• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بتایا گیا ہے اور قرین قیاس بھی لگتا ہے کہ تیسری دنیا کے ہمارے جیسے غیر ملکی قرضوں کے ذریعے پس ماندہ بنائے گئے ملکوں کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ وہاں کے بیشتر سیاسی تجزیہ کار پرانے زمانے کے فال، رمل، دلیل، قسمت کا حال اور نصیبوں کا لکھا بیان کرنے والے ”ہرڑ پوپو“ ہوتے ہیں جو زمینی حقائق اور معروضی حالات کے مطابق آنے والے حالات کا Prospective تیار کرنے کا شعور نہیں رکھتے اور محض اپنی خواہشوں اور اندیشوں کو زبان دے دیتے ہیں۔ لوگوں میں مایوسیاں پھیلانے والی توقعات پیدا کر کے غیرقانونی غیر آئینی حکومتوں کو اقتدار میں لانے اور کرپشن بددیانتی کی راہیں ہموار کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ پہلے مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں سے تحریک پاکستان کی مخالفت کرواتے ہیں اور پھر ان سے نظریہٴ پاکستان تیار کرواتے ہیں کہ انقلاب کے ”اندیشوں“ کو ردِ انقلاب کے ذریعے تلف کیا جا سکے۔
اس کا ایک تازہ ترین ثبوت یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ وطن عزیز میں آئین کے مطابق عام انتخابات میں ابھی پندرہ مہینے باقی ہیں اور ایسا کوئی سیاسی معجزہ رونما ہوتا دکھائی نہیں دے رہا جو ان پندرہ مہینوں کو پندرہ دنوں میں تبدیل کر دے مگر عمران خان کی صورت میں ابھرنے والے یا ابھارے گئے ایک نئے نجات دہندہ کی ”لاہور ریلی“ خود اس کے اپنے منتظمین کی توقعات سے بھی زیادہ کامیاب قرار پائی جس نے تحریک انصاف کے لیڈروں اور ان کے درِ امید کے دریوزہ گروں میں یہ خوش فہمی پیدا کر دی کہ وہ لپک کر 1970ء سے بھی بڑے سیاسی انقلاب کو اپنی بانہوں میں لے لیں گے اور قیام پاکستان سے پہلے آزادی کو دیوانے کا خواب قرار دینے والے ان بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں کی طرح اقتدار کی ٹہنیوں سے اپنے حصے کے گلاب توڑنے لگیں گے جو رات کو آنکھ پر تھوک لگا کر سوئے تھے اور صبح پاکستان بن گیا تھا یا فیض احمد فیض کی طرح یہ سمجھنے لگے ہیں کہ
آتے آتے یونہی دم بھر کر رُکی ہو گی بہار
جاتے جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے
مگر موسموں کی تبدیلی، طوفانوں اور سونامیوں کے پیچھے بھی قدرتی حالات، زلزلے اور معروضی صورتحال اپنا کردار ادا کر رہی ہوتی ہے جیسے ڈینگی وائرس سے نجات پانے کے لئے پنجاب اور خصوصاً لاہور کے لوگ موسم سرما کی پہلی بارش کے انتظار میں نومبر کے پہلے ہفتے میں داخل ہو چکے اور مطلع صاف دکھائی دیتا ہے۔
گزشتہ رات بعض ٹی وی چینلوں پر جہاں یہ بتایا جا رہا تھا کہ لاہور ریلی میں عمران خان کی ”للکار“ سے متاثر ہو کر سیاسی جماعتوں کے لیڈر اپنے اثاثے ظاہر کرنے سے گریز کر رہے ہیں وہاں یہ بھی بتایا گیا کہ عمران خان کی اپنی تحریک انصاف اس ملک کی سیاست کو برباد اور جمہوریت کو تباہ کرنے والے کیسے کیسے اثاثوں کی فوری توجہ میں آ رہی ہے جن کی موجودگی میں اس تحریک کو کسی اور بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں رہے گی اور اس معاملے میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی سے بھی زیادہ خود کفیل ہو جائے گی۔ بتانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ جس پارٹی کے دروازے لغاریوں اور مزاریوں کے لئے چوپٹ کھل جائیں اسے کسی اور کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ سیاست میں چھوٹی پارٹیوں کے ”بڑے “ لیڈروں اور بڑی پارٹیوں کے چھوٹے لیڈروں کا اجتماع ہو جائے تو قیامت کچھ زیادہ دور نہیں رہ جاتی۔ ملک کی بڑی سیاسی پارٹیوں سے دودھ پینے والے مجنوؤں کی مراجعت ان پارٹیوں کے لئے نیک فال ہو سکتی ہے کہ پارٹیوں میں اچھے اور تازہ خون کے داخل ہونے کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔
عمران خان نے لاہور ریلی میں جس انقلاب کو برپا کرنے کا اعلان کیا ہے اس کا سدباب کرنے والے سیاستدانوں اور سیاست بازوں کا ایک انبوہ تحریک انصاف کی طرف لپکتا دکھائی دیتا ہے اور وطن عزیز کی سیاست میں آنے والی ہر تبدیلی کے وقت دکھائی دیتا رہا ہے چنانچہ اپنے اثاثے غیر ملکی بنکوں میں محفوظ رکھنے والوں کو بھی کوئی پریشانی ہوتی دکھائی نہیں دیتی اور پٹواریوں اور پولیس والوں کو بھی پٹواری اور پولیس کلچر کے تبدیل ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ہونا چاہئے۔ معلوم نہیں کس شاعر نے کہا تھا مگر بالکل صحیح کہا تھا کہ
یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں جانور
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے
تازہ ترین