ٹھنڈے مزاج کا آرامی چیف، تحمل و برداشت کا قطب مینار چیف جسٹس اور گالیاں کھاکے بے مزہ نہ ہونے والا ا پوزیشن لیڈر! پھر بھی حکمرانوں کو گلہ کہ انہیں کا م نہیں کرنے دیا جارہا، سازشیں جاری ہیں اور وہ ساڑھے تین پونے چار سال سے گرم توے پر کھڑے عوامی مینڈیٹ کی دھمالیں ڈال رہے ہیں۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی کا ٹھنڈا مزاج دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ سپہ سالار ایسے بھی ہوتے ہیں زیادہ دیر ساتھ بیٹھنے والے تو ٹھنڈک سے زکام میں مبتلا ہوجاتے ہوں گے۔ جنرل ضیاء الحق کی خوش مزاجی اور عاجزی ضرب المثل تھی مگر قائد عوام کی اٹھکھیلیاں زیادہ دیر برداشت نہ کرسکے، اسلم بیگ، وحید کاکڑ اور جہانگیر کرامت جیسے جمہوریت پسند آرمی چیف کا پیمانہ صبر بھی بالآخر لبریز ہوگیا مگر کیانی صاحب ساڑھے تین پونے چار سال سے کرپشن اور نااہلی کا نظارہ کررہے ہیں۔ اندرونی اور بیرونی دباؤ سے بھی نبرد آزما ہیں اور گڑھی خدا بخش کے قبرستان سے ملنے والا جمہوریت کا بھاشن بھی فراخدلی سے سنتے ہیں حتیٰ کہ سپریم کمانڈر کی ڈانٹ ڈپٹ بھی سہہ جاتے ہیں مگر اف نہیں کرتے، ان اللہ مع الصابرین پر اس قدر پختہ ایمان اللہ اکبر یہ لوٹنے کی جاے ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو چڑانے اور عدالتی فیصلوں کی تضحیک کے جس قدر جتن موجودہ حکومت نے کئے ماضی میں کم ہی مثال ملتی ہے ۔ ایک رکن اسمبلی شرجیل میمن کو توہین عدالت کا نوٹس ملا تو انہیں صوبائی وزیر بنادیا گیا۔ اسی شرجیل میمن سے ایک معتوب شخص کے ساتھ سفر کی گستاخی سرزد ہوئی تو استعفی لے لیا گیامگر عدالتی ضبط و تحمل کا مظاہرہ جاری ہے۔ وزیراعظم این آر او فیصلے پر عملدرآمد سے انکاری ہیں اور ان کے وزراء حیلوں بہانوں سے عدلیہ کی توہین کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ عدالت عظمیٰ توہین عدالت کے اختیار سے بھی دستبردارہوگئی ہے۔
میاں نواز شریف پر طعن و تشنیع کا کونسا تیر ہے جو نہیں چلا، ان پر جمہوریت دشمنی کا الزام لگا مگر وہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر اور جمہوریت کی ڈولی کے کہار بنے رہے۔ تبدیلی کے ہر غیر آئینی عمل کی مخالفت انہوں نے ڈٹ کر کی اور اس کوشش میں وہ عمران خان کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتے رے مگر آرمی چیف، چیف جسٹس آف پاکستان اور اپوزیشن لیڈر کے اس مثبت طرز عمل کی حکومت نے کبھی رسید نہیں دی، امریکہ کی مہربانی اور مشرف گزید میڈیا کے دوستانہ انداز سے فائدہ نہیں اٹھایا، عوام کو جمہوریت کے ثمرات پہنچانے اور اپنی گورننس بہتر بنانے کے بجائے ہر وقت خوف، ہر لمحہ خطرے کا ڈھنڈورا پیٹا کہ کوئی نہ کوئی اس کے درپے ہے ،امریکہ نہیں تو آرمی، فوج نہیں تو آئی ایس آئی۔ یہ نہیں تو پھرعدلیہ، آخر کس طرح ممکن ہے کہ اپوزیشن لیڈر ہمیں عدم استحکام سے دو چار کرنے کی کوششوں میں مصروف نہ ہوں یہ فرینڈلی اپوزیشن نظر کا دھوکہ اور سیاسی فریب کاری ہے اب کوئی نہیں چھیڑ رہا تو کل کو ضرور چھیڑے گا۔
ہمارے منتخب حکمرانوں کو آزاد عدلیہ کے ذریعے قانون کی حکمرانی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اطاعت کے کئی مواقع ملے مگر قوم کی بدقسمتی کہ ان خوفزدہ سیاستدانوں نے یہ مواقع خود ضائع کئے۔1993ء میں نواز شریف حکومت کی بحالی کا عدالتی فیصلہ فوجی اور سول اسٹیبلشمنٹ نے تسلیم کیا مگر سیاستدانوں نے اسے چمک کا نتیجہ قرار دے کر مسترد کیا اور جنرل وحید کاکڑ کے ذریعے منتخب حکومت کی رخصتی کی راہ ہموار کی۔1997ء میں عدالت عظمیٰ کی فعالیت میاں نواز شریف کو راس نہ آئی انہوں نے آرمی چیف کی مدد سے صدر اور چیف جسٹس کو گھر کی راہ دکھائی۔ دونوں بار عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد سے سیاستدانوں کو وقتی طور پر نقصان ہوتا مگر آزاد و فعال عدلیہ بالآخر جمہوری نظام کے استحکام میں مددگار ثابت ہوتی مگر انہوں نے عدالتی فیصلوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر آرمی چیف کا سہارا لیا اور بالآخر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے فلسفے کا شکار ہوئے۔
عالمی حالات، اندرونی مجبوریوں، جمہوری نظام سے وابستگی کے سبب موجودہ فوجی قیادت ایک بار پھر اپنا وزن آئین کی بالادستی اور عدالت عظمیٰ کی خود مختاری کے پلڑے میں ڈالنے پر آمادہ ہے۔ میمو گیٹ کیس میں آرمی اور آئی ایس آئی چیف نے عدالتی اختیار سماعت تسلیم کرکے قانون کی حکمرانی کا اعتراف کیا ہے مگر منتخب حکومت کو عدالتی ایوانوں سے سازش کی بو آرہی ہے۔1993ء اور1997ء کی طرح آخری فیصلے کا اختیار آرمی چیف کو دیا جارہا ہے۔ عدالتی احکامات سے رنجیدہ مرد بیمار کے چہرے پر آرمی چیف کا فون سن کر رونق آگئی اور وہ بستر علالت چھوڑ کر خوشی سے چھلانگیں لگاتے وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف کی طویل ملاقات کے بعد قوم کو پتہ چلتا ہے کہ حکومت کا حال اچھا ہے لیکن یہ کوئی سوچنے کے لئے تیار نہیں کہ جس جمہوریت کا سارا کاروبار فوجی سربراہ کی خوشنودی ،امریکہ و برطانیہ کی ثالثی اور آزاد عدلیہ کی تذلیل پر چلتا ہو وہ کتنی دیر تک جرنیل کی چھڑی کے سہارے چل پائے گی اور کب اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہوگی۔
اگر ایک بار عدلیہ طاقتور اور بالادست ہوجائے۔ عدلیہ کی فعالیت کا تھوڑا بہت نقصان منتخب حکومت کو بھی برداشت کرنا پڑے تو فائدہ کس کا ہے؟ فوج کا؟امریکہ کا؟ یا اس ملک کے مظلوم اور بے بس عوام کا؟ سب سے زیادہ سیاستدانوں کا جنہیں بالآخر عدلیہ سے ہی ریلیف ملتی ہے، فوجی عدالتوں سے نہیں لیکن جنہیں یقین ہو کہ امریکہ اور آرمی کے بغیر وہ صفر ہیں امریکہ انہیں بندوق والوں اور آرمی انہیں عدلیہ کے عتاب سے بچاتی ہے وہ یہ کیوں سوچیں؟ ویسے بھی لاتوں کے بھوت باتوں سے کب مانتے ہیں۔