بہت مضحکہ خیز ہوتے ہیں وہ بیانات جن میں کہا جاتا ہے کہ قانون اور آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ایسے بیانات عام طور پر قانون اور آئین کے محافظ اداروں کی جانب سے جاری کئے جاتے ہیں جن سے قانون اور آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں نے کبھی اجازت لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ہو گی۔ ایسے بیانات سے یہ غلط تاثر بھی مل سکتا ہے کہ اب تک قانون اور آئین کی جو خلاف ورزی ہوئی ہے، بے حرمتی کی گئی ہے یا قانون اور آئین کو پامال اور مسخ کیا گیا ہے۔ اس کے لئے شائد ان اداروں سے اجازت حاصل کی گئی ہو گی مگر اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ کوئی مزید اجازت نہ دی جائے یا شائد کسی نئے طالع آزما نے ملکی اور قومی مسائل کے ہجوم میں اپنے آپ کو ضائع کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کر لی ہو گی۔
”کولڈ پرنٹ“ ور ”ہا الیکٹرانک“ میڈیا کی خبروں سے تاثر ملتا ہے کہ ہماری عدلیہ نے سپریم کورٹ کی سربراہی میں پاکستان میں فوجی عدالتوں کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیئے ہیں۔ اس سے یہ تاثر بھی مل سکتا ہے کہ ہماری آزاد اور خود ختار عدلیہ نے ملک میں کسی مارشل لاء کے نفاذ کے اندیشوں کو بھی ختم کر دیا ہے کیونکہ فوجی عدالتوں کے دروازے کھولنے کے لئے مارشل لاء کے نفاذ کی ضرورت ہوتی ہے مگر یہ تاثر دینے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور ضرورت تھی بھی نہیں کیونکہ اس نوعیت کے تاثر اس سے پہلے بہت مرتبہ دیئے جا چکے ہیں۔ 1973ء کے متفقہ آئین کی منظوری کے ساتھ بھی کہا گیا تھا کہ کوئی اور جنرل ایوب فیلڈ مارشل بننے کے لئے اپنے ملک کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کرے گا اور کوئی جنرل یحییٰ خاں پاکستان کو توڑنے کی جسارت نہیں کر سکے گا بلکہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے بعد نافذ ہونے والے ہر مارشل لاء سے پہلے یہی بتایا گیا کہ پاکستان میں فوجی حکومتوں اور فوجی عدالتوں کے تمام دروازے بند کر دیئے گئے ہیں مگر تاریخ بتاتی ہے کہ ہر فوجی حکمران نے اپنے لئے نئے دروازے اور نئی کھڑکیاں کھولیں اور اعلیٰ عدالتوں کے تعاون سے کھلوائیں اس سلسلے کے آخری فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کو تین سالوں کی حکومت کے علاوہ آئین میں مناسب اور موزوں ترمیم کی اجازت بھی مرحمت فرمائی گئی جس پر میر انیس کا یہ شعر صادق آیا کہ
خورشید سا پیالہٴ مے بے طلب دیا
پیر مغاں سے رات کرامات ہو گئی
پاکستان کی قومی زندگی کے چونسٹھ سالوں میں جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی 34 سالوں پر پھیلی ہوئی فوجی حکومتوں کے بعد جمہوریت کی نام نہاد بحالی کے ساڑھے تین یا چار سالوں کے دوران سول حکومت کے ساتھ فوجی حکومت کا اندیشہ بھی چلتا رہا جیسے شاعر نے کہا تھا کہ
تھا زندگی میں موت کا دھڑکا لگا ہوا
ہارورڈ یونیورسٹی کے ریسرچ فیلو عادل شاہ کی تحقیق ہے کہ جنرل ایوب کو پاکستان کی قومی سیاست میں وہی مقام مل سکتا ہے جو فرانس کی سیاسی زندگی میں چارلس ڈیگال کا تھا جن کے بارے میں فرانس کے ایک صدر فرانکوئس متراں (یا متغاں) نے کہا تھا کہ وہ فرانس کو مستقل طور پر فوج کے قبضے میں دے گئے ہیں۔ یہی بات جنرل ایوب کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے کہ وہ ملک کے پہلے سربراہ افواج کے طور پر فوج کو ”بنیادی جمہوریت“ کا درجہ دے گئے ہیں جو جنرل پرویز مشرف کے ”گراس روٹس“ تک پہنچ چکا ہے۔ عادل شاہ کی ”ریسرچ“ بتاتی ہے کہ
یہ چمن یوں ہی رہے گا اور ہزاروں جانور
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے
یہ سول حکومت کی کمزوریاں نہیں فوج کی اپنی طاقت ہوتی ہے جو اقتدار پر قبضہ کرتی ہے وہ کسی سیاسی طاقت کی طرف سے ”دعوتی رقعے“ کی محتاج بھی نہیں ہوتی۔ عادل شاہ کے الفاظ میں پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر ایک ماہ پہلے کے حالات میں جنرل کیانی کی جگہ جنرل پرویز مشرف ہوتے تو اب تک ”میرے عزیز ہم وطنو! السلام و علیکم“ ہو چکا ہوتا اور شائد ”وعلیکم السلام“ بھی سنائی دے جاتا۔
اگر یہ سچ ہے کہ پاکستان میں سول حکومت جنرل کیانی کے دم قدم سے قائم ہے تو یہ بھی غلط نہیں ہو گا کہ پاکستان میں قانون اور آئین کی حکمرانی چیف جسٹس پاکستان کی مرہون منت ہے۔