اشبقدر ،چارسدہ ( نمائندگان جنگ ) شب قدر کے نجی کالج کے پرنسپل کو قتل کرنے والے طالب علم ملزم کو منگل کے روز جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا ۔ عدالت نے ملزم فہیم شاہ کو تین روز ہ جسمانی ریمانڈ پرپولیس کے حوالے کر دیا ۔ طالب علم نے عدالت کو بتایا کہ کالج سے تین دن چھٹیاں کرنے پر پرنسپل مجھ سے ناراض تھا اور مجھے بار بار تنگ کر رہا تھا جس پر میرے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا اور میں یہ حرکت کر بیٹھا۔ شبقدر بازار میں مٹہ روڈ پر واقع نجی کالج اسلامیہ کالج کے سیکنڈ ائر کے طالب علم ملزم فہیم شاہ نے اپنے ہی کالج کے پرنسپل حافظ سریر احمد کو قتل کر دیا تھا جس جو مقامی پولیس نے موقع پر گرفتار کیا ۔ ملزم فہیم شاہ کو منگل کے روز مقامی پولیس نے سخت سیکیورٹی میں جو ڈیشل مجسٹریٹ عطاء اللہ جان کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق ملزم نے کہا ہے کہ میں نے کالج سے تین دن چھٹیاں کی تھیں جس پر پرنسپل مجھ سے ناراض تھا اور بار بار تنگ کر رہا تھا جس کی وجہ سے میرے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا اور میں نے یہ حرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ ملزم سے مزید تفتیش جاری ہے اور اس دوران جو بھی معلومات آ ئیں گی ان کو منظر عام پر لایا جائے گا۔ دوسری جانب مقتول پرنسپل حافظ سریر احمد کی وفات پر پورا علاقہ سوگوار ہے اور شبقدر کے تمام نجی کالجوں نے تین روزہ سوگ کا اعلان کرتے ہوئے کالجوں کو بند کیا ہے ۔ کالج کے مالک ہدایت خان نے شبقدر میڈیا سنٹر کے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مقتول پرنسپل ایک مذہبی شخصیت کے ساتھ ساتھ پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا مالک تھا جوحقیقی معنوں میں باپ بن کر اپنے شاگردوں کو علم کی نور سے منور کرتے رہے اور جمیعت علمائے اسلام کے رکن اور اپنے گاوں میں تحفظ ختم نبوت کے عہدیدار تھے اکثر مذہبی تقریبات میں شریک ہوتے تھے ۔ ادھر طلباء اور علاقے کے مکینوں کا کہنا ہے کہ مقتول حافظ سریر احمد چھٹیوں میں نادار طلباء کو مفت ٹیوشن پڑھاتے اور شام کو مقامی مسجد میں بچوں کو قرآن کا درس دیتے تھے۔ دوسری جانب مقتول پرنسپل حافظ سریر احمد کے گھر پر لواحقین کے ساتھ رشتہ داروں، دوستوں ، علاقے کے عوام اور طلباء کا تانتا باندھا رہا ہے ۔ صبح سے ہی کثیر تعداد میں لوگوں نے سریر احمد کی قبر پر حاضری اور فاتحہ خوانی کا سلسلہ شروع کیا۔ اور یہ سلسلہ شام گئے تک جاری رہا ۔ پرنسپل سریر احمد کے قتل کے خلاف شب قدر تحصیل میں تمام نجی کالجز نے تین دن سوگ کا اعلان کیا ہے ۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر چارسدہ ظہور افریدی نے میڈیا سے بات چیت میں پرنسپل کے قتل کے واقعے میں توہین مذہب کے پہلو کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرنسپل سریر احمد کی جانب سے توہین مذہب کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ واقعے کے محرکات دوسرے ہو سکتے ہیں۔ ۔ کالج کے ایک طالب علم عباس خان کے مطابق فائرنگ سے زخمی ہونے کے بعد جب وہ حافظ سریر احمد کو پشاور منتقل کر رہے تھے تو وہ راستے ہی میں دم توڑ گئے تھے ،ان کا کہنا تھا کہ حافظ سریر احمد نے ایک نہیں تین بار کلمہ شہادت پڑھا تھا اور آخری بار کلمہ شہادت پڑھنے کے بعد کہا کہ وہ اب رکنے والا نہیں ، آپ سب کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ رہا ہے ۔ ذرائع کے مطابق ملزم سید فہیم شاہ نے گرفتاری کے بعد ابتدائی تفتیش کے دوران پولیس کو بتایا کہ وہ فیض آباد میں تحریک لبیک کے دھرنے میں شرکت کے بعد آیا تو پرنسپل نے ڈانٹ کر کہا کہ تم لوگ اتنے معمولی سے کاموں کیلئے غیر حاضریاں کرتے ہو، ملزم کا کہنا تھا کہ پرنسپل نے دھرنے میں شرکت کو معمولی بات کہا حالانکہ یہ معمولی بات نہیں تھی ، ذرائع کا کہنا ہے کہ اسی بات پر پرنسپل اور ملزم کے مابین تکرار بھی ہوئی تھی جس کے بعد پرنسپل نے ملزم سے معذرت بھی کی تھی۔ تفتیش کے دوران ملزم نے مزید کہا کہ مقتول پرنسپل نے ایک دفعہ حضرت عمر کے نام کے ساتھ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں کہا تھا۔