تقریباً 35 سال پیشتر جب ہم نے یورینیم کی اعلیٰ افزودگی میں کامیابی حاصل کرلی تھی اور 10 دسمبر 1984 کو میں نے مرحوم جنرل ضیاء کو جاکر تحریری طور پر یہ اہم اطلاع دیدی تھی کہ خدا کے فضل اور حکومت کی سرپرستی اور ہماری انتھک کوششوں سے ہم اس قابل ہوگئے ہیں کہ ہفتہ عشرہ میں ایٹمی دھماکہ کر سکتے ہیں تو بہت سے دعویدار پیدا ہوگئے اور میرے اوپر بہتان بازی اور الزام تراشی کی بارش ہونے لگی۔ باہر والے تو اس میں پیش پیش تھے ہی لیکن ماشاء اللہ چند پاکستانی بھی ان سے پیچھے نہ رہے اور بہت سے لوگوں نے تو تہذیب کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ جب ایک سینئر اور اہم سیاست داں اور مذہبی عالم نے مجھ سے اس بارہ میں شکایت کی اور غصّہ کا اظہار کیا تو میں نے الحمدللہ کہہ کر دونوں ہاتھ اوپر اُٹھائے اور کہا اللہ پاک تیرا شکر گزار ہوں، گناہگار بندہ ہوں تیرا کتنا کرم ہے کہ تو نے میرا درجہ انسان کا ہی رکھا ہے کہ لوگ مجھے بُرا بھلا بھی کہتے ہیں اور تنقید بھی کرتے ہیں اور غیر مہذّب الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں، مجھے نہ ہی فرشتہ اور نہ ہی وَلی اللہ سمجھتے ہیں۔ ان صاحب نے فوراً اوپر دیکھا اور کہا۔ اللہ پاک بیشک تو عظیم ہے ہر چیز پر قادر ہے، ہر چیز کو سمجھتا ہے اور سنتا ہے۔ تو نے اس شخص کو اس کردار کی وجہ سے ہی اتنے اہم کام کا وسیلہ بنا یا ہے۔ میں نے کہوٹہ پروجیکٹ کی تکمیل کے علاوہ آجتک کبھی خود کو اتنا اہم اور ناقابل تبدیل نہیں سمجھا اور جب بھی کسی نے برا بھلا کہا اور تنقید کی یا بہتان بازی کی تو اللہ رب العزّت کا شکرادا کیا کہ میری حیثیت ایک ادنیٰ انسان کی سمجھی جاتی ہے اور میں فرشتہ یا ولی اللہ تصور نہیں کیا جاتا۔
جہانتک میری جہالت یا صلاحیت کا تعلق ہے کہوٹہ کی کامیابی پر جناب غلام اسحق خان، جناب آغا شاہی، جنرل اسلم بیگ، جنرل عارف جیسے بااثر ، باخبر افسران کے بیانات ہی اس بارے میں کافی ہیں اور تاریخ خود اس کی بہترین منصِف ہے۔ میرے لئے یہ میری زندگی کا ایک اہم حصّہ تھا اور میں نے دیانت داری اور محنت سے اپنا فرض ادا کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔ میرا ضمیر مطمئن ہے۔ آئیے پچھلے دنوں میں ایک تکلیف دہ اور نازیبا وقوع پذیر واقعہ کی جانب توجّہ مبذول کراتے ہیں۔
مشہور و قابلِ احترام احمد ندیم قاسمی# مرحوم کا ایک شعر ہے جو ممکن ہے کہ مجھ پر پوری طرح صادق نہ آتا ہو مگر قابل ملاحظہ ہے۔
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے ہیں احباب
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
لیکن سچ یہی ہے کہ جس طرح پھول برسانے والوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اسی طرح سنگ زنی کرنے والوں نے بھی خوب لہولہان کیا ہے۔ مجھے خود اپنا ہی ایک شعر یاد آرہا ہے۔
گزر تو خیر گئی ہے تری حیات قدیر#
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
4 نومبر کو جنگ میں جناب ہارون الرشید صاحب کا کالم پڑھ کر تعجب اور افسوس تو بہت ہوا تھا لیکن میں نے پہلے بیان کردہ وجہ سے نظر انداز کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، بقول اَنجم رُومانی:۔
فقیہ شہر کی باتوں سے درگزر بہتر
بشر ہے اور غم آب و دانہ رکھتا ہے
اور جب ناجائز اور کم ظرفانہ وار کیا جاتا ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور غالب# کا یہ شعر یاد آجاتا ہے۔
قسمت بُری سہی پہ طبیعت بُری نہیں
ہے شُکر کی جگہ، کہ شکایت نہیں مجھے
لیکن جس دن یہ کالم آیا اس روز لاتعداد دوستوں ، ہمدردوں، شناساؤں اور انجان لوگوں نے لاتعداد فون کئے، ایس ایم ایس کئے، ای میل کئے۔ میں جواب دیتے دیتے تھک گیا، مجھ سے کہیں زیادہ وہ غصّہ میں تھے اور جو الفاظ ہارون الرشید صاحب کے لئے استعمال کئے وہ تہذیب دہرانے کی اجازت نہیں دیتی۔ شام کو عزیز دوست اور دانشور صحافی مجیب الرحمن شامی صاحب کا فون آیا وہ اپنے ٹی وی شو کے لئے اس کالم کی وضاحت چاہتے تھے کہ کیا واقعی میں نے عمران خان کی جماعت میں شرکت کی درخواست کی تھی اور اس کو مسترد کردیا گیا تھا۔ میں نے عرض کیا خود سوچ سکتے ہیں کہ کیا یہ ممکن ہے یہ سب قابل شرم و نفرت دروغ گوئی ہے۔ میں نے حقائق بیان کردیے جو انھوں نے پروگرام میں سچ ثابت کردیے اور دوسرے دن اخبارات میں شائع ہوگئے۔ اگلے دن مشہور کالم نگار، دانشور اور مخلص دوست جناب عرفان صدیقی نے بڑی محنت کے ساتھ اپنے کالم میں مجھے نصیحت کی کہ میں سیاست کے بکھیڑوں میں نہ پڑوں کیوں کہ پورا پاکستان مجھ سے محبت کرتا ہے ،ان کی رائے اپنی جگہ ۔ میں اپنے طور پر اپنا قومی وسیاسی حق ادا کروں گامگر کسی دوسری سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوں گا۔ لیکن ہارون صاحب کے کالم نے تمام بہی خواہوں اور ہمدردوں کو پریشان کردیا۔ میرے لئے یہ بہت بڑا بہتان اور دروغ گوئی تھی کہ میں نے یعنی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے عمران خان صاحب کی امارت میں شرکت کی بھیک مانگی تھی اور وہ مسترد کردی گئی تھی اور یہ کہ ہارون صاحب نے ”ازراہِ مہربانی و شفقت“ عمران خان کے دریافت کرنے پر میری سفارش کردی تھی اور عمران خان کے مشیروں نے مجھے ”نااہل“ قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔ ہارون صاحب نے بے چارے سیدھے سادے عوام کو آگاہ کردیا کہ مجھے قبول نہیں کیا گیا۔ مجھے غصّہ سے زیادہ ان کی ”عقل و فہم اور دانشمندی“ پر افسوس ہے کہ انھوں نے عوام کو اپنے بارے میں کیا تاثر دیا ہے۔ بقول ہارون صاحب وہ عمران خان کے اہم اور قریبی مشیر ہیں ، ان کے ہر کالم میں عمران خان کو مسیحا ثانی کے طور پر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی آخری کتاب اور اللہ کے آخری رسول کا بھی ذکر ہوتا ہے لیکن شاید قرآن تعلیم کی روح سے نابلد ہیں کہ سورة حجرات (آیت 12 ) میں اللہ تعالیٰ فرمایا ہے کہ ”اے ایمان والو! بہت گمان سے بچا کرو، بے شک کچھ گمان گناہ کے زمرے میں آتے ہیں، سورة النساء (آیت 148 ) میں تو اللہ تعالیٰ نے یہاں تک تلقین کی ہے کہ کسی کی بُری بات بھی ظاہر نہ کیا کرو سوائے اس کے کہ تم پر ظلم ہوا ہواور سورة آل عمران آیت 61 میں اللہ تعالیٰ جھوٹوں پر لعنت بھیجتا ہے۔ بہتان بازی، الزام تراشی، غیبت، دروغ گوئی اور بدگمانی کے بارے میں رسول اکرم کے ارشادات سے غالباً ہارون الرشید بے بہرہ ہیں۔ یہاں مشہور مرحوم شاعر چراغ حسن حسرت کا مشہور شعرہے:۔
”غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سُنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سُنا ہوتا“
یہ وہی چراغ حسن حسرت ہیں، خلیفہ ہارون الرشید کے دربار کے اعلیٰ شاعر اَبو نواس جس نے ملکہ زبیدہ کی شان میں حالت نشہ میں کچھ واہیات بکی تھیں۔ جب ہارون الرشید خلیفہ نے دوسرے روز سرزنش کی تو فوراً بولا۔ ”کلام الّیل یمحوہ النّہار“۔ اس کا ترجمہ چراغ حسن حسرت نے یوں کیا تھا۔
رات کی بات کا مذکور ہی کیا
چھوڑئیے! رات گئی بات گئی
عجیب اتفاق ہے کہ دونوں واقعات میں مُماثلت ہے۔
اگر محترم ہارون الرشید صاحب اس خاکسار کو فون کرنے کی زحمت گوارا کرلیتے تو میں حقائق سے آگاہ کردیتا۔
عرفان صدیقی صاحب کے کالم کے بعد علی مسعود سیدکا کالم دیکھ کر طوفان کھڑا ہوگیا،لوگوں کوغلط فہمی ہوئی ،کیونکہ خود علی مسعود سے جب بھی ملاقات ہوئی ،اس نے کبھی دوسری پارٹی میں شامل ہونے کا مشورہ نہیں دیا،اس نے بھی ہمیشہ یہی کہا کہ اپنے چاہنے والے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کروں مگر ان کے کالم کے بعد پیغامات کی بوچھاڑ اور سوالات و جوابات سے مجبور ہوگیا کہ چند سطور لکھ کر قارئین کو حقائق سے آگاہ کردوں۔
جب لاہور ہائی کورٹ کے معزز جج جناب اعجاز احمد چوہدری نے مجھ پر عائد تمام ناجائز پابندیاں ختم کردیں اور آزاد شہری قرار دیدیا تو لاتعداد ہمدرد اور دوست مجھے مبارکباد دینے آئے۔ جناب عمران خان، محترمہ ڈاکٹر شیریں مزاری اور پرانے گھریلو دوست ڈاکٹرعارف علوی مُبارکباد دینے آگئے۔ ہم نے چائے پی اور اُنھوں نے مجھ سے ان کا ساتھ دینے کو کہا، میں نے عرض کیا سیاست سے باہر رہ کر آپ جو مدد چاہیں گے اس کے لئے حاضر ہوں۔ عمران خان کی میں عزّت کرتا ہوں، اُنھوں نے ورلڈ کپ جیت کر ہمارا نام روشن کیا تھا اور اچھے کھلاڑی تھے۔ وہ کے آر ایل گراؤنڈ پر بھی آئے تھے۔ جب دوسری جماعتوں کے معزز سربراہوں نے رابطے قائم کئے تو ان عزیز دوستوں کی خدمت میں عرض کیا کہ میں سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہتا، آج پورا پاکستان بلا تفریق نسل و فرقہ مجھ سے دلی محبت کرتا ہے ، میری بے حد عزّت کرتا ہے۔ جس دن میں نے کسی سیاسی جماعت میں شرکت کی اس دن لوگ میرا شجرہ نسب بنا لائینگے اور میرے والدین کو ہندو بنانے کی پوری کوشش کرینگے۔ دوسرے دوستوں نے تو بات کو آگے نہیں بڑھایا مگر عمران خان کے ساتھیوں نے کوشش جاری رکھی ۔ میں نے کہا کہ میں ابھی دریا میں آزاد مچھلی یا آزاد پرندہ ہوں، آپ مجھے اَکواریم میں یا پنجرہ میں بند کرکے کمرے کے کونے میں رکھنا چاہتے ہیں یہ قبول نہیں ہے۔ (جاری ہے)