• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچیوں کے قاتل کو سزا ملنے میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے،مریم اورنگزیب

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ)وزیرمملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ زینب کا قاتل صرف وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی وجہ سے پکڑا گیا ہے، بچیوں کے قاتل کو سزا ملنے میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہونی چاہئے، بچوں سے زیادتی اور قتل کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینے کا قانون بنانا چاہئے۔ وہ جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ“ میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو کررہی تھیں۔ پروگرام میں ترجمان اسٹیٹ بینک عابد قمر ،ڈائریکٹر نیوز جیو رانا جواد،پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر روبینہ خالد،صدر اے این پی سندھ سینیٹر شاہی سید،نمائندہ خصوصی جیو نیوز عبدالقیوم صدیقی،تجزیہ کار مشرف زیدی اورسنیئرصحافی فہد حسین سے بھی گفتگو کی گئی۔ترجمان اسٹیٹ بینک عابد قمر نے کہا کہ زینب کیس میں ملزم عمران کے بینک اکاؤنٹس سے متعلق معلومات مصدقہ ہیں ان میں غلطی کی گنجائش نہیں ہے، ملزم عمران کے پہلے شناختی کارڈ نمبر پر صرف ایک موبائل بینکنگ اکاؤنٹ ہے ۔روبینہ خالد نے کہا کہ بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کسی ایک صوبے کا نہیں قومی مسئلہ ہے، سپریم کورٹ کی طرف سےایک اینکرکی خبر پر نوٹس لینے سے لوگوں کو ان کی حقیقت کا پتا چل گیا، عدالت عظمیٰ کو اس معاملہ کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہئے۔رانا جواد نے کہا کہ سپریم کورٹ کو ایک اینکر کے دعوے کے معاملہ کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہئے۔شاہی سید نے کہا کہ ایک اینکر کی باتوں پر افسوس کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا، میڈیا پر سفید جھوٹ بولنے والا ملک کو مفلوج کرنا چاہتا ہے۔ فہد حسین نے کہا کہ تصدیق کے بغیر معلومات عدالت کے سامنے پیش کرنا رسک سے بہت زیادہ بڑھ کر ہے۔عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے جھوٹ بولا جائے تو عدالت کسی ٹرائل کے بغیر براہ راست جیل بھیج سکتی ہے۔تجزیہ کار مشرف زیدی نے کہا کہ ایک ایسا اینکر جس کی متعدد خبریں غلط نکلی ہیں ا ن کی خبر پر سپریم کورٹ نے بہت تیزی سے ایکشن لیا، قصور میں 2015ء کے کیس کی تحقیقات کیلئے دباؤ بھی اس خبر کی وجہ سے ختم ہوگیا ہے۔میزبان طلعت حسین نے کہا کہ زینب کیس صرف قانون بنانے والوں کیلئے ٹیسٹ کیس نہیں بلکہ میڈیا چلانے والوں کیلئے بھی یہ کیس اور اس کے مختلف پہلو ٹیسٹ کیس بن گئے ہیں کہ ہم نے اس قسم کے کیس پر رپورٹنگ کیسے کرنی ہے اور رپورٹنگ ہوتی کیا ہے۔مریم اورنگزیب نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زینب کا قاتل صرف وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی وجہ سے پکڑا گیا ہے، شہباز شریف اس معاملہ پر بہت تکلیف میں تھے، پنجاب حکومت نے قصور میں بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کو منطقی انجام تک پہنچادیا ہے، لوگوں نے اپنے نیک اور حساس ہونے کا ثبوت دینے کیلئے سوشل میڈیا کے ذریعے زینب کی تصویر کو پوری دنیا تک پھیلادیا۔ مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ بچیوں کے ساتھ زیادتی کے ملزم کو سزا ملنے میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہونی چاہئے، سپریم کورٹ اتوار کو سماعت کررہی ہے،ملزم عمران کو قصور میں چوک پر پھانسی دینی چاہئے،لوگوں کو احساس ہونا چاہئے کہ جو شخص بھی ایسا فعل کرے گا اس کا یہی حشر ہوگا، ہم پارلیمنٹ میں اپنے مطلب کیلئے روز قانون بناتے ہیں بچوں سے زیادتی اور قتل کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینے کا قانون بھی بنانا چاہئے، بڑے عرصے سے سن رہی ہوں اس پر کوئی قانون موجود نہیں ہے، تین ہفتے گزر گئے ہیں اب تک قانون بنالینا چاہئے تھا۔ترجمان اسٹیٹ بینک عابد قمر نے کہا کہ زینب کیس میں ملزم عمران کے بینک اکاؤنٹس سے متعلق معلومات مصدقہ ہیں ان میں غلطی کی گنجائش نہیں ہے، بینکوں نے اپنے آئی ڈی سسٹمز سے تصدیق کر کے معلومات اسٹیٹ بینک کو بھیجی ہیں، کوئی بھی بینک اسٹیٹ بینک سے غلط بیانی کی جرأت نہیں کرسکتا، کسی بھی قسم کی غلط بیانی پر بینکوں پر بھاری جرمانے عائد کیے جاسکتے ہیں، بینکوں سے ملنے والی ابتدائی معلومات کے مطابق ملزم کے دوسرے شناختی کارڈ کے نمبر کے ساتھ بھی کوئی بینک اکاؤنٹ منسلک نہیں ہے، اس کی تصدیق کیلئے ایک اور پراسس کررہے ہیں اس کے بعد حتمی طور پر بتاسکیں گے، ملزم عمران کے پہلے شناختی کارڈ نمبر پر صرف ایک موبائل بینکنگ اکاؤنٹ ہے جس میں 130روپے کی رقم موجود ہے، شناختی کارڈ کے بغیر بینک اکاؤنٹ نہیں کھولا جاسکتا۔ روبینہ خالد نے کہا کہ بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کسی ایک صوبے کا نہیں قومی مسئلہ ہے، ایک اینکر کی طرف سے ایسی خبر پہلی دفعہ نہیں ہے،اس اینکر کے علاوہ بھی کافی حضرات و خواتین ٹی وی پر بیٹھ کر لوگوں کی عزتیں اچھالتے ہیں، پیپلز پارٹی سب سے پہلے اس اینکر کی ڈسی ہوئی ہے، سپریم کورٹ کی طرف سے اینکر کی خبر پر نوٹس لینے سے لوگوں کو ان کی حقیقت کا پتا چل گیا، عدالت عظمیٰ کو اس معاملہ کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہئے،ایک اینکر جس طرح ہر بات میں سازش ڈھونڈ لیتے ہیں ممکن ہے ان کا انکشاف بھی کسی سازش کا حصہ ہو۔روبینہ خالد کا کہنا تھا کہ زینب قتل کیس سے لوگوں نے اپنا سیاسی قدکاٹھ بڑا کرنے کی کوشش کی، مردان میں قتل ہونے والی بچی عاصمہ کا تعلق بہت غریب گھرانے سے ہے، اس کی پہلی تصویر بھی اس کی موت کے بعد کھینچی گئی، میڈیا پر عاصمہ کی وہ تصویر چلائی جارہی ہے جو اس کی نہیں ہے۔شاہی سید نے کہا کہ بطور قوم ہم بے حس ہوگئے ہیں، زینب کیس میں ملزم عمران کے اگر 80بینک اکاؤنٹس نہیں تھے تو اتنا سفید جھوٹ میڈیا پر بولنے والا ان لوگوں میں شامل ہے جو ملک کو مفلوج کرنا چاہتے ہیں، اینکر نے جتنے یقین سے بات کی اس سے خوف محسوس ہوا،اینکر کی باتوں پر افسوس کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا، قانون میں قتل کی سزا پھانسی ہے صرف یہ طے کرنا کہ پھانسی جیل کے اندر ہو یا چوک پر دی جائے۔رانا جواد نے کہا کہ زینب کیس میں قاتل پکڑے جانے کے بعد صحافت کے ذریعہ جو ہیجان پھیلایا گیا اس کا ملزم کوئی نہیں ہے، سپریم کورٹ کو اینکر کے دعوے کے معاملہ کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہئے، زینب قتل کیس ہمارے نظام انصاف کیلئے ٹیسٹ کیس تھا، زینب کیس کے دوران میڈیا کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کیلئے ٹول بنایا گیا، اینکر نے کہا اگر میں غلط ہوں تو مجھے پھانسی دیدیں، جرم سزا دینے سے نہیں قبل از وقت اقدامات سے رکتا ہے، جے آئی ٹی رپورٹ پڑھیں ملزم عمران نے اپنے بچپن میں کیا دیکھا ،زینب کیس کو ٹیسٹ کیس بناتے ہوئے ہر پہلو کو دیکھیں۔نمائندہ خصوصی جیو نیوز عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے جھوٹ بولا جائے تو عدالت کسی ٹرائل کے بغیر براہ راست جیل بھیج سکتی ہے، چیف جسٹس نےاینکر سے پوچھا تھا آپ کو علم ہے اگر معلومات غلط ہوئیں تو اس کے کیا نتائج ہوں گے جس پر انہوں نے کہا میں بڑی ذمہ داری سے یہ بات کررہا ہوں،اینکر نے چیف جسٹس کے پیڈ پر وفاقی وزیر کا نام لکھ کر دیا ،ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سامنے غلط بیانی سے نہ صرف عدالت کا وقت خراب ہوا بلکہ معاشرے میں بھی بے چینی پیدا ہوئی۔عبدالقیوم صدیقی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سامنے اب یہ سوال کھڑا ہوگا کہ آئندہ کوئی شخص اس طرح کا غیرذمہ دارانہ بیان عدالت میں نہ دے اس کیلئے کیا اقدامات کیے جائیں۔سینئر صحافی فہد حسین نے کہا کہ تصدیق کے بغیر معلومات عدالت کے سامنے پیش کرنا رسک سے بہت زیادہ بڑھ کر ہے، پچھلے اٹھارہ سال سے صحافتی گناہ ہورہا ہے جسے درست نہیں کیا جارہا، میڈیا نے رائے اور حقائق میں فرق رکھنے کے بجائے مکس کردیا ہے، میڈیا انڈسٹری میں ان لوگوں کو جگہ دیدی گئی ہے جنہیں رائے اور حقائق کے درمیان فرق معلوم نہیں، ملزم عمران کے بینک اکاؤنٹس سے متعلق خبر یکسر غلط ثابت ہوجائے تو اس پر مزید جے آئی ٹی بنانے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی، ملزم کے بینک اکاؤنٹس سے متعلق اسٹیٹ بینک کا بیان سپریم کورٹ کیلئے کافی ہوگا، آج سپریم کورٹ سے زیادہ صحافت کیلئے سوال ہے، ٹی وی چینلز پر غیرتربیت یافتہ لوگ پرائم ٹائم میں بیٹھ کر غلط حقائق بیان کرتے ہیں تو اس سے معاشرے کو بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔ 

تازہ ترین