• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں سیاسی ہلچل کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ سینیٹ کے انتخابات کا وقت متعین ہوچکا ہے۔ ان انتخابات کے بعد عام انتخابات منعقد ہو ںگے۔ اسی تناظر میں سیاسی جماعتیں جلسے جلوسوں میں مشغول ہیں۔ یہ بات البتہ باعث حیرت ہےکہ چندپارٹیاںاپنے نظریات تک کو تیاگ کر سیاسی اتحاد بنانےمیں کوشاں دکھائی دیتی ہیں۔ بلاشبہ سیاست میں کوئی بات حرف ِ آخر نہیں ہوتی۔ تاہم جوشے ملک کے سنجیدہ حلقوں میں پسندیدگی کی نظرسے نہیں دیکھی جارہی، وہ سیاستدانوںکا طرز ِعمل بلکہ اندازِ تکلم ہے۔ زبانیں گویا ذم کی قمچیاں بن کر ایک دوسرے پربرس رہی ہیں۔ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پرسیاسی جماعتوں نے بھرپور جلسے کئے لیکن افسوس کہ سب کی توجہ دشنام طرازی پر ہی رہی، کشمیر پربات اگر کسی نے کی بھی تو نہ ہونےکےبرابر۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے مظفر آباد آزادکشمیر میں جلسہ کیااورکہا کہ فیصلہ نہ آتا توبیروزگاری ختم کردیتا۔ آصف زرداری نے نوازشریف کو آڑے ہاتھوں لیا۔انہیں درندہ اور ناسور قراردیتے ہوئے انہیں نکالنا ضروری قرار دیا۔ عمران خان بھی حسب معمول نوازشریف کے ناقد بنے رہے۔ پاکستان میں سیاست برداشت کے جس وصف سے تہی داماں ہوتی چلی جارہی ہے، کسی بھی صورت مناسب نہیں بلکہ اسے بھی ایک طرح کی انتہا پسندی قرار دیاجائے تو شائد مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔ صد حیف کہ بعض سیاستدانوں میں سیاسی بلوغت کا شائبہ تک دکھائی نہیں دیتا۔ یاد رہے یہ وقت طعن و تشنیع کانہیں بلکہ شائستگی و تدبر سے کام لینے کا ہے۔ دوسروں پر انگشت نمائی سے بہترہےکہ انتخابات تک جووقت ملا ہے اس میں عوامی مسائل کو مدنظر رکھ کر اپنا اپنا منشور طے کیا جائے، عوامی فلاح کے منصوبے بنائے جائیں اور عوامی ہمدردیاں سمیٹی جائیں۔ وطن عزیز کو اس وقت سیاستدانوں کی سنجیدگی اور حب الوطنی درکار ہے نہ کہ وہ طرز ِ عمل جو انہوں نے اپنا رکھا ہے اور بھول رہے ہیں کہ ان کی یہ روش جمہوریت کے لئے مضر ثابت ہوسکتی ہے۔

تازہ ترین