کراچی(ٹی وی رپورٹ)ضلع ناظم مردان حمایت اللہ مایار نے کہا کہ یہ بات غلط ہے کہ عاصمہ کوپولیس نے برآمد کیا تھا،عاصمہ کی لاش اس کے رشتہ داروں نے گنے کی فصل سے تلاش کی تھی، قصور کی زینب اور مردان کی عاصمہ کا کیس ایک جیسا ہے،دونوں کیسوں میں بچیوں سےجنسی زیادتی کر کے انہیں قتل کیا گیا ہے،پی ٹی آئی نے زینب کیلئے احتجاج کیالیکن عاصمہ کے معاملہ کو دبانے کی کوشش کی،عاصمہ کے ساتھ جنسی زیادتی کی رپورٹ کو پولیس نے چھپایا، بچی کی میڈیکولیگل رپورٹ میں نے میڈیا تک پہنچائیں،اے این پی کے پلیٹ فارم سے ہم نے احتجاج کیا تو عوام کی بڑی تعداد شریک ہوئی، ڈی پی او نے پریس کلب مردان جاکر صحافیوں سے کہاکہ عاصمہ کے معاملےکو نہیں اچھالنا ہے،اس میں کوئی جنسی زیادتی نہیں ہوئی،یہ زینب جیسا مسئلہ نہیں ہے۔حمایت اللہ مایار کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا پولیس عاصمہ کے قاتل کی نشاندہی میں ابھی تک ناکام ہے،پولیس روزانہ اس علاقے میں جاکر بے گناہ لوگوں کو تنگ کررہی ہے،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا احتجاج کے بعد واقعےکے پانچویں دن مردان آیا، پرویز خٹک نے ملزم کو پکڑنے کیلئے پولیس کو کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی،عاصمہ کے معاملے پر جے آئی ٹی نہیں بنائی گئی بلکہ علاقہ پولیس ہی تفتیش کررہی ہے،پولیس صحیح سمت میں تحقیقات کرتی تو اب تک ملزم کو پکڑ چکی ہوتی،خیبرپختونخوا میں پولیس کو بہت زیادہ اختیارات دیدیئے گئے ہیں،پنجاب بڑا صوبہ ہے اس لئے وہاں کی خبروں کو میڈیا بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور سیاسی قیادت بھی وہاں جاتی ہے۔ضلع ناظم مردان کا کہنا تھا کہ عاصمہ کا واقعہ مردان میں بچیوں سے زیادتی کا پہلا واقعہ نہیں ہے، سولہ ستمبر 2017ء کو بھی نو سالہ بچی کو جنسی زیادتی کر کے قتل کیا گیا، دو ہفتے قبل ارم کالونی کی پندرہ سالہ لڑکی کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی ہے، پولیس ایسے کیسوں کو چھپاتی رہی تو ان واقعات کو روکا نہیں جاسکے گا، پولیس نے عاصمہ کیس کی ایف آئی آر میں جنسی تشدد اور دہشتگردی کی دفعات نہیں لگائی ہیں۔میزبان سلیم صافی نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ نقیب اللہ کے معاملےکو لسانی رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں،ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ تھانہ شاہ لطیف کا ایس ایچ او ایک پختون امان اللہ مروت ہے،امان اللہ مروت اور اس کا بھائی احسان اللہ مروت ان چار ایس ایچ اوز میں سے ہیں جو راؤ انوار کے خاص کارندے سمجھے جاتے ہیں،آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ چونکہ ان دنوں سندھ حکومت کے چنگل سے آزاد ہیں چنانچہ انہوں نے نقیب اللہ قتل کیس میں اچھی شہرت کے افسران کو شامل کیا جنہوں نے ابتدائی تحقیقات میں پتالگایا کہ نقیب اللہ کے بارے میں راؤانوار اینڈ کمپنی کا کوئی دعویٰ درست نہیں ہے۔سلیم صافی نے بتایا کہ راؤ انوارپولیس میں اے ایس آئی بھرتی ہوئے جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں پہلے کلرک کی حیثیت سے بھرتی ہوئے تھے،1996ء میں نصیر اللہ بابر نے جن پولیس افسران کے ذریعہ مہاجروں کے خلاف مظالم کے پہاڑ توڑے ان میں راؤ انوار سرفہرست تھا، ایم کیوا یم دوبارہ حکمران بن کر طاقتور بنی تو چالاک راؤ انوار نے اپنا تبادلہ دوسرے صوبوں میں کرالیا، آصف زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد راؤ انوار کو ترقی دے کر دوبارہ کراچی لایا گیا،راؤ انواراس وقت سے اس ملیر ضلع کا انچارج ہے جہاں کمائی کے خاطر خواہ مواقع موجود ہیں، راؤانوار پیپلز پارٹی کی قیادت کا خاص بندہ مشہور ہونے کے ساتھ پولیس مقابلوں کیلئے بھی مشہور ہے لیکن اب حقائق سامنے آرہے ہیں کہ اس کے بیشتر پولیس مقابلے جعلی ہوتے تھے، راؤ انوار کا کوئی اصول یا نظریہ نہیں ہے، کرائے کے قاتل کی مانند انہیں طاقتور حلقے جس کام کیلئے استعمال کرنا چاہیں وہ استعمال ہوجاتے ہیں، پیپلز پارٹی کی قیادت نے ان سے جو کروانا چاہا وہ کرتے رہے، اس کے ساتھ وہ ملک کے طاقتور حلقوں کا کارندہ بھی بن گئے، راؤ انوار نے سب سے زیادہ اردو بولنے والوں کے خلاف مظالم ڈھائے، راؤ انوار ایک طبقہ کے خلاف مظالم ڈھا کر دوسرے طبقہ کے ہیرو بن جاتے ہیں، راؤ انوار آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے تو دائمی ہیرو رہے لیکن ایسا وقت بھی آیا کہ انہیں اے این پی اور تحریک انصاف بھی ہیرو قرار دینے لگیں، راؤ انوار کئی دفعہ عدالتوں کے ذریعہ معطل کردیئے گئے ، راؤ انوار اتنے طاقتور تھے کہ اپنے آئی جی اور ڈی آئی جیز کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے، عوام سے زیادہ راؤ انوار کو اصول پسند پولیس افسران ناپسند کرتے ہیں، راؤانوار اپنی ذات میں مافیا بن گئے ہیں اس لئے کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، راؤ انوار پولیس کی وردی میں دہشت کی بڑی علامت بن گئے تھے، ان کے کارندے ٹی ٹی پی کی طرح دہشتگرد، بھتہ خور اور کرائے کے قاتل تھے لیکن راؤ انوار پولیس افسر بنے رہے کیونکہ وہ سندھ کے حکمران اور طاقتور اداروں کا مہرہ تھے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ظلم کا شکار بننے والی شریفاں بی بی کی والدہ نے بتایا کہ میری بیٹی اس واقعے کے بعد بہت پریشان ہے اس کی صحت بہت خراب ہوگئی ہے، ڈاکٹر کہتے ہیں اس کو دل کی اور ذہنی بیماری ہے اسے اسپتال میں داخل کرو، ہماری اتنی سکت نہیں کہ ہم اس کا علاج کرواسکیں، میری بیٹی کو انصاف ملا ہوتا تو ہم ابھی تک خوار نہ ہورہے ہوتے، ہمیں ذلیل ہوتے ہوئے چار مہینے ہوگئے ہیں، مجھے نہیں پتا میری بیٹی کو انصاف ملنے میں کون رکاوٹ ہے۔