پشاور(ارشد عزیز ملک) تحریک انصاف حکومت کے بلندو بانگ دعوئوں کے برعکس صوابی یونیورسٹی میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے جس کا چانسلر و گورنر خیبرپختونخوا نے نوٹس لیتے ہوئے گورنر انسپکشن ٹیم کو انکوائری کا حکم دیتے ہوئے 15روز میں تحقیقاتی رپورٹ طلب کرلی‘ جامعہ کے وائس چانسلر نے سینڈیکیٹ کی منظوری کے بغیر غیر قانونی اخراجات کئے‘ نئے شعبہ جات قائم کرنے کے علاوہ70 منظور نظر افرادکو بھرتی کرلیا ‘جامعہ کےسینڈیکیٹ ممبران کی شکایت پر گورنر سیکرٹریٹ کی جانب سے جاری خط نمبر SO(III)6(20)6/GS/10مورخہ 25جنوری 2018ء میں گورنر انسپکشن ٹیم کو فوری طور پر صوابی یو نیو رسٹی میں ہونے والی بے قاعدگیوں اور بے ضا بطگیو ں کی تحقیقات کا حکم دیاگیا ہے اور 15روز میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے‘ ذرائع کے مطابق جامعہ صوابی کے سینڈیکیٹ میں ممبران سید اختر علی شاہ ‘ ڈاکٹر ناصر جمال شعبہ انگریزی پشاور یونیورسٹی اور ایچ ای سی کے ممبر نے جامعہ کے معاملات پر شدید اعتراضات اٹھائے‘ اس حوالے سے وائس چانسلر ڈاکٹر امتیاز علی خان سے رابطے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں‘سیکرٹری اعلیٰ تعلیم خیبرپختونخوا سید ظفر علی شاہ کے مطابق جامعہ کے معاملات میں بے ضابطگیوں کی صورت میں گورنر بحیثیت چانسلر انکوائری کا حکم دے سکتے ہیں تاہم صوبائی حکومت بھی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے ‘ دستاویزات کے مطابق جامعہ کے وائس چانسلر نے سینڈیکیٹ سے منظوری کے بغیر نئے شعبہ جات قائم کرکے غیر قانونی طور پر نئی بھرتیاں کیں ‘ذرائع کے مطابق سکیل ایک سے 16تک 70منظر نظر افراد کو بھرتی کیا گیا ہے جن کا تعلق ایک ہی حلقے سے بتایا جاتا ہے ‘ اس حوالے سے ایٹا کے تحت امتحان کا طریقہ کار اختیار ہی نہیں کیاگیا‘وی سی نے صوابی میں تمباکو کی ایک منڈی کرائے پر حاصل کرکے ڈیپارٹمنٹ قائم کردیا اور باقا عدہ کلاسز بھی شروع کر دیں‘جامعہ میں پروفیسرز ‘ایسوسی ایٹ پروفیسرز‘ اسسٹنٹ پروفیسر‘لیکچررز ‘ رجسٹرار اور ٹریژرار کی آسامیاں عرصہ دراز سے خالی ہیں جس کے باعث جامعہ کی ریکنگ گر رہی ہے جبکہ جن پوسٹوں پر بھرتیاں کی گئی ہیں اس کیلئے کوئی اشتہار بھی جاری نہیں کیاگیا جو میرٹ اور جامعہ کے اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے‘ سابق وائس چانسلر کے دور میں رجسٹرار‘ خزانجی‘ ڈپٹی رجسٹرار اور اسسٹنٹ برائے رجسٹرار کی آسامیوں کیلئے اشتہار شائع کیاگیا اور امیدواروں کو بھی شارٹ لسٹ کرلیاگیا تاہم ان امیدواروں کو تاحال انٹرویو کیلئے بلایا ہی نہیں گیا‘ گورنر کو موصول شکایات کے مطابق جامعہ کے ایک ٹیچر کو مبینہ طور پر ٹریژرار تعینات کرنے کیلئے آسامی کیلئے درکار تعلیمی قابلیت اور تجربہ میں تبدیلیاں بھی کی گئیں اور ٹریژرار کو رجسٹرار کا اضافی چارج دیکر رجسٹرار کو ہٹا دیاگیا‘ایچ ای سی کی واضح پالیسی کے باوجود مستقل سٹاف کی تعیناتی کیلئے معیار کی بہتری کیلئے کوئی بھی سیل نہیں بنایاگیا جبکہ جامعہ کو ایڈہاک ازم پر چلایا جا رہا ہے جبکہ فنڈز کی عدم دستیابی کےباوجود نئے شعبہ جات قائم کئے گئے ہیں ‘ پہلے سے موجود شعبہ جات کو اب بھی لیکچررز اور اسسٹنٹ پروفیسرز کی زیر نگرانی چلایا جا رہا ہے ‘وائس چانسلر نے سینڈیکیٹ ممبران کو آگاہ کئے بغیر ہی جامعہ کی سینٹ کا اجلاس طلب کیا اور بعدازاں سینڈیکیٹ ممبران کو اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کی کاپیاں ارسال کر دیں جس میں بجٹ کے معاملات بھی طے کئے جا چکے تھے جو کہ یونیورسٹی ایکٹ 2002ءاور جنرل فنانس رولز کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے‘ دستاویزات کے مطابق جامعہ کے سینڈیکیٹ کے 18ویں اجلاس میں بجٹ‘ نئے شعبہ جات کے قیام‘ نئی بھرتیوں اور آمدن کے ذرائع بڑھانے کے حوالے سے وائس چانسلر کی تمام سفارشات مسترد کردی گئی تھیں‘وائس چانسلر نے بجٹ کے حوالے سے 2015-16ءاور 2016-17ء کے تجویز کردہ بجٹ سے دگنا بجٹ طلب کرنے کیلئے تجاویز پیش کیں جس پر سینڈیکیٹ ممبران ڈاکٹر ناصر جمال اور سید اخترعلی شاہ کے علاوہ ایچ ای سی کے ممبران نے بھی اعتراض اٹھایااور وائس چانسلر سے وضاحت مانگی جس پر انہوں نے موقف اختیار کیا کہ جامعہ میں نئے شعبہ جات کے قیام‘ نئی بھرتیوں اور آمدن کے ذرائع بڑھانے کیلئے بجٹ دگنا چاہیے اس کے علاوہ ایچ ای سی اور حکومت نے بالترتیب جامعہ کو 185اور 320ملین روپے دینے کی یقین دہانی کرائی ہے ‘ فنڈز کی عدم دستیابی کی صورت میں یونیورسٹی شدید مالی بحران کا شکار ہو جائے گی ‘ اس حوالے سے وائس چانسلر ڈاکٹر امتیاز علی خان سے رابطے کی کوششیں ناکام ہوگئیں‘ ان کے دفتر کے فون نمبر 0938490238پر متعدد بار فون کیاگیا تاہم ان کے پی اے نے بتایا کہ آپ کا پیغام وی سی صاحب کو دیدیا تاہم وہ بہت مصروف ہیں لہٰذا بات نہیں کر سکتے‘ وی سی کے موبائل فون پر بھی رابطہ کیاگیا اور انہیں ایس ایم ایس بھی بھجوائے گئے لیکن انہوں نے کوئی جواب نہ دیا ‘ سیکرٹری اعلیٰ تعلیم خیبرپختونخوا سید ظفر علی شاہ سے رابطہ کیاگیا تو انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی ایکٹ کے تحت وائس چانسلر سنڈیکیٹ سے منظوری لینے کا پابند ہے اگر اس حوالے سے شکایات ہیں تو گورنر بحیثیت چانسلر یونیورسٹی کے معاملات کی انکوائری کے احکامات جاری کر سکتے ہیں‘ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت بھی کسی بھی بے قاعدگی یا بے ضابطگی پر کارروائی کا اختیار رکھتی ہے‘ انہوں نے کہا کہ گورنر انسپکشن ٹیم کی رپورٹ کی روشنی میں صوبائی حکومت کارروائی کرے گی ‘ معاملہ سینٹ میں بھی جا سکتا ہے ۔