• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومتو ں کے اخراجات ٹیکسوں کی وصولی سے پورے ہوتے ہیں اور ٹیکس وصولی کا طریق کار جتنا آسان اور کم بوجھ کا حامل ہو، اتنا ہی ٹیکس گزاروں کو اسکی ادائیگی کی ترغیب ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں کے دوران حکمران، عام تنخواہ دار، تاجر، صنعتکار اور جائیدادوں کے مالک، سب ہی بڑے فخر سے اس رقم کا ذکر کیا کرتے تھے جو انہوں نے مختلف مدوں میں حکومت کو ادا کی۔ مگر بعد میں ہمارے حکومتی، بیوروکریٹک اور دفتری ڈھانچے میں ایسے لوگ شامل ہوتے گئے جن کا رجحان ٹیکسوں کی ادائیگی سے خود اجتناب برتنے اور دوسروں کو بھی ٹیکس گریزی کے طریقے بتانے کی طرف تھا۔ ٹیکسوں کے فارم پُر کرنے سے لیکر انکی ادائیگی اور متعلقہ رسیدوں یا ضروری کاغذات کے حصول کا طریقہ دیانتدار ٹیکس گزاروں کیلئے اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا کہ ان کیلئے بھی ہر مرحلے پر رقم خرچ کئے بغیر متعلقہ رسید یا دستاویز یا کلیئرنس کا حصول ناممکن ہوگیا۔ خاص طور پر پراپرٹی ٹیکس میں اتنا ابہام رکھا گیا کہ بہت سے معاملات مخصوص طرز فکر رکھنے والے افسران اور انکے ایجنٹوں کے درمیان برسوں زیر گردش رہتے ہیں۔ اب فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ذرائع اگر یہ نشاندہی کرتے ہیں کہ کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور، فیصل آباد میں رہائشی اور کمرشل غیر منقولہ جائیدادوں کی کیٹیگریوں کی اینومالیز (Anomalies) دور کر دی گئی ہیں یا دور کی جارہی ہیں تو اسکا خیرمقدم کیا جانا چاہئے۔ اس ضمن میں جمعرات کے روز اسلام آباد میں چھ نوٹیفکیشن جاری کئے گئے۔ اس اطلاع کا ایک اور خوشگوار پہلو یہ ہے کہ بعض علاقوں میں رہائشی اور کمرشل غیر منقولہ جائدادوں کی قیمتوں میں بھی ٹیکس کے نقطہ نظر سے کمی کی گئی ہے۔ ہماری قومی معیشت جس مشکل سے دوچار ہے اسکا سادہ ترین حل بھی یہی ہے کہ ٹیکس خواہ کسی بھی مد سے تعلق رکھتا ہو اسکی ادائیگی کا طریقہ آسان ہو، اسکی شرح کم ہو اور ٹیکس گزار کیلئے پرکشش ترغیبات کا حامل ہو۔ اس ضمن میں کیا ہی اچھا ہو کہ تنخواہ دار طبقے کے لئے بھی کچھ مراعات مہیا کر دی جائیں۔

تازہ ترین