نتیجہ نہیں تھی۔ ایک انٹرویومیں سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے طالبان کی میٹنگ ہوئی جس میں بیت محسود، القاعدہ کا دوسرا اہم کمانڈر ابوعبیدہ مصری بھی شریک تھے ٗدو خودکش حملہ آوروں بلال اور اکرام کو دو لاکھ روپے دے کر میرانشاہ کے ایک مدرسے میں بھیجا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں خودکش حملہ آوروں نے مدرسے میں ایک رات قیام کیا اور اگلے روز گاڑی کے ذریعے مدرسہ حقانیہ پہنچے۔ رحمن ملک نے دعویٰ کیا کہ بینظیر کے قتل ہونے کے بعد ہمارے پاس اس بات کے مکمل ثبوت تھے کہ اس میں القاعدہ اور طالبان شامل ہیں۔ میری حالیہ معلومات کے مطابق دوسرا خودکش بمبار اکرام زندہ ہے ٗ اس نے پاکستان میں اب شادی کر لی ہے اور جب اسے خطرہ محسوس ہوا تو وہ افغانستان فرار ہوگیا جہاں قندھار میں اس پر حملہ کیا گیا جو ناکام رہا تاہم وہ اب بھی قندھار میں موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ حکومت پاکستان کو اس حوالے سے خط لکھنے جارہے ہیں کہ وہ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث دہشت گرد کی افغانستان میں موجودگی کو سرکاری سطح پر اٹھائے۔ پرویز مشرف سے متعلق سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ پرویز مشرف اس وقت عدالت سے غیر حاضر ہیں ٗانہیں چاہیے کہ وہ اپنی وضاحت عدالت میں آکر دیں جبکہ بینظیر کو اگر سابق وزرائے اعظم جیسی سیکیورٹی ملتی تو شاید وہ بچ جاتیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ہم 26 دسمبر کو پشاور سے آرہے تھے جس دوران راستے میں مجھے ایک جنرل کا فون آیا جنہوں نے کہا کہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی بینظیر سے ملنا چاہتے ہیں ٗ اسی رات ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی نے بتایا کہ بینظیر بھٹو پر حملہ ہوسکتا ہے تاہم سوال یہ ہے کہ حملے کا خطرہ تھا تو پھر مناسب سیکیورٹی کیوں فراہم نہیں کی گئی۔
تازہ ترین