یوں تو دنیا کا ہر قابل ذکر ملک افغانستان میں جاری عالمی بزکشی میں اپنا اپنا گھوڑا دوڑا رہا ہے لیکن بنیادی کھلاڑی تین ہی ہیں۔ یعنی امریکہ ، افغان حکومت اور پاکستان۔ اب ایک صورت تو یہ ہے کہ یہ تینوں ایک ہدف اور سٹریٹجی پر متفق ہوجائیں لیکن پچھلے دس سالہ تجربے کا درس یہی ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ وجہ صاف ظاہر ہے ۔ امریکہ اور پاکستان کے اہداف ایک ہیں اور نہ تحفظات و خدشات ۔ امریکہ باہر سے آئی ہوئی قوت ہے ۔ القاعدہ اور طالبان سے نمٹنا ان کی ترجیح اولین ضرور ہے لیکن خطے کے لحاظ سے اس کی وش لسٹ (Wish List) پاکستان، ایران، چین، وسط ایشیائی ریاستوں اور خود افغانستان کی وش لسٹ سے یکسر متصادم ہے ۔اپنی تو سوچی سمجھی رائے ہے کہ پاکستان اور بھارت کے اہداف اور مفادات ایک ہوسکتے ہیں لیکن امریکہ اور پاکستان کے نہیں ہوسکتے ۔ پاکستان پچھلے دس سالوں سے پہلے جنرل پرویز مشرف اور اب جنرل اشفاق پرویز کیانی کی زیرقیادت امریکہ کے ساتھ اس حوالے سے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ایسا نہیں ہوسکااور جب پچھلے دس سالوں میں نہیں ہوسکا تو اب بھی اس کا کوئی امکان نہیں۔ اسی طرح حامد کرزئی کی حکومت کی بساط ابتداء میں امریکہ کی زیرقیادت عالمی قوتوں نے ہی بچھائی تھی لیکن آج امریکہ کے ساتھ اگر ان کی مخاصمت عروج پر پہنچ گئی تو اس کی بھی وجہ یہی ہے کہ افغانی کوئی بھی ہو، امریکہ اور اس کے مقاصد اور اہداف ایک نہیں ہوسکتے۔امریکہ کی بدمعاشیوں اور افغان حکومت کی مجبوریوں کے باوجود دونوں کے مابین جنگی حکمت عملی پر اتفاق آسکا اور نہ طالبان کے ساتھ مفاہمت کے موضوع پر۔ پچھلے صدارتی انتخابات میں یہ کشمکش ایسی مکمل جنگ میں بدل گئی کہ امریکیوں نے کرزئی کو ہروانے کی بھرپور کوشش کی اور اب یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ کسی بھی وقت انہیں مروانے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔اب جب امریکہ کے ساتھ بات نہیں بن سکتی تودوسری ممکنہ صورت یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان ایک ہوجائیں ۔ دونوں مل کرافغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلاء اور طالبان کے ساتھ مفاہمت کی راہ نکالیں۔ اگرچہ ان دونوں کا ماضی بھی تلخیوں اور ایک دوسرے کے ساتھ دونمبریوں سے عبارت ہے ۔ اس حوالے سے حامد کرزئی کی حکومت سے بھی بلا کی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اور اب بھی ہورہی ہیں لیکن میرے نزدیک امریکہ کی بنسبت افغانستان کے ساتھ پاکستان کی اکٹھ نسبتا آسان اور ممکن ہے ۔ وجہ صاف ظاہر ہے ۔ مساجد، سکول، پل اور گھر امریکہ کے نہیں بلکہ افغانستان اور پاکستان کے تباہ ہورہے ہیں۔براہ راست متاثرین افغان ہیں یا پھر پاکستانی ۔ بدامنی سے دونوں ملک جہنم بنے ہوئے ہیں اور اگر امن آجائے تو دونوں جنت بن سکتے ہیں۔ یوں دونوں کا ہدف اور مقصد ایک ہے اور ہوسکتا ہے ۔ یہاں غلط فہمیاں گلے شکوے ہیں اور شکوک و شبہات ہیں۔ ماضی کو بھلا کر اخلاص کے ساتھ کوشش کی جائے تو انہیں دور کیا جاسکتا ہے ۔لیکن المیہ یہ ہے کہ ان دونوں کے مابین امریکہ آگیا ہے جو دونوں کو قریب ہونے نہیں دیتا ۔ امریکہ پاکستان سے بھی تنگ آگیا ہے اور افغان حکومت سے بھی ۔ پاکستان اس کے حسب منشا کردار ادا کررہا ہے اور نہ افغان حکومت۔ یوں جب ان دونوں کے مابین کشیدگی عروج پر ہوتی ہے تو امریکہ کے لئے دونوں کو بلیک میل کرنا آسان ہوتا ہے ۔ یہ دونوں ایک ہوگئے تو افغان حکومت بھی امریکہ کے مقابلے میں کھڑا ہوجانے کی قابل ہوسکے گی اور پاکستانی حکمرانوں کو بھی ایسا کرنے کا حوصلہ مل جائے گا۔ امریکہ دباؤ ڈال رہا ہے کہ پاکستان طالبان سے ان کی مفاہمت کروادے لیکن ایسا ممکن نہیں۔ البتہ کرزئی حکومت اور طالبان کی صلح ممکن ہے ۔ دونوں کے کیمپ مختلف ضرور ہیں لیکن دونوں طرف افغان ہیں اور مسلمان ہیں۔ طالبان اگر اس وقت کرزئی حکومت کے ساتھ بات کرنے کو تیار نہیں تو اس کی وجہ غیرملکی افواج ہیں۔ وہ اپنے اصل مطالبات کے حوالے سے حامد کرزئی کو بے اختیار سمجھتے ہیں ۔ اب اگر پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں مل کر غیرملکی افواج کو انخلاء پر آمادہ کرلیں تو طالبان اور افغان حکومت کی مفاہمت کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی ختم ہوجائیں گی۔ امریکہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کو اپنی لائن پر لانے کی آخری کوشش کررہا ہے ۔ اس میں ناکام ہوا اور یقینا ناکام ہوگا تو پھر وہ دونوں کو سبق پڑھانے کی کوشش کرے گا۔ سبق پڑھانے کے لئے وہ افغانستان کے شمال کو مرکز بنانا اور غیرپختون افغانوں کو طالبان اور دیگر پختون افغانوں سے لڑوانا چاہے گا۔ یوں اس کی اس سازش کو ناکام بنانے کا راستہ یہ ہے کہ ہم افغانستان کے حوالے سے پختون اور غیرپختون کا ورد چھوڑ دیں ۔ ہم سب افغانوں کو ایک جیسا سمجھیں ۔ یوں بھی پچھلے ایک ماہ کے حالات نے ثابت کردیا کہ اب پختون افغان غیرپختون افغانوں سے زیادہ ہم پر برہم ہیں ۔ پروفیسر ربانی کے قتل کے بعد ان کے بیٹے نے پاکستان کے خلاف اپنے منہ سے لفظ بھی نہیں نکالا۔ تاجک مارشل فہیم (سیئنر نائب صدر) نے پاکستان کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا۔ ازبک رشید دوستم پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ۔ ہزارہ استاد محقق نہ صرف خاموش رہے بلکہ پاکستان کے دورے پر چلے آئے ۔ اس کے برعکس پختون استاد سیاف اور صبغت اللہ مجددی جیسے رہنما، حامد کرزئی پر پاکستان مخالف موقف اپنانے کیلئے دباؤ ڈالنے والوں میں سرفہرست رہے ۔ پاکستان کیخلاف الزام افغان وزارت داخلہ اور اینٹیلی جنس کی طرف لگایا گیا اور دونوں کی قیادت پختون کررہے ہیں ۔ اس لئے اب سب کو افغانوں کو ایک جیسا دوست بنانے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ انہیں پختون اور غیرپختونوں میں تقسیم کرکے امریکہ کاکام آسان کردیا جائے ۔
اور اب چند الفاظ ”پختون“ الطاف حسین کے بارے میں۔”جرگہ“ کے قارئین گواہ ہیں کہ میں کراچی کے بحران کے بارے میں ہمیشہ سے لکھتا رہا کہ یہ پختون، اردو بولنے والے اور سندھی وغیرہ کی جنگ نہیں بلکہ سیاسی مفادات کی جنگ ہے جسے لسانی جنگ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ گذشتہ جمعرات کو روزنامہ” جنگ “میں شائع ہونے والے ایم کیوایم کے قائد تحریک الطاف حسین کی تحریر نے اس رائے پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ پختونوں کی توہین پر پختونوں کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں کی قیادت توخاموش رہی لیکن اردو بولنے والوں کے لیڈرالطاف حسین بھڑک اٹھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب خیبرپختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی نے صوبے کی وزارت اعلیٰ کے لئے سردار مہتاب احمد خان عباسی (جوغیرپختون تھے) کو نامزد کیا تو ایک پریس کانفرنس کے دوران میں نے محترمہ بیگم نسیم ولی خان سے استفسار کیا کہ ان کی جماعت اپنے پختون لیڈروں اور پشتو بولنے والے مسلم لیگی پیر صابر شاہ کے ہوتے ہوئے کیوں ایک غیرپختون کو وزیراعلیٰ بنانے چلی ہے تو بیگم نسیم ولی خان نے جواب دیا تھاکہ
”اگرچہ سردار مہتاب ، عباسی ہیں لیکن وہ اچھے بھلے پختونوں سے بڑے پختون ہیں“۔ مذکورہ تحریر کو پڑھتے ہوئے میرے اور بہت سارے پختون قارئین کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ کم از کم اس معاملے میں الطاف حسین پختونوں کے اچھے بھلے علمبرداروں سے بڑے ”پختون“ ثابت ہوئے مجھے یقین ہے کہ اسی طرح کے اقدامات کے ساتھ کراچی کے اندر لسانی بنیادوں پرابھاری جانے والی نفرت میں کمی آئے گی۔ظاہر ہے موجودہ تناؤ اور نفرت پختونوں کے حق میں بہتر ہے، سندھیوں کے حق میں اور نہ اردو بولنے والوں کے حق میں ۔ میرٹ اور حق کی بنیادی پر اسی طرح دوسری لسانی اکائیوں کی حق میں آواز اٹھانے کی روش چل پڑی تو امن و آشتی کی راہ ہموار ہوگی۔لیکن ایسا کرنے کے بڑی جرات درکار ہوتی ہے جس کا بدقسمتی سے پاکستانی قیادت کی صفوں میں شدید فقدان ہے۔