کوئٹہ کے انتہائی حساس علاقے میں ایک ماہ میں دوسراخودکش حملہ پولیس اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
کوئٹہ کے انتہائی حساس علاقے میں منگل کو ہوئے خودکش حملے نے ایک بار پھر پولیس اور دیگر متعلقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کی قلعی کھول دی ہے اور اس حوالےسےکئی سوالات کو جنم دےدیاہے؟
منگل کے روز کوئٹہ میں جی پی او چوک کے قریب جس مقام پر خودکش حملہ ہوا وہاں سے بلوچستان اسمبلی، گورنر و وزیراعلیٰ ہاؤس ،سیکریٹریٹ اور دیگر اہم سرکاری عمارتیں تقریباً تین سو گز کے فاصلے پرواقع ہیں اور جب خود کش حملہ ہوا اس سےکچھ دیرپہلےتک تحریک عدم اعتماد پیش کئےجانےکےپیش نظراسمبلی کےاطراف سمیت علاقے میں سیکیورٹی ہائی الرٹ تھی۔
ایسے میں دہشت گردی کابڑاواقعہ ہونا متعلقہ اداروں کی کارکردگی اورسیکیورٹی پر کئی سوالات چھوڑ گیاہےاور وہ یہ کہ شہر میں تقریباً 6 ہزار اہلکار تعینات ہوںاور شہر کےداخلی اورخارجی راستوں پر سخت چیکنگ بھی ہو،پھراسمبلی کےاطراف چارجگہ ناکوں کے باوجود خودکش حملہ آور اہلکاروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ریڈزون میں کیسے پہنچ گیا؟
اس سے تقریبا تین ہفتے قبل 17دسمبر کو اسی زرغون روڈ پر چرچ پرخودکش حملے کا واقعہ پیش آچکا تھاتو وہاں سیکیورٹی کے خاطر خواہ اقدامات کیوں نہیں تھے؟
اس سے پہلے کئی واقعات میں سینئرپولیس حکام کو دہشت گرد حملوں کانشانہ بنایاجاچکاہےاور کہاگیاتھا کہ ایس پی کی سطح کےپولیس افسر ان بھی علاقے میں موجود رہیں گے، تو کہیں یہ پولیس حکام کی نااہلی یاغفلت تو نہیں ؟
متعلقہ حکام کی جانب سے صوبےسےملحقہ افغان بارڈر کے کھلے ہونے اور وہاں سے دہشت گردوں کےداخل ہونے کی بات تو کی جاتی ہے تو ان کی روک تھام کے لیے مؤثراقدامات کیوں نہیں کئے جاتے؟
اس طرح کے افسوسناک واقعات کے بعد شواہد اکٹھے کئے اور فرانزک لیبارٹری بھجوائے جاتے ہیں مگر حقائق کیوں سامنے نہیں لائے جاتے؟
اگران سوالوں کے جواب مل جائیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ شہر اور صوبے میں اس طرح کے افسوسناک واقعات رونما نہ ہوں۔