کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں میزبان نے اپنے تجزیئے میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں ہتک عزت کے قانون کی اہمیت ہے ،چیف جسٹس اس کا نوٹس لیں ،پاکستانی قوانین کے مطابق عدالت ہتک عزت کے کیسز نوے دنوں میں فیصلہ سنانے کی پابند ہےمگر نوے دن کی جگہ نو نو سال گزر جاتے ہیں انصاف نہیں ہوتا،لندن کی عدالت نے جیو کے حق میں فیصلہ دیا ،پاکستان میں یہی کیس تین سال سے زیر التواء ہے،سوشل میڈیا پر سرچ لاگ کیسے لیک ہوا کس نے لیک کیا۔میزبان نے کہا کہ پاکستان میں ایک خبر نے ہلچل مچائی ہوئی ہے اور اس خبر سے جڑے صحافی اور اینکر پرسن کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے ہیں، پاکستان میں روایت بن گئی ہے کہ بے بنیاد خبریں دی جائیں اور بے بنیاد الزامات لگادیئے جائیں، اپنا ایجنڈا پورا کیا جائے اور اگر معاملہ کسی عدالت یا متعلقہ ادارے کے پاس پہنچ جائے تو پھر پرواہ نہ کرنا کیونکہ تاریخ کہتی ہے کہ ان کیسز کا کچھ نہیں بنتا، شاید اسی تاریخ اور روایت کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ٹی وی شو میں ایک اینکر نے زینب کیس کے حوالے سے سنگین الزامات لگائےجس پر چیف جسٹس نے نوٹس لے بھی لیا، پہلی سماعت کے بعد تحقیقات ہوئیں، ابتدائی رپورٹ میں خبر غلط ثابت ہوئی، پاکستان میں بینکوں کو ریگولیٹ اور مانیٹرنگ کرنے والے ادارے اسٹیٹ بینک کے گورنر نے واضح الفاظ میں کہا کہ ملزم کا پاکستان میں کوئی فعال بینک اکائونٹ نہیں ہے، ساتھ ہی جو اکائونٹ سوشل میڈیا پر گردش کررہے تھے ان کے حوالے سے بھی صاف صاف بینک نے کہہ دیا، ہم نے بھی اس وقت کچھ بینک سے تحقیقات کی تھیں اور آپ کے سامنے حقائق جمعرات کے پروگرام میں رکھ دیئے گئے تھے لیکن اینکر پرسن کی طرف سے کہا گیا کہ جو سوشل میڈیا پر اکائونٹ چل رہے ہیں میں تو ان کی بات ہی نہیں کررہا، میں نے سپریم کورٹ میں بالکل الگ اکائونٹ دیئے ہیں، اس کے بعد معاملہ چلتا رہا، ساتھ ہی پنجاب حکومت نے بھی الزامات کو بے بنیاد قرار دیدیا، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ غلطی تسلیم کرلی جاتی مگر اینکر نے غلطی تسلیم نہیں کی اور بار بار غلط ثابت ہونے کے باوجود غلطی تسلیم نہیں کی اور ملک میں ہیجان کی کیفیت برقرار رہی اور اب تک برقرار ہے۔ اب نئی جے آئی ٹی بنے گی جو نئے سرے سے الزامات کا جائزہ لے گی، جے آئی ٹی کسی نتیجے پر پہنچے گی یا نہیں، سچ تو یہ ہے کہ جھوٹی اور من گھڑت خبروں کا راج ہے، سچ زیادہ بڑا یہ ہے کہ یہ جھوٹ تواترسے بولا جاتا ہے کیونکہ اس کی کوئی پکڑ نہیں ہے، بہت سارے ایسے لوگ موجود ہیں جن کے اگر پروگرامز اٹھائے جائیں تو ان میں باقاعدہ طور پر کبھی مذہب کو بنیاد بنا کر، کبھی حب الوطنی کوبنیاد بنا کر دوسروں کے مذہب پر فتوے دیئے جاتے ہیں، غداری کے فتوے دیئے جاتے ہیں اور کوئی پکڑ نہیں ہوتی، سچ یہ بھی ہے کہ ہر جھوٹی خبرپر جے آئی ٹی نہیں بن سکتی توپھر کیا کیا جائے کہ آئندہ اس طرح کا معاملہ سامنے نہ آئے، اس کا حل کسی نئے قانون اور کسی انقلابی قدم میں نہیں ہے یا کسی ایک شخص کو مثال بنانے میں بھی نہیں ہے بلکہ پہلے سے موجود قوانین پر عملدرآمد میں ہیں، سپریم کورٹ کو اپنی رپورٹ پیش کرنے کا جو معاملہ ہے اگر جے آئی ٹی اس حوالے سے رپورٹ پیش کر بھی دیتی ہے اور صورتحال واضح ہو بھی جاتی ہے تو مسئلہ یہ ہے کہ پہلے ہی ادارے اپنی تحقیقات میں صورتحال واضح کرچکے ہیں، اب پنجاب حکومت کو اینکر کے الزامات کے پیچھے انتشار کی کوشش نظر آرہی ہے، وزیرقانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا کہ اینکر کے پیچھے موجود قوتوں نے انتشارپھیلاین کی کوشش کی، اینکر کے پیچھے موجود لوگوں تک پہنچنا چاہئے، کیا اینکر کے پیچھے واقعی کچھ لوگ ہیں یا انہوں نے جعلی خبر بڑے بڑے دعوئوں کے ساتھ پیش کی، یہ سوال اہم ہے کہ خبر کے لئے متعلقہ دستاویزات جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں وہ کہاں سے آئیں،اس حوالے سے تحقیقاتی صحافی احمد نورانی کی جنگ اور دی نیوز میں خبر شائع ہوئی جس کے مطابق سوشل میڈیا پر 37اکائونٹس کی جو جعلی فہرست شائع ہورہی ہے وہ نادرا ڈیٹا بیس کا سرچ لاگ ہے، اس حوالے سے ہم آپ کو بتاچکے ہیں کہ ملزم کا شناختی کارڈ سامنے آنے کے بعد جو مختلف بینکس ہیں انہوں نے خود جو ان میں کام کرنے والے تھے انہوں نے اس شناختی کارڈ نمبر سے ملزم کا بینک اکائونٹ چیک کرنے کی کوشش کی کہ کہیں اس ملزم عمران علی کا جو بینک اکائونٹ ہے وہ ہمارے بینک میں تو نہیں تھے، جب وہ چیک کررہے تھے تو نادرا کے ڈیٹابیس میں ایک سرچ لاگ بن گیا، یعنی جس جس نے سرچ کیا اس سے ایک لاگ بنتا رہا جسے ملزم کے بینک اکائونٹس بنا کر پیش کردیا گیا کہ یہ اصل میں بینک اکائونٹس ہیں حالانکہ وہ ایک سرچ لاگ تھا، اس حوالے سے احمد نورانی کی خبر کے مطابق بظاہر کوئی بھی اس بات کی تحقیقات میں دلچسپی نہیں لے رہا کہ یہ جعلی دستاویزات کون تیار کرتا ہے جنہیں پراپیگنڈہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ نادرا کے سرچ لاگ تک نادرا کے عام اہلکار تک کی رسائی نہیں ہے، صرف نادرا کی اعلیٰ مینجمنٹ اور کچھ اہم قانون نافذکرنے والی ایجنسیوں کو اس ڈیٹابیس اور سرچ لاگ تک رسائی حاصل ہوتی ہے تو پھر یہ سوشل میڈیا پر سرچ لاگ کیسے لیک ہوئی اور کس نے لیک کیا، یہاں اس بات کی تحقیقات کی اشد ضرورت ہے کہ ان سرچ لاگ تک رسائی کس کی تھی تاکہ یہ بات واضح ہوسکے کہ ایجنڈا ترتیب دینے والی فیکٹریوں کے پیچھے کون ہے جو یہ گمراہ کن مہم چلارہا ہے جس نے بچوں سے زیادتی کے کیسوں کی تحقیقات کو ناکامی سے دوچار کرنے کی کوشش کی اور ایک باقاعدہ ڈیبیٹ جو پاکستا ن میں شروع ہوئی تھی اور ہوئی ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی سے بچوں کو کیسے بچایا جائے، اس ڈیبیٹ کو ایک نئی سمت دینے کی کوشش کی گئی، اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس حوالے سے ادارے موجود ہیں اور قوانین بھی موجود ہیں، جھوٹی خبروں کے تدارک کے لئے پاکستان میں تین پلیٹ فارمز موجود ہیں، پہلا عدالتیں جو ہتک عزت کے معاملہ کو دیکھتی ہیں، دوسرا پیمرا جو میڈیا پر قواعد و ضوابط کو دیکھتا ہے اور تیسرا ایف آئی اے جو سائبر کرائمز میں بھی تحقیقات کرتا ہے، اب سوشل میڈیا پر کیا کچھ ہورہا ہے اس پر نظر رکھنے کا ایف آئی اے ذمہ دار ہے، عدالت نے یہ معاملہ اٹھایا ہے تو ضروری ہے کہ پاکستانی قوانین میں موجود ہتک عزت کے مقدمات میں بہتری لائی جائے، قانون پر عملدرآمد ہو کیونکہ ہتک عزت کے معاملات عدالتوں تک پہنچ جاتے ہیں مگر کسی انجام تک نہیں پہنچتے، اگر پرانے ہتک عزت کا معاملات دیکھیں جس میں کبھی مذہب کو بنیاد بنا کر لوگوں پر کیچڑ اچھالی گئی اور ان کے مذہب پر سوالات اٹھائے گئے اور ان پر blasphamy کے فتوے جاری کیے گئے یا پھر ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھا کر ان کی غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹے گئے، وہ لوگ عدالت گئے، اگر عدالت ان مقدمات کو نٹمادیتی اور فیصلہ کردیتی اور جو جو الزامات ہوئے ان دو الزامات کے علاوہ بھی تو شاید لوگوں میں ہمت نہ ہوتی کہ وہ اس طریقے سے جھوٹ کا پرچار کریں اور باقاعدہ طور پر ایجنڈے کے تحت بار بار جھوٹ بولیں، یہی وجہ ہے کہ جب عدالتیں اس معاملہ پر کوئی ری ایکشن نہیں لیتیں تو نئے سرے سے الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کیونکہ جوا لزام لگاتے ہیں انہیں پتا ہے ان کی پکڑ نہیں ہے، جس پر الزام لگا وہ عدالت چلا گیا ہے مگر معاملہ سالہا سال چلے گا، ہتک عزت کے معاملہ کا فیصلہ نہیں آئے گا اس لئے نئے الزامات لگادو، نیا پراپیگنڈہ کردو اور پھر ایک نیا کیس سامنے آتا ہے پھر معاملہ التواء کا شکار ہوجاتا ہے، پھر سے نئے الزامات آتے ہیں، یہ گزشتہ کئی عرصہ سے جاری ہے اس کے تدارک کے لئے پاکستان میں بہت سخت قوانین ہیں لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا، بے سروپا الزام لگانے کی اسی لئے لوگوں میں ہمت ہوتی ہے، دنیا بھر میں ہتک عزت کے قانون کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے اور اس طرح کے معاملات پر جلد سے جلد فیصلہ آتا ہے۔ ہم آپ کے سامنے چند مثالیں رکھتے ہیں جس میں میڈیا نے غلط رپورٹنگ کی تو عدالت نے ایکشن لیا اور سخت ایکشن لیا۔ نومبر 2011ء میں بھارت کے معروف چینل ٹائمز نائو کو سابق جج کی شکایت پر 100کروڑ روپے ہرجانے کا سامنا کرنا پڑا اور باقاعدہ طور پر کرنا پڑا، اسی طرح 2016ء میں برطانوی اخبار میل آن لائن کو ایک خاندان کوا نتہاپسند قرار دینے کے جھوٹے الزام پر ڈیڑھ لاکھ برطانوی پائونڈ ہرجانے کا دعویٰ کرنا پڑا۔ 2009ء میں بی بی سی کو فٹبال کلب کے مینجر اور اس کے اسسٹنٹ کو ہرجانہ ادا کرنا پڑا، اسی طرح 2012ء میں بی بی سی نے نہ صرف معافی مانگی بلکہ ایک لاکھ 85ہزار پائونڈ کا جرمانہ بھی دینا پڑا، بی بی سی نے ایک سیاسی رہنما پر بچوں سے زیادتی کا الزام لگایا تھا مگر وہ الزام درست ثابت نہ کرسکا، اسی طرح بھارت ہی میں گزشتہ سال عدالت نے ایک سینئر صحافی کو ہتک عزت کے دو کیسز میں چھ ماہ کی قید اور ایک لاکھ روپے ہرجانے کی سزا سنائی، اب آپ کو ایک اور مثال دیتے ہیں، 2017ء میں لندن کی عدالت نے جیو کے حق میں ایک تاریخی فیصلہ دیا، عدالت نے اے آر وائی کی طرف سے ایڈیٹر انچیف جنگ اور دی نیوز میرشکیل الرحمٰن پر لگائے جانے الزامات اور تمام الزامات مسترد کردیئے، عدالت میں اے آر وائی نے یہ تسلیم بھی کرلیا کہ اس کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات غلط ہیں، اے آر وائی کوہرجانے اور مقدمہ کے اخراجات کی مد میں چالیس کروڑ روپے سے زیادہ ادا کرنے ہوں گے، اے آر وائی نے عدالتی حکم پر فیصلہ نشر بھی کیا، یہی کیس گزشتہ تین سالوں سے پاکستانی عدالتوں میں زیرالتواء ہے، نوٹس جاری ہوتے ہیں مگر فیصلہ ابھی تک نہیں آیا، لندن میں ایک سے ڈیڑھ سال کے اندر پورا کیس تمام ہوگیا اور فیصلہ آگیا، ایسا نہیں ہے کہ پاکستانی قوانین میں خامی ہے، پاکستانی قوانین کے مطابق عدالت ہتک عزت کے کیسز نوے دنوں میں فیصلہ سنانے کی پابند ہے مگر نوے دن کی جگہ نو نو سال گزر جاتے ہیں انصاف نہیں ہوتا۔