• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کمیونٹی کی مشکلات اور حل کے ذمہ داران تحریر:قاری تصورالحق مدنی…برمنگھم

برطانیہ ایک ایسا ملک ہے جہاں دنیا کے ہر ملک کی نمائندگی موجود ہے اور پھر یقیناً ہر ملک کی قیادت کسی نہ کسی بہانے اپنے شہریوں سے ملنے یہاں آتی ہے اور ان ملکوں کے باشندے بھی اتنے بداخلاق نہیں ہوں گے کہ وہ اپنے لیڈران عظام سے کوئی ناتا ہی نہیں رکھتے ہوں گے، مگر ہم پاکستانیوں اور کشمیری کی منفرد ہی کیفیت ہے۔ ہماری تقریباً سو فیصد سرگرمیوں کا محور و مرکز اپنے آبائی ملک کی سیاست اور پھر علاقائی صورت حال ہے۔ آزاد کشمیر اور پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے باقاعدہ وجود ہی نہیں بلکہ ملکی طرز پر تمام سرگرمیاں عملاً موجود ہیں۔ ابھی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ لوگ یہاں کی سیاسی جماعتوں سے وابستگی اپنے آبائی ملک کی سیاست کے حوالہ سے نہیں رکھتے۔ مگر رونا اس بات کا ہے کہ ہماری کمیونٹی جس قدر متحرک اور فعال ہے وہ اس قدر اپنے مصائب اور مسائل پر قابو پانے میں کامیاب نہیں دکھائی دیتی۔ لندن کے بعد بڑا شہر برمنگھم ہے اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد یہاں آباد ہے اور اس شہر میں عوامی نمائندگی کے لحاظ سے لیبر پارٹی کو فوقیت حاصل ہے، مگر پارلیمنٹ میں صرف دو مسلمانوں کو نمائندگی مل پائی ہے، حالانکہ متحدہ کوششوں سے کم از کم چھ نمائندوں تک بات بڑھائی جاسکتی ہے۔ برمنگھم سٹی کونسل میں کوئی20کے قریب کونسلر حضرات موجود ہیں، مگر بے بسی کی حالت یہ ہے کہ ابھی تک ان کونسلرز کی شنوائی کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ تمامتر کوششوں کے باوجود ایک پاکستانی سینٹر تک کی منظوری نہیں کرواسکے ہیں۔ سینٹر کے علاوہ جن بڑے بڑے مسائل سے کمیونٹی پریشان ہے ان میں ایک مسئلہ میتوں کی جلد تدفین میں کرونر کی سست ہے،اور سست روی کے لیے بڑا عذر سکینگ مشین کی عدم دستیابی ہے اور دوسرا بڑا مسئلہ قبرستان کے لیے مناسب جگہ اور قبروں کی کاسٹ میں اضافہ ہے، مگر کوششوں کے باوجود ابھی تک مشکلات میں واضح کمی کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں۔ گزشتہ جمعرات کی بات ہے کہ ہمارے دوست چوہدری شاہ نواز اور ان کے بھائی عبدالخالق نے کوونٹری روڈ پر واقع ایک ریسٹورنٹ میں سرنگ فیلڈ کے حلقہ پارلیمنٹ کے ان کونسلر امیدواروں کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا جنہیں آنے والے مئی کے انتخابات کے لیے لیبر پارٹی کے ممبران نے چنا۔ برطانیہ میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جن حلقوں میں جس جس پارٹی کا اثر و رسوخ ہے وہاں جن امیدواروں کو ٹکٹ مل جاتا ہے گویا وہ اسی وقت سے منتخب ہی سمجھ لیے جاتے ہیں۔ چنانچہ راقم نے مذکور استقبالیہ کو غنیمت جانا اور مجلس میں موجود پرانے اور نئے آنے والے کونسلروں اور برمنگھم کی متوقع لارڈ میرس ایون ماسکیٹو کی موجودگی میں ان تمام مسائل کا مختصراً ذکر کر ڈالا جن سے کمیونٹی کو سامنا ہے اور چونکہ استقبالیہ میں مسٹر راجر گاڈسف ممبر آف پارلیمنٹ بھی موجود تھے چنانچہ ان باتوں کا بھی تذکرہ ہوا جن سے تارکین وطن مجموعی طور پر شکار ہیں۔ امیگریشن کے مسئلہ میں جن تکلیفوں سے پاکستانی اور کشمیری گزر رہے ہیں ان ہی سے باقی کمیونٹیوں کو بھی گزرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا مسٹر راجر گاڈ سف سے یہ گزارش کی گئی کہ وہ متعلقہ حلقوں میں تارکین وطن کو درپیش مشکلوں سے آگاہ کریں۔ مسٹر راجر گاڈسف کے حلقہ انتخاب میں بسنے والوں میں اکثریت کشمیریوں کی ہے اور کشمیریوں کا سب سے بڑا مسئلہ حق خودارادیت کا حصول ہے اور استقبالیہ کے اگلے روز1949ء میں5جنوری کو اقوام متحدہ میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے منظور کی گئی قرارداد پر ابھی تک عمل نہ ہونے کے سلسلہ میں آواز بلند کرنے کے لیے یوم حق خودارادیت تھا۔ لہٰذا راقم نے اس سلسلہ میں انہیں یادہانی کرائی، بلکہ لیبر پارٹی کے دوراقتدار میں برائٹن میں لیبر پارٹی کی قرارداد کی منظوری کو بھی دہرایا، جس میں لیبر پارٹی کی کانفرنس نے متفقہ طور پر کشمیریوں کے لیے حق خودارادیت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ راقم نے اقوام عالم کے سامنے دوسرے بڑے عالمی مسئلہ فلسطین کو بھی مجلس استقبالیہ کا حصہ بنایا اور مسٹر ٹرمپ کے رویہ کو عالمی امن کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے ٹرمپ کے حالیہ اعلان کو دنیا کے لیے تباہ کن قرار دیا اور مسٹر راجر گاڈ سف اور دیگر قیادت سے اپیل کی گئی کہ وہ ٹرمپ کے ظالمانہ اعلان کے خلاف آواز بلند کریں اور اس قدر دبائو پیش کریں کہ ٹرمپ اپنے اعلان کو واپس لینے پر مجبور ہوجائے۔ گویا اختصار کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ کمیونٹی کو اپنے مسائل سے مسائل کے حل کے ذمہ داران لیڈران کرام کے سامنے بلا جھجک آواز پہچانی چاہیے، تاکہ ان کے ذریعہ متعلقہ فورموں تک رسائی ہوپائے اور مسائل کے حل کی طرف قدم بڑھتے محسوس ہوں۔

تازہ ترین