• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چوہدری شجاعت حسین کا تبصرہ ...کڑوا سچ…طارق بٹ

لاہور میں عمران خان کے 30اکتوبر کے جلسے کے بعد سب سے زیادہ موزوں اور ناقابل فراموش جملے قاف لیگ کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے کہے ہیں انہوں نے اپنی روایتی سیاسی ذہانت سے کپتان کی پارٹی کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہر شہر میں چھوٹی چھوٹی لانڈریاں لگی ہوئی ہیں اور ایک ڈرائی کلین پلانٹ راولپنڈی میں بھی ہے جس میں ہر قسم کے سیاستدانوں کی میل کچیل صاف کرکے پاکستان تحریک انصاف میں شامل کیا جا رہاہے۔ ہلکے پھلکے انداز میں چوہدری شجاعت نے بڑے پتے کی بات کر دی اور پہلوؤں کے علاوہ ان جملوں میں ان کے غصے کا بھی اظہار ہے ۔وہ دراصل یہ کہہ رہے ہیں کہ درحقیقت قاف لیگ اسٹیبلشمنٹ کی نہ صرف پیداوار بلکہ منظور نظر ہے اور ہر وقت خدمت کرنے کو تیار ہے مگر نیا گھوڑا کیوں تلاش کر لیا گیا ایسا کر کے ہم پر عدم اعتماد کیوں کیا گیا۔ چوہدری شجاعت نے جو بات کہی ہے وہ نہ صرف عمران خان کے سیاسی مخالفین بلکہ کچھ ہمدردوں کی زبان پر بھی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک دھڑاتحریک انصاف کو ایک بڑی سیاسی قوت بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ہر کوئی یہ تاثر دے رہا ہے کہ چونکہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے ساتھ ہے لہذا ان کی پارٹی میں شامل ہونا چاہئے۔ اس بارے میں تحریک انصاف کے ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کا بھی حوالہ دیاجاتا ہے جواسی کے حکم پر کئے گئے ۔ عمران خان ابھی یہ تاثر زائل کرنے میں ناکام ہوئے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کا کھیل کھیل رہے ہیں جس کا مقصد بڑی سیاسی جماعتوں کے زور کو توڑنا ہے تاکہ اگلے انتخابات میں کوئی بھی سیاسی قوت واضح اکثریت حاصل نہ کر سکے ۔ اس ساری کوشش میں اصل نشانہ نون لیگ تھی کہ کس طرح اس کا ووٹ پنجاب میں تقسیم کیا جائے مگر اس حملے سے پیپلزپارٹی بھی محفوظ نہیں ہے بلکہ ابھی تک جو لوگ تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں ان کی بہت بڑی اکثریت یا تو قاف لیگ کی ہے یا پیپلزپارٹی کی ۔ ان پرندوں پر غور کیا جائے تو یہ وہ لوگ ہیں جو یا تو انتخابات میں ہارے ہوئے ہیں یا دونوں بڑی جماعتوں میں کوئی بھی ان کو قبول کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی انہیں اگلے انتخابات میں ٹکٹ دینے پر رضا مند ہے ۔یہ دوسرے یا تیسرے درجے کی قیادت اور امیدوار ہیں جن کا اپنے اپنے حلقوں میں کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہے مگران کی اکثریت اس قابل نہیں کہ وہ خود ہی الیکشن جیت سکے۔
ہر سیاستدان کی طرح عمران خان کا نعرہ بھی ملک میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی لانا ہے مگر سوال یہ ہے ان گھسے پٹے اور آز مودہ سیاستدانوں کے ذریعے وہ کیسے تبدیلی لاسکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ سوال بھی بڑا اہم ہے کہ کیا عمران خان ایک خاص مزاج کے مالک ہیں انہیں نہ صرف اپنے مزاج کو بدلنا ہو گابلکہ اپنی پارٹی کے لیڈروں اور ورکرز کو بھی یہ سکھانا ہو گا کہ انہیں سیاسی میدان میں کیسے چلنا ہے ۔ ہر بات پر غصہ اور ہر تنقید کرنے والے کو کسی کا ایجنٹ قرار دینا قابل مذمت بات ہے ۔ ابھی تو عمران خان نے بڑے بڑے امتحان پاس کرنے ہیں ان کا پالا دیوقامت سیاسی جماعتوں سے پڑا ہوا ہے ۔چھوٹی موٹی شخصیات کی عمران خان کی پارٹی میں شمولیت سے ان کا کچھ زیادہ نہیں بگڑے گا۔15سال کی سیاست کے بعد ایک بڑا جلسہ کر کے یہ سمجھ لینا کہ میدان فتح کر لیا ہے بچگانہ بات ہے۔
عمران خان انقلاب کی بات کر رہے ہیں۔ اگر وہ آئین اور قانون پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنالیں تو صحیح معنوں میں انقلاب آجائے گا۔ لگ ایسے رہا ہے کہ عمران 30 اکتوبر کے جلسے کی عوامی پذیرائی کے نشے میں متعلقہ قوانین کو زیر غور نہیں لا رہے۔ مثلاً ان کا یہ کہنا کہ کچھ سیاستدانوں نے اپنے اثاثے صحیح ظاہر نہیں کئے عجیب سا لگ رہاہے۔ اس کے لئے قانون موجود ہے۔ہر الیکشن لڑنے والا امیدوار اپنے اثاثے ڈیکلیئر کرتا ہے ۔ الیکشن کمیشن ان اثاثوں کو ایک کتاب کی شکل میں شائع کرتاہے جس پر ہر خاص و عام کی رسائی ممکن ہے۔ اگر کوئی امیدوار اثاثے غلط ظاہر کرے گا تو وہ نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ قانون موجودہے چاہئے آج تک کوئی ایک امیدوار بھی اس وجہ سے نااہل قرار نہیں دیا گیا۔ عمران خان یہ کر سکتے ہیں کہ حکومت میں آنے کے بعد الیکشن کمشن کے گزٹ کی سکرونٹی کریں اور تمام ایسے سیاستدانوں کو سزا دیں جنہوں نے اپنے اثاثے غلط ڈیکلیئر کئے ہیں جرم ثابت ہونے پر نوازشریف بھی رگڑے میں آجائیں گے۔امید ہے جوں جوں عمران خان میدان سیاست میں اپنی 15سال کی محنت کے بعد مختلف اندازمیں اور احتیاط سے چلیں گے انہیں سارے پیچ و خم معلوم ہوتے جائیں گے اور قوانین کا علم بھی ہو جائے گا پھر وہ شاہد ایسی باتیں نہ کریں جو اب کر رہے ہیں ۔ یہ ماننا چاہئے کہ انہیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے ۔
تازہ ترین