ایک وقت تھا کہ میں جلسے جلوسوں کا بہت شوقین تھا، جلسے جلوس کیا، میلوں ٹھیلوں میں بھی پورے”خصوع و خشوع“ کے ساتھ شرکت کیا کرتا تھا۔ میں نے موچی دروازے میں ہونے والے بڑے گرما گرم جلسے بھی دیکھے ہیں۔ جلسوں میں سانپ چھوڑنے یا جلسہ گاہ میں پانی کے ریلے بہانے کے مناظر بھی نظر سے گزرہے ہیں۔ جلسوں میں گڑ بڑ کرکے انہیں الٹانے والے”کارکنوں“ کی کارگزاریاں بھی دیکھتا رہا ہوں۔ میں نے ذوالفقار علی بھٹو شہید کی وہ ریلی بھی دیکھی جس میں انہوں نے ماں کی گالی دی تھی اور پھر ٹی وی والوں سے کہا تھا”یہ جملہ کاٹ دو“ مگر یہ گالی پورے پاکستان میں سنی گئی کیونکہ تقریر Liveجارہی تھی۔ جماعت اسلامی کے اس اجتماع میں، میں شریک تھا جس میں سائبانوں کی طنابیں کاٹ دی گئی تھیں اور اس پر اس اجتماع پر گورنر ہاؤس سے بھیجے گئے غنڈوں نے ایک کارکن کو شہید کردیا تھا مگر جلسہ جاری رہا اور مولانا مودودی ،مولانا کوثر نیازی کی طرف سے بیٹھ جانے کے مشورے کے باوجود سینہ تان کر کھڑے رہے اور اپنی تقریر جاری رکھی لیکن یہ پرانی باتیں ہیں۔ اب ہجوم میں دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے اور ویسے بھی ٹی وی چینلز کی برکت سے اب یہ جلسے جلوس اور میلے ٹھیلے خود چل کر ہمارے گھروں تک پہنچ گئے ہیں چنانچہ اب میں یہ سب ہنگامے ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے بیٹھے دیکھ لیتا ہوں بلکہ لگتا ہے کہ ان میں باقاعدہ شریک ہوں۔
سو عمران خاں کا مینار پاکستان کا جلسہ اور مسلم لیگ کا دھوبی گھاٹ کا جلسہ میں نے گھر بیٹھے بٹھائے اٹینڈ کئے اور سچی بات یہ ہے کہ یہ دونوں جلسے بہت بڑے تھے۔ عمران خاں والے جلسے پر میرے تمام کالم نگار دوست داد و تحسین کے ڈونگرے برسا چکے ہیں لیکن ابھی تک مسلم لیگ کے جلسے پر کوئی کالم نظر سے نہیں گزرا ممکن ہے عدیم الفرصتی کی بناء پر میرے یہ دوست یہ جلسے دیکھ ہی نہ سکے ہوں ورنہ کیسے ممکن ہے وہ اس پر اپنی بری بھلی رائے کا اظہار نہ کرتے، میں نے ٹی وی اسکرینوں پر اس جلسے میں شرکاء کی بہت بڑی تعداد اور ان کا جوش و خروش دیکھا تو میں بالکل حیران نہ ہوا کیونکہ عمران خاں کے جلسے کے بعد قیادت کا تو علم نہیں البتہ مسلم لیگی جیالے اپنی طاقت کے اظہار کے لئے بہت بے چین تھے بلکہ میرے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی کہ مسلم لیگ کے خاموش ووٹر جو صرف پولنگ سٹیشن پر جاتے ہیں اس جلسے میں گروہ در گروہ جانے کی تیاریاں کررہے تھے۔ مسلم لیگی قیادت شاید ان میں سے کسی کو پہچانتی بھی نہ ہو لیکن عمران خاں کا جلسہ ان کی انا کا مسئلہ بھی بن گیا تھا، سو یہ جلسہ اپنے حاضرین کی تعداد اور شرکاء کے جوش و خروش کی بدولت فیصل آباد کے تاریخی جلسے کی شکل اختیار کرگیا، ایک دوست نے جو جلسہ میں بذات خود شریک تھا مجھے بتایا کہ ٹی وی کیمرے صرف پنڈال کی جھلک دکھا سکے ۔دوست کے مطابق پنڈال سے باہر سڑکوں پر اس سے تین گنا تعداد موجود تھی جو کیمروں کی زد میں نہ آسکی۔ یہ سب کچھ فطری تھا کیونکہ مسلم لیگ(ن) پاکستان کی ایک بہت بڑی جماعت ہے اس کی جڑیں عوام میں بہت گہری ہیں اور اس کے لیڈر میاں نواز شریف ابھی تک مقبولیت میں (گیلپ سروے کے مطابق) پہلے نمبر پر ہیں۔
ایک وقت تھا کہ میاں نواز شریف جلسے کے کوئی بہت اچھے مقررنہیں سمجھے جاتے تھے لیکن اب وہ اس میدان میں بھی رواں ہوگئے ہیں۔ ان کی تقریر واقعی بہت اچھی تھی۔ اس روز انہوں نے کسی کی دشنام طرازی کا جواب دشنام طرازی سے تو نہیں دیا البتہ خود پر عائد ہونے والے الزامات کے بھرپور جواب دینے کے علاوہ اپنی سابقہ حکومتوں کی کارگزاری بھی تفصیل سے بیان کی لیکن گالی دینے اور بہتان باندھنے والے اس کے باوجود یہ سلسلہ جاری رکھیں گے کہ بدقسمتی سے ہماری سیاست اب انہی راہوں پر چل نکلی ہے ۔جلسے میں چودھری نثار علی خاں کی تقریر بھی خطابت اور مواد کے لحاظ سے بہترین تھی اور خواجہ سعد رفیق کی خطابت بھی اس روز اپنے عروج پر نظر آئی۔ اس جلسے نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ عوام اتنے بھولے بھی نہیں ہیں کہ میڈیا کا رولا گولا ان کے سوچے سمجھے نظریات اور وابستگیوں کو”ہونج“ کرلے جائے جو لوگ کہتے ہیں کہ عمران خاں کا جلسہ ایجنسیوں نے بھرا تھا تو نواز شریف کے جلسے کا ہجوم پٹواریوں کی دین تھا۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں بلکہ حقائق کو جھٹلانے والی ہیں۔ اس میں اب کسی کو کوئی شبہ نہیں کہ ا مریکہ اور ہماری اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو پسند نہیں کرتی۔ انہوں نے اپنا سارا بوجھ عمران خاں کے پلڑے میں ڈالا ہوا ہے لیکن اس طرح کی غیبی مدد سے بہرحال جلسوں کی رونق نہیں بڑھائی جاسکتی۔
چلیں مسلم لیگ(ن) نے اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ تو کردیا اب اس کی قیادت کو چاہئے کہ وہ جلسے جلوسوں سے زیادہ اپنے بکھرے ہوئے کارکنوں اور بہت بڑی تعداد میں موجود اپنے بہی خواہوں کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کرے۔ مسلم لیگ(ن) کا یہ شعبہ بہت کمزور ہے چنانچہ ایک تو تنظیمی ڈھانچہ مکمل اور مضبوط کیا جائے اور دوسرے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کارکنوں کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھیں۔ پیپلز پارٹی اپنے کارکنوں کو دھڑا دھڑ نوکریاں اور جائز و ناجائز مراعات سے نوازتی رہتی ہے جبکہ مسلم لیگ کا سارا زور ”میرٹ“ پر ہے۔ میرٹ اپنی جگہ لیکن ان کا جو حق ہے اس کی ادائیگی کے لئے کچھ آسانیاں تو پیدا کی جاسکتی ہیں۔ایک بات اور!جو میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور وہ یہ کہ ایک ہی الزام خواہ ہزار بار لگے، اس کا ہزار بار ہی جواب بھی دینا چاہئے کیونکہ پورے تواتر سے بولا گیا جھوٹ ا پنے اثرات بہرحال چھوڑتا ہے اور یوں اس کا جواب بھی پورے تواتر سے دیتے رہنا چاہئے۔ نوٹ:۔ میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں کسی شاعر کا یہ شعر درج کیا تھا۔
ہونا تو وہی ہے جو مقدر میں مرے ہے
لیکن وہ مرے خواب، مرے خواب، مرے خواب
میں کراچی میں مقیم اپنے دوست نصرت ناصر صاحب کا ممنون ہوں کہ انہوں نے شاعر کے نام کے حوالے سے میری جستجو میں میری مدد کی۔ شاعر کا نام آغا ناصر ہے ان کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ عمر پچاس کے قریب ہے اور وہ بلوچستان یونیورسٹی میں اردو ادب کے استاد ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آغا ناصر کوئٹہ کی ادبی کانفرنس میں دو تین دن تک میرے ساتھ رہے اور انہوں نے یہ ظاہر ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ ایسے خوبصورت شعر کہنے والے شاعر ہیں۔