• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کابل کے دورے کو سیکورٹی کی مخدوش صورت ِحال تشویشناک بنا سکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی دورہ پیشہ ورانہ طور پر سود مند ثابت ہو تو زیادہ تر صحافی حضرات خطرہ مول لے لیتے ہیں اور پھر تجسس آپ کو کسی بھی وقت، کہیں بھی لے جاسکتا ہے۔ اخبار اور برقی میڈیا سے تعلق رکھنے والے گیارہ پاکستانی صحافیوں، ایک ماہر تعلیم اور ایک محقق نے کابل کے افسانوی شہر کا پانچ روزہ دورہ کیا۔ اس کی وجہ یہی پیشہ ورانہ تجسس تھا۔
اسلام آباد کابل فضائی راستے پر پی آئی اے چھوٹے، اے ٹی آر طیارے استعمال کرتی ہے جبکہ ایک نجی افغان فضائی کمپنی، کام آئیر(Kam Air)بوئنگ طیارے چلاتی ہے۔ یہ مختصر پرواز محض گھنٹہ بھر کی ہے۔
افغان صدرڈاکٹر اشرف غنی، اُن کے قومی سلامتی کے مشیرمحمد حنیف اتمر اور سابق صدرحامد کرزئی سے ملاقات طے شدہ تھی لیکن یہ تینوں رہنما غیرملکی دوروں پر تھے۔ بہت سے افغان، خاص طور پر افسران، تواتر سے غیرملکی سفر اختیار کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ اُن سے ملاقات کے خواہشمند شخص کو شیڈول میں اچانک تبدیلی کیلئے تیار رہنا پڑتا ہے۔ تاہم اشرف غنی، حنیف اتمر اور حامد کرزئی سے ہماری ملاقات نہ ہونے کا مداوہ چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداﷲ عبداللہ،وزیر ِ خارجہ صلاح الدین رباّنی اوردیگر شخصیات سے ہونے والی ملاقاتوں نے کردیا۔ ڈاکٹر عبداﷲ کا عہدہ وزیر ِاعظم کے مساوی ہے ۔ اسے اب تک آئین میں شامل کرتے ہوئے قانونی تحفظ مل جانا چاہیے تھا اگر اُن کی قومی حکومت اور صدر غنی 2014ء میں کیا گیا معاہدہ نافذ کردیتے۔ یہ معاہدہ سابق امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ جان کیری کے ذریعے طے پایا تھا۔ تین سال گزرنے کے باوجود اس مقصد اور دیگر امورکیلئے لویا جرگہ نہ بلایا جاسکا۔ اگرچہ حامد کرزئی اور بہت سے دیگر سیاست دان اس کے انعقاد کا مطالبہ کررہے ہیں تاکہ ملک کو درپیش سیکورٹی، سیاسی اور معاشی مسائل کو زیر ِ بحث لایا جاسکے اور ا ُن پر فیصلے لئے جاسکیں، لیکن مستقبل قریب میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ درحقیقت ہمارے کابل میں قیام کے دوران قندھار میں ایک عوامی جلسہ ہواجس میں اہم اپوزیشن رہنمائوں نے کیے گئے وعدے پورے کرنے اور قیام ِامن کے عمل کو آگے بڑھانے میں ناکامی پر مخلوط قومی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ تاہم اپوزیشن رہنما بھی لویا جرگے کے انعقا د کا مطالبہ کرتے دکھائی نہ دئیے ۔ توقع تھی کہ اس جلسے، اورافغانستان کے دیگر حصوں میں ہونے والے عوامی اجتماعات سے یہ مطالبہ سامنے آئے گاتاکہ حکومت پر دبائو ڈالا جاسکے ۔ اس ضمن میں مختلف توجیہات سننے کو ملیں کہ قندھار جلسے میں یہ مطالبہ کیوں نہ کیا گیا۔ کچھ افغان سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کاکہنا تھا کہ امریکہ نے افغان حکومت کا تحفظ کرنے کیلئے اپوزیشن رہنمائوں کومشورہ دیا تھا کہ وہ اس مسئلے کو نہ اٹھائیں۔ نیز امریکہ نے یہ بھی یقینی بنایا کہ شمالی افغانستان کے صوبے، بلخ میں طویل عرصے تک گورنر کے عہدے پر فائز رہنے والے عطامحمد نور اور نائب صدر اول، جنرل عبدالرشید دوستم کے بیٹے باتور دوستم مزار شریف کے ہوائی اڈے سے پرواز کر کےجلسے میں شرکت کیلئے قندھار نہ آسکیں۔ ظاہر ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ مخلوط قومی حکومت کمزور ہوجائے ۔ اس نے اب تک پوری کوشش کی ہے کہ افغان حکومت اتنی توانا ہوجائے کہ یہ افغانستان میں اس کا قابل ِ اعتماد حلیف بن کر مفادات کے حصول میں معاون ثابت ہو۔
تاہم کابل میں قیام کے دوران محسوس ہوا کہ افغان حکومت کیلئے سب اچھا نہیں ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ صدر غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداﷲ کے درمیان فاصلہ اور عدم اعتماد بڑھ رہا ہے ، اس لئے انہیں مل کر کام کرنے کیلئے مستقبل میں امریکی مداخلت کی ضرورت رہے گی ۔ گزشتہ برس ان دونوں رہنمائوں کے تعلقات میں سنگین بگاڑ دیکھنے میں آیا۔ اُس وقت ڈاکٹرعبداﷲ کا کہنا تھا کہ اشرف غنی حکومت کرنے کیلئے موزوں نہیں۔تاہم اس کے بعد وہ اپنے درمیان پیدا ہونے والے تنائو کو کم اور تعلقات کو بحال کرتے دکھائی دئیے ۔
افغانستان کی قومی اسمبلی (اولسی جرگہ) کیلئے انتخابات سات جولائی کو ہونے جارہے ہیں۔ اس لئے یہ برس مخلوط قومی حکومت کیلئے ایک اہم آزمائش ہوگا۔ اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداﷲ، دونوں چاہیں گے کہ اُن کے حامی امیدوار زیادہ تعداد میں جیتیں تاکہ وہ پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرسکیں۔ اگر تین سال کی تاخیر سے ہونے والے انتخابات اب طے شدہ وقت پر ہوتے ہیں اور صدر اور چیف ایگزیکٹو اپنی تنائو زدہ حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن 2019 ء میں صدارتی انتخابات کا طبل بجتے ہی تعاون کی یہ فضا تحلیل ہوجائے گی۔ وہ ایک مرتبہ پھر اُسی ماحول میں الیکشن لڑیں گے جو 2014 ء میں دیکھنے میں آیا تھا۔ اُنھوں نے ایک دوسرے کے خلاف شدید مہم چلائی تھی ۔اشرف غنی نسلی طور پر پشتون ہیں، جبکہ ڈاکٹر عبداﷲ تاجک نسل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی ہزار ہ برادری کے قریب ہیں۔ اس طرح سیاسی تنائو نسلی کشیدگی کو ہوا دے سکتا ہے، جس کے نتیجے میں پرتشدد واقعات پیش آسکتے ہیں۔
صدر غنی نے حال ہی میں بلخ کے گورنر، عطامحمد نور کو برطرف کردیا ہے ۔ وہ 13برس تک اس عہدے پر موجود تھے۔ اس سے پہلے بھی غنی اور کرزئی نے اُنہیں ہٹانے کی کوششیں کی تھیں لیکن تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے گورنر نور نے مزاحمت کی ۔ گورنر کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے وہ مجاہدین کمانڈر تھے ۔ اُنھو ں نے مبینہ طور پر بہت سی دولت اور سیاسی اثرورسوخ سمیٹا ہے ۔ اُن کی برطرفی سے مخلوط حکومت دبائو میں آئے گی۔ نور اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے کچھ رہنما صدر غنی سے اپنا اتحاد ختم کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر عبداﷲ اور وزیر ِ خارجہ صلاح الدین رباّنی (جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور جس کا مخلوط حکومت میں پچاس فیصد حصہ ہے )کے معاہدے سے نکلنے کی صورت میں صدر غنی مزید دبائو میں آجائیں گے ۔ اس صورت میں وہ پشتون اتحاد قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ کوشش اُنہیںگلبدین حکمت یار تک لے جائے ۔
اس سے پہلے صدر غنی اپنے نائب صدر، دوستم کو برطرف کر چکے ہیں۔ آج کل دوستم ترکی میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اُنھوں نے دومرتبہ آنے کی کوشش کی لیکن اُن کے طیارے کو افغانستان میں اترنے کی اجازت نہ دی گئی۔
ایسا امریکی فوجی حکام کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا کیونکہ افغانستان کی فضا ئی حدود اُن کے کنٹرول میں ہے۔ دوستم نے نومبر 2016ء میں اپنے ایک سیاسی حریف، احمد اسچی کو تشدد اور انسانیت سوز سلوک کا نشانہ بنایا تھا، اس لئے امریکی اُن سے ناراض ہیں ۔ دوستم تو ترکی چلے گئے لیکن افغانستان میں قانون کی حکمرانی کا یہ عالم ہے کہ اُن کے محافظوں، جنہوں نے عملی طور پر عمر رسیدہ احمد اسچی کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا، کو ابھی تک سزا نہیں ہوئی۔
چاہے کرزئی کا دور ہو یااب اشرف غنی کا، افغان حکومت ہمیشہ سے ہی اتنی کمزور رہی ہے کہ جنگجو سرداروں کو خوش اورطالبان کے خلاف جنگ میں تعاون پر آمادہ رکھنے کیلئے سیاسی مفاہمت دکھانی پڑتی ہے۔ اگرچہ اب اشرف غنی نے حامد کرزئی کے برعکس بدعنوانی کے خلاف جنگ کرنے اور جنگجو سرداروں کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے دلیرانہ اقدامات اٹھائے ہیں لیکن گورننس کی حالت درست نہیں ہوسکی ۔ سیاست کے سنگلاخ حقائق ایک طرف، پاکستانی صحافیوں کیلئے کابل میں بہت گرم جوشی کا مظاہرہ کیا گیا۔ بہت سے عام افغان شہریوں نے بھی ہمارا خیر مقدم کیا۔ سرکاری افسران، بشمول وزرا نے کو شش کی وہ اس دوران پاکستان کیلئے ناقدانہ الفاظ ادا کرنے سے گریز کریں، گرچہ اُنھوں نے ہمیں بہت شائستگی سے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ کابل اور طالبان کے درمیان قیام امن کی کوششوں میں اسلام آباد کے تعاون کی توقع کرتے ہیں۔ پناہ گزینوںاور بحالی کے امور کے وزیر سید حسین عالمی بلخی نے اپنے پاکستانی ہم منصب، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ افغان مہاجرین کے مسائل حل کرنے کی پاکستانی کوششوں سے مطمئن ہیں۔ پاکستانی وفد کے ساتھ ڈاکٹر عبداﷲ کا رویہ بھی بہت دوستانہ تھا،ا ور وہ بالکل صاف گوئی سے کام لے رہے تھے ۔ صلاح الدین رباّ نی نے بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی تجاویز غور سے سنیں۔ افغان صحافیوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کے ساتھ ملاقات بھی بہت دلچسپ تھی۔ کچھ ٹی وی چینلز کا دورہ کرنے سے ہمیں ترقی کرتے ہوئے افغان میڈیا کی کارکردگی دیکھنے کا موقع ملا۔

تازہ ترین