چھبیسویں پارے کا آغاز سورة الاحقاف سے ہوتا ہے۔ سورة الاحقاف میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ مشرک کے پاس شرک کی کوئی دلیل نہیں ہے اور جو شرک کرتے ہیں ان کو کہیئے کہ اگر وہ سچے ہیں تو کوئی سابقہ کتاب یا علم کا ٹکڑا اپنے موقف کی دلیل کے طور پر لے کر آئیں ۔ مزید ارشاد ہوا کہ اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو پکارتا ہے، جو قیامت تک اس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے اور وہ ان کے پکارنے سے غافل ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ کافر رسول اللہ ﷺ پر جھوٹا بہتان باندھتے تھے کہ نعوذباللہ آپ نے قرآن مجید کو گھڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حبیب علیہ السلام آپ اعلان فرمائیں کہ اگر میں نے اس کو گھڑا ہے تواللہ تعالیٰ کے بغیر میں کسی بھی چیز کی ملکیت نہیں رکھتا یعنی اللہ تعالیٰ کب ممکن ہے کہ اپنے اوپر جھوٹ باندھنے والے کی گرفت نہ فرمائیں ۔اور ارشاد ہوا کہ آپ کہہ دیجیئے تم ذرادیکھوکہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو تم اس کا انکار کرکے درحقیقت تکبر کے مرتکب ہو رہے ہو ۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں کہ بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارارب اللہ ہے پھر اس پرا ستقامت کو اختیار کیا تو نہ ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ غم اور یہ لوگ جنتی ہیں، ہمیشہ اس میں رہیں گے اور ان کو ان کے کیئے کی جزا ملے گی ۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین سے حسن سلوک کی وصیت کی۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف کے ساتھ اٹھایا اور تکلیف کے ساتھ پیدا کیا اور یہ تیس ماہ تک حمل اور دودھ پینے کی مدت سے گزرتا ہوا زندگی کی مختلف منزلیں عبور کرتا رہا ۔یہاں تک کہ چالیس برس کی عمر یعنی اپنی جسمانی اور فکری بلوغت کی انتہا کو پہنچاتو اس نے دعا ما نگی کہ اے میرے پرور دگار مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکریہ ادا کروں جو تونے مجھ پر اور میرے والدین پر کیں اور میری نسل کی اصلاح کر، میں تجھ سے توبہ کا طلبگار ہوں اور میں احکامات الٰہی کو تسلیم کرنے والا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا اور ان کی خطاؤں کو معاف فرماکر جنت میں داخل فرمائے گا ۔اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ جنات کے ایک گروہ نے قرآن مجید کی تلاوت کو سنا، وہ خاموشی سے قرآن مجید کی تلاوت سنتے رہے ۔جب قرآن مجید کی تلاوت مکمل ہو گئی تواپنی قوم کے پاس واپس پلٹے اور کہا کہ اے قوم جنات !ہم نے ایک کتاب کو سنا ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد اتری ہے اور اپنے سے پہلے نازل ہونے والی کتابوں کی تائید کرتی ہے، یہ کتاب حق اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اے قوم جنات! تم اللہ تعالیٰ کی پکار کا جواب دو اور اس پر ایمان لے آؤ، وہ تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا اور تمہیں درد ناک عذاب سے نجات دے گا ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ اسی طرح صبر فرمائیں جس طرح آپ سے قبل اولوالعزم انبیاء یعنی نوح ، ابراھیم ،موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام صبر فرماتے رہے اور حضرت محمد ﷺ نے جب دعوت دین پر صبر کیا تو آپ کا صبر تمام انبیا ئے سابقہ کے صبر پر سبقت لے گیا ۔
سورة الاحقاف کے بعد سورة محمد ہے ۔سورة محمد میں اللہ تعالیٰ اعلان فرماتے ہیں کہ جو لوگ کفر کا ارتکاب کرتے ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ان کے اعمال گمراہ کن ہیں اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور رسول اللہ ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب پر ایمان لائے جس کو اللہ نے حق کے ساتھ نازل فرمایا تو اللہ نے ان کی خطاؤں کو معاف کر دیااور ان کے معاملات کو سنوار دیا ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم اللہ کی مدد یعنی اس کے دین کا کام کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو مضبوط کر دے گا ۔
اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد کافروں کے رہن سہن اور کھانے پینے کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس طرح کھاتے پیتے اور رہتے ہیں جس طرح جانور کھاتے پیتے اور رہتے ہیں اور ان کا انجام جہنم کی آگ ہے ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ جنت کی مثال، جس کا وعدہ نیکو کاروں سے کیا گیا ہے اس طرح ہے کہ اس میں بغیر بو کے پانی کی نہریں ہونگی اور ایسے دودھ کی نہریں ہونگی جن کا ذائقہ تبدیل نہیں ہو گا اور اس میں پاکیزہ ذائقے والی شراب کی نہریں ہو نگی اور اس میں صاف شہد کی نہریں ہونگی اور ان کے لیئے اس میں ہر طرح کے پھل ہونگے اور پروردگار کی طرف سے بخشش ہوگی ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ لوگ قرآن مجید پر کیوں غور نہیں کرتے ۔کیا ان کے دل پر تالے لگے ہوئے ہیں ؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں پس جان لو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے کفر کیا اوراللہ کے راستے سے روکتے رہے اور ہدایت واضح ہو جانے کے باوجود رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کی وہ اللہ تعالیٰ کو نقصان نہیں پہنچاسکتے اور ان کے اعمال بربادہو چکے ہیں۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو باطل نہ کرو ۔سورة محمد کے بعد سورة فتح ہے ۔سورة فتح میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو فتح مکہ کی خوشخبری دی ہے ۔حدیبیہ کے مقام پر رسول اللہ ﷺ نے کافروں کے ساتھ جب صلح کی تو بظاہر تو یوں محسوس ہو رہاتھا کہ صلح میں کافروں کو بالادستی حاصل ہو رہی ہے مگر حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ تھی۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے بیعت رضوان کا بھی ذکر کیا کہ جب حضرت عثمان کی شہادت کی افواہ پھیلی تو رسول اللہ ﷺ نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے سیدنا عثمان کے قصاص کے لیئے بیعت لی تھی۔ جن صحابہ نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا جنہوں نے آپ ﷺ کے ہاتھ میں اپنے ہاتھ کو دیا اور یہ بیعت اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا جنہوں نے آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا ان کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ کو رکھ دیا تھا ۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ دین حق کو باقی ادیان پر غالب کر دیا جائے ۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کا فروں پر شدید اور ایک دوسرے پر رحمت فرمانے والے ہیں ۔
سورة فتح کے بعد سورة حجرات ہے ۔سورة حجرات میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اہل ایمان کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے آگے نہیں بڑھنا چاہیئے اور وہ لوگ جو اپنی آوازوں کورسول اللہ ﷺ کی آواز سے بلند کرتے ہیں وہ اپنے اعمال کو ضائع کر بیٹھتے ہیں اور ان کو اس بات کا ادراک بھی نہیں ہوتا۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرما یا کہ جب فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئیں تو اس کی تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کے بغیر سبب کے خلاف ہو جاؤ اور بعد میں تمہیں اپنے کیئے پر ندامت کا سامنا کرنا پڑے ۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر مومنوں کے دو گروہوں کی آپس میں جنگ ہوجائے تو ان کے درمیان صلح کروادینی چاہیئے ۔اگر ایک گروہ سرکشی پر تلا رہے تو ایسی صورت میں باغی گروہ کے خلاف جنگ کرنی چاہیئے یہاں تک کہ وہ صلح پر آمادہ ہو جائے۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ بے شک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں، ان کی صلح صفائی کروا دیا کرو ۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے تجسس کی بھی شدت سے مذمت کی ہے اور بد گمانی کو گناہ قرار دیا ہے ۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے غیبت کو بدترین گناہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی مثال یوں ہے جیسے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھارہا ہو۔ جس طرح کوئی اس عمل کوپسند نہیں کرے گا اسی طرح غیبت سے بھی اجتناب ضروری ہے ۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ قبائل اورگروہ تعارف کے لیئے بنائے گئے جبکہ فضیلت کا سبب صرف تقویٰ ہے ۔جو پر ہیزگارہے وہ اللہ کی نظروں میں عزت دار ہے۔ سورت حجرات کے بعد سورة ق ہے ۔سورہ ق میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق ارض و سماوات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو چھ دن میں بنایا تھا اور چھ دن میں بنانے کے بعد اس کو تھکاوٹ اور اکتاہٹ کا احسا س تک بھی نہیں ہوا تھا۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ جہنم میں جب جہنمی ڈال دیئے جائیں گے تو جہنم کہے گی کہ میرے اندر اور لوگوں کو ڈالا جائے۔ جہنم سے بچ نکل کرجنت میں داخل ہوجانے والے خوش نصیب وہی ہوں گے جنہوں نے تقویٰ اور پرہیز گاری کو اختیار کیا ہو گا۔ اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپ قرآن مجید کے ذریعے ان کو نصیحت کر یں جن کے دلوں میں خوف ہے ۔سورة ق کے بعد سورة ذریت ہے ۔سورةذریت میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی قسمیں کھانے کے بعد کہا ہے کہ قیامت ضرور آئے گی۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کا ایک اہم وصف بتلایا ہے کہ وہ راتوں کو جاگنے والے اور سحر کے وقت استغفار کرنے والے ہوتے ہیں ۔اس سورت میں ایک اور اہم نکتہ یہ بتلایا گیا کہ انسانوں کے رزق کا فیصلہ آسمانوں پر ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن پڑھنے،سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔(آمین)
ibtisamelahizaheer@yahoo.com