چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ سے 7 روز میں واقعے کی رپورٹ طلب کرلی ۔
ایس ایس پی ملیر راؤانوار کے ہاتھوں 13 جنوری کو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں مبینہ پولیس مقابلے کے دوران تحریک طالبان پاکستان اور کالعدم لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والا دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعوی کیا تھا جن میں نقیب اللہ بھی شامل تھا۔
راؤانوار کے اس دعوے کے جواب میں نقیب اللہ کے رشتے داروں اور دوستوں نے راؤ انوار پر جعلی پولیس مقابلے کا الزام لگایا اور بتایا کہ مقتول کاروبار کے سلسلے میں کراچی آیا تھا اور اس کی الآصف اسکوائر پر کپڑے کی دکان تھی اور وہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں تھا۔
اس موقف کے بعدگزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیرداخلہ کو مبینہ پولیس مقابلے کی انکوائری کا حکم دیاتھا۔
نقیب اللہ کی موت کی تحقیقات کے لیےوزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال کی ہدایت تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کے روبرو آج ایس ایس پی ملیر راؤانوار پیش ہوئے اور اپنا بیان قلمبند کروایا ۔
بیان میں ان کا کہنا تھا کہ نقیب اللہ 2014 میں اغوا برائے تاوان کے مقدمے میں مفرور ہے اور اس کیس میں جھوٹا الزام لگا کر مجھے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
راؤانوارنے کہا کہ حلیم عادل شیخ کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی،جس کا بدلہ مجھ سے لیا جارہاہے۔
انکوائری کمیٹی کے حوالے سے ڈی آئی جی ایسٹ سلطان خواجہ نے کہا ہے کہ یہ اوپن انکوائری ہے اگر کوئی عینی شاہد بیان ریکارڈ کرانا چاہے تو کرا سکتا ہے۔ذرائع کے مطابق کمیٹی تین روز میں مکمل تحقیقات کے بعد رپورٹ آئی جی سندھ کو پیش کرے گی۔
وزیرداخلہ سندھ سہیل انورسیال نے کہا کہ راؤ انوار کمیٹی کو مطمئن نہ کر سکےتو عہدے سے ہٹا دیں گے، آصف زرداری سے تعلق کا مطلب یہ نہیں کہ راؤ انوار کے غلط کاموں کو بھی قبول کر لیا جائے۔