• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیرت مند پٹھان کی للکار...قلم کمان …حامد میر

عمران خان ایک مشکل راستے کا مسافر ہے۔ وہ مایوسی کے اندھیروں میں بھٹکتی قوم کے لئے روشنی تلاش کررہا ہے۔ آپ اُس کے کچھ ہم سفروں کے داغدار ماضی پر سوال اُٹھاسکتے ہیں، اُس کی سیاست سے اختلاف بھی کرسکتے ہیں لیکن عمران خان کی نیت پر شک صرف وہ کرسکتا ہے جو خود بدنیت ہے۔ عمران خان کی نیت کو سمجھنے کے لئے اُس کی نئی کتاب ”پاکستان … اے پرسنل ہسٹری“ کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ اس کتاب میں عمران خان نے پاکستان کو درپش اہم مسائل کا بڑے سیدھے سادھے انداز میں تجزیہ کرنے کے بعد شاعر مشرق علامہ اقبال  کے نظریات کی روشنی میں مسائل کا حل پیش کردیا ہے۔ جب تک اس کتاب کا اردو ترجمہ سامنے نہیں آتا اس کتاب کو عوامی پذیرائی نہیں ملے گی لیکن اس کتاب کی برطانیہ میں اشاعت بھی ایک بڑی کامیابی ہے۔عمران خان نے اس کتاب کے ذریعہ دراصل مغرب کے سامنے پاکستان کا مقدمہ پیش کیا ہے اور عام پاکستانیوں کے جذبات کی ترجمانی میں کسی سیاسی مصلحت سے کام نہیں لیا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ اور ڈرون حملوں کے بارے میں عمران خان نے جو کچھ اپنی کتاب میں لکھ دیا ہے وہ صرف کوئی ایسا شخص ہی لکھ سکتا ہی جو اقتدار کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ عمران خان کے اندر ایک پڑھا لکھا مسلمان، محب وطن پاکستانی اور ایک غیرت مند پٹھان بول رہا ہے۔ عمران خان نے بڑے فخر سے لکھا ہے کہ اُس کی ماں کا تعلق برکی اور باپ کا تعلق نیازی قبیلے سے ہے۔پاکستان کے قبائلی علاقوں کی صورت حال کے بارے میں پورا ایک باب عمران خان کی کتاب میں شامل ہے۔ اس کتاب میں عمران خان نے گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد قبائلی علاقوں میں شروع کئے گئے آرمی آپریشن پر شدید تنقید کی ہے اور واضح کیا ہے کہ ان علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں سے دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں ہورہا بلکہ مزید دہشت گرد پیدا ہورہے ہیں۔ یہ کتاب پڑھنے کے بعد سمجھ میں آئے گا کہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن براہ راست طالبان کے رہنما ملامحمد عمر کو مذاکرات کی دعوت دے رہی ہیں لیکن وہ اس کا جواب کابل میں ایک فدائی حملے کے ذریعہ کیوں دیتے ہیں جس میں 13 امریکی فوجی مارے گئے؟۔
عمران خان کی کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ پختون صرف وہ نہیں جو پشتو بولتا ہے بلکہ اصلی پختون وہ ہے جو ”پشتون ولی“ پر عمل کرتا ہے۔ ”پشتون ولی“ دراصل وہ روایات ہیں جن پر پاکستان اور افغانستان کے پختون صدیوں سے عمل کررہے ہیں۔ انہی روایات کے باعث پختونوں کی مہمان نوازی، بہادری اور وفاداری آج بھی زندہ ہے اور انہی روایات کے باعث ایک پختون کے ساتھ ناانصافی کا بدلہ اُس کے پورے قبیلے پر واجب ہوتا ہے۔ عمران خان نے ”پشتون ولی“ کے تناظر میں امریکا کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ تم نے ڈرون حملوں میں ہزاروں بے گناہ پختونوں کو قتل کیا ہے ان ہزاروں پختونوں کے لاکھوں رشتہ دار جب تک زندہ ہیں اپنی روایات کے عین مطابق تمہارے خلاف انتقام کی جنگ لڑتے رہیں گے۔ ڈرون حملوں کے خلاف عمران خان کی تحریک میں اُن کی سابقہ اہلیہ جمائما خان بھی شامل ہوچکی ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان اور جمائما میں طلاق ہوچکی ہے پھر یہ دونوں آپس میں کیوں ملتے ہیں؟ جمائما کا کہنا ہے کہ عمران خان اُن کے دو بچوں کا باپ ہے اور دونوں بچے پاکستانی ہیں۔ جب پاکستان اور انگلینڈ کا کرکٹ میچ ہوتا ہے تو دونوں بچے پاکستان کے حق میں نعرے لگاتے ہیں،میں ان دو بچوں سے اُن کے باپ کو نہیں چھین سکتی۔ جمائما کے ساتھ اسلام آباد میں ہونے والی ایک حالیہ ملاقات میں امریکی وکیل کلائیو اسمتھ بھی موجود تھے۔ کلائیو نے مجھ سے کہا کہ جمائما کو عمران خان نے پاکستان نہیں بلایا بلکہ وہ میرے ساتھ پاکستان آئی ہے کیوں کہ میں نے جمائما کو ڈرون حملوں کے خلاف ایک دستاویزی فلم بنانے پر راضی کیا ہے۔ کلائیو اسمتھ کے ساتھ گفتگو میں مجھے پتہ چلا کہ عمران خان ڈرون حملوں کے خلاف مغربی ذرائع ابلاغ میں ایک بڑی جنگ لڑنے کی تیاری کررہا ہے۔ اُسے اچھی طرح پتہ ہے کہ اُس کے مخالفین بہت طاقتور ہیں اور وہ اُس کے ماضی میں سے کئی جھوٹی سچی کہانیاں تلاش کررہے ہیں تاکہ غیرت مند پٹھان کو بے ایمان ثابت کیا جاسکے لیکن پٹھان الله تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔ وہ کہتا ہے کہ اقبال  ہمیں دوبارہ مل گیا تو ہماری سب مشکلات آسان ہوجائیں گی۔
عمران خان کو اعتراف ہے کہ اُس نے اقبال  کو بہت دیر سے سمجھا ہے لیکن اقبال  اور غیرت مند پٹھانوں کی محبت بہت پرانی ہے۔ علامہ اقبال  کی شاعری پٹھانوں اور افغانوں سے محبت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ شاعر مشرق کی افغانوں سے عقیدت کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ حضرت علی ہجویری  غزنی سے لاہور آئے تھے اور انہوں نے یہاں اسلام پھیلایا۔ احمد شاہ ابدالی  اور خوشحال خان خٹک  کے ساتھ اقبال  کی محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اقبال نے اپنی زندگی میں فلسطین اور کشمیر کے علاوہ افغانستان کے لئے بھی عملی جدو جہد کی۔ 1929ء میں افغانستان کے بادشاہ غازی امان الله کے خلاف بغاوت کے بعد حبیب الله کلکانی نے حکومت پر قبضہ کرلیا۔ حبیب الله کلکانی افغانستان کا پہلا تاجک حکمران تھا اور بچہ سقہ کے نام سے مشہور ہوا کیوں کہ اُس کا باپ ایک ماشکی تھا۔ بچہ سقہ کا مطلب تھا ماشکی کا بیٹا۔ علامہ اقبال  کا خیال تھا بچہ سقہ کو اقتدار دلوانے میں برطانوی حکومت کی سازشوں کا عمل دخل تھا لہٰذا اُنہوں نے لاہور میں بچہ سقہ کے خلاف ایک مظاہرہ کروایا۔ بچہ سقہ کے خلاف مزاحمت کو منظم کرنے کے لئے ظاہر شاہ کے والد نادر شاہ پیرس سے لاہور آئے۔ وہ بغاوت کے وقت فرانس میں افغانستان کے سفیر تھے۔ اُنہوں نے لاہور میں علامہ اقبال  سے ملاقات کی۔ 25 فروری 1929ء کو ہونے والی اس ملاقات میں محمد ہاشم خان اور شاہ ولی خان بھی موجود تھے۔ اقبال  نے نادر شاہ کے لئے کچھ رقم اکٹھی کررکھی تھی۔جب یہ رقم پیش کی گئی تونادر شاہ کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔ اُنہوں نے شکریے کے ساتھ رقم لوٹادی اور کہا کہ ضرورت پڑنے پر آپ سے ضرور مانگ لوں گا۔ نادر شاہ لاہور سے پشاور اور وہاں سے وزیرستان چلے گئے جہاں اُنہوں نے علی خیل کے علاقے میں اپنے ساتھیوں کو منظم کیا اور خوست کے راستے سے کابل پر حملہ کیا۔ نادر شاہ کے بھائی شاہ ولی خان نے چند دنوں کے اندر اندر کابل کو فتح کرلیا اور بچہ سقہ کو سزائے موت دے دی۔ بچہ سقہ صرف نو ماہ تک افغانستان کا حکمران رہا اور اُس کی موت کے بعد اُس کے تاجک قبیلے نے پختونوں کے خلاف بہت سے محاورے تشکیل دیئے۔ 1933ء میں نادر شاہ نے علامہ اقبال  کو افغانستان کے دورے کی دعوت دی۔ نادر شاہ نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد کابل یونیورسٹی قائم کی تھی لیکن یونیورسٹی میں مختلف شعبہ جات کے قیام، نصاب کی تشکیل اور اساتذہ کی تلاش کے لئے اُنہوں نے علامہ اقبال  کو بلایا۔ علامہ اقبال  اپنے ساتھ سید سلیمان ندوی، راس مسعود اور بیرسٹر غلام رسول خان کو بھی لے گئے اور کابل یونیورسٹی کو ایک عظیم درس گاہ بنانے کے لئے تحریری منصوبہ نادر شاہ کے حوالے کیا۔ اس دورے میں انہوں نے کابل میں حاجی صاحب ترنگزئی اور مُلا شور بازار سے بھی ملاقات کی۔ غزنی میں اقبال  نے حضرت علی ہجویری  کے والد حضرت عثمان ہجویری کی قبر تلاش کرکے وہاں فاتحہ کی سعادت حاصل کی تھی۔ ان بزرگوں کے طفیل پاکستان اور افغانستان میں جو رشتے قائم ہیں وہ کبھی نہیں ٹوٹ سکتے۔ آج پاکستان اور افغانستان کی حکمران اشرافیہ ان تاریخی رشتوں سے بے خبر ہے کیوں کہ اس اشرافیہ کے رشتے امریکا سے شروع ہوکر امریکا پر ختم ہوتے ہیں۔ عمران خان کی کتاب ہمیں ان تمام رشتوں کو اقبال  کی نظر سے دیکھنے کی دعوت دیتی ہے اور یہ سوال کرتی ہے کہ اگر آج احمد شاہ ابدالی  یا خوشحال خان خٹک زندہ ہوتے تو کیا وہ سامراجی طاقتوں کے ظلم و ناانصافی کے خلاف مزاحمت کرتے یا سامراج کے سامنے سرجھکادیتے؟ اقبال  کا مرد مومن اور اقبال  کا غیرت مند پٹھان سرجھکانے پر نہیں بلکہ آخری فتح تک لڑائی پر یقین رکھتا ہے اور عمران خان کی کتاب میں اسی غیرت مند پٹھان کی للکار سنائی دیتی ہے۔
تازہ ترین