• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالم اسلام کے اس وقت اہم مسائل میں تنازع کشمیر، مسئلہ فلسطین اور مسئلہ قبرص سر فہرست ہیں۔ اقوام متحدہ آج تک ان تینوں مسائل کو حل کرنے کیلئے کوئی بھی سنجیدہ قدم نہیں اٹھا سکی جس کی بڑی وجہ اقوامِ متحدہ پر اسلام دشمن قوتوں کا غلبہ ہے۔ مقبوضہ جموں کشمیر میں آٹھ لاکھ بھارتی فوجیوں کے ظلم و ستم اور جبر کی وجہ سے اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔ پانچ فروری 1990کو جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد اور اپوزیشن لیڈر میاں محمد نواز شریف کی اپیل پر وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے سرکاری طور پر کشمیری عوام کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کیلئے اس روز کو ’’یومِ یکجہتی کشمیر‘‘ قرار دیتے ہوئے آزادی کشمیر کی جدوجہد میں نئی روح پھونک دی تھی۔ اس روز سے دنیا بھر میں پُرامن طریقےسے ریلیاں، کانفرنسز اور سیمینارز کا انعقاد کرتے ہوئے بھارت سے کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ بھارت نے 70برسوں میں ہر ممکن طریقے سے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کچلنے کی کوشش کی مگر اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ بھارت نے جس قدر کشمیریوں کو دبانے کی کوشش کی وہ آزادی کے حصول کیلئے اتنا ہی آگے بڑھتے گئے۔ بھارت کی ریاستی دہشت گردی پربین الاقوامی اداروں کی خاموشی افسوسناک ہے۔ دنیا میں اگر کوئی ملک کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی کھل کر حمایت کررہا ہے تو وہ بلاشبہ برادر دوست ملک ترکی ہی ہے۔ ترکی نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی مکمل حمایت کی اور مسئلے کے حل تک اپنی حمایت کا یقین دلا رکھا ہے۔ ترکی کے صدر ایردوان کئی بار اس بات کا برملا اظہار کرچکے ہیں کہ ’’ہمیں یقین ہے کہ مسئلہ جمو ں کشمیر کو بہترین طریقے سے حل کرنے کا راستہ کشمیری عوام کی خواہشات کا احترام کرنے ہی سے گزرتا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود کیوںکر مسئلہ کشمیر حل نہیں کیا جاسکا ہے۔ میرے خیال میں علاقے کے عوام کے حق ِخودارادیت کو تسلیم کیے بغیر اس مسئلے کو حل کرنا ممکن نہیں ہے‘‘۔ یہ صرف صدر ایردوان ہی کے خیالات نہیں ہیں بلکہ تمام ترک ہی مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کرتے ہیں۔ ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم، وزیر خارجہ مولود چاوش اولو اور قومی اسمبلی کے اسپیکر اسماعیل قہرامان ترک عوام کی جانب سے بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی کروانے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں پر بھارتی ظلم و ستم کی شدید مذمت بھی کرتے ہیں۔ ترکی کی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت سے متعلق جب راقم نے ترکش ریڈیو اور ٹیلی وژن کی اردو سروس کے نمائندے کی حیثیت سے سفیر پاکستان سائرس سجاد قاضی سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’ترکی کی مسئلہ کشمیر پرکھل کر حمایت کرنا، ہمارے لئے بڑی خوشی کا باعث ہے اور ہمیں ترکی پر فخر ہے۔ترکی او آئی سی میں کشمیررابطہ گروپ کا ممبر ہے اور اس نے وزیر کی سطح پر ہمیشہ اس کے اجلاسوں میں شرکت کی ہے اور او آئی سی نے کشمیر میں حالات کا جائزہ لینے کیلئے جو کمیشن روانہ کیا تھا اس میں ترک نمائندہ بھی موجود تھا۔اس کمیشن کو اگرچہ بھارت نے جموں کشمیر جانے کی اجازت نہیں دی لیکن کمیشن نےآزاد کشمیر میں بیٹھ کر جو رپورٹ تیار کی تھی اسے پڑھ کر انسانی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ‘‘۔
پانچ فروری ہی کو انقرہ کے ایک ہوٹل میں سفارتخانہ پاکستان اور تھنک ٹینک ’’ایصام‘‘ کے تعاون سے " یوم یکجہتی کشمیر" کے زیر عنوان ایک سیمینار اور پینل کا اہتمام کیا گیا ۔جس میں بڑی تعداد میں ترک باشندوں کی شرکت نے پاک ترک دوستی کا ثبوت فراہم کردیا۔ اس تقریب میں ’’ایصام‘‘ تھنک ٹینک کے صدر رجائی کُتان، نجم الدین ایربکان کی جماعت سعادت پارٹی کے چیئرمین تے میل قارا مولا اولو، نائب وزیر خارجہ احمد یلدیز، ترک پارلیمنٹ میں پاک ترک پارلیمانی دوستانہ گروپ کے چیئرمین محمد بالتا، پاکستان ترک کلچرل ایسوسی ایشن کے صدر برہان قایا ترک سابق ایم این اے پروفیسر ڈاکٹر اویا آق گیونینچ، پروفیسر ڈاکٹر سنجار ایمیر، پروفیسر ڈاکٹر ایم سیف الدین، ایرول اور آئدن گیوین نے شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ’’ایصام‘‘ تھنک ٹینک کے صدر رجائی کُتان نے کہا کہ عالم ِ اسلام کو مشکلات سے دوچار کرنے اور اپنے آپ کو مہذب کہلوانے والے مغر بی ممالک ہی ہیں جنہوں نے گزشتہ دو سو سالوں میںاپنے مہذب پن کی آڑ میں اسلامی ممالک میں انتشار پھیلا رکھا ہے ۔انگریزوں نے جان بوجھ کر کشمیر کے مسئلے کو حل کیے بغیر چھوڑ دیا تاکہ علاقے میں کبھی بھی امن قائم نہ ہوسکے۔ مرحوم نجم الدین ایربکان نے ہمیشہ ہی مسئلہ کشمیر کو ترکی کے ایجنڈے میں پہلے نمبر پر رکھا اور کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔ اس موقع پر سفیرِ پاکستان نے ’’ایصام‘‘ اور شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی موجودگی مقبوضہ جموں کشمیر میں جبر اور ظلم و ستم کے تحت زندگی بسر کرنے والے کشمیریوں کیلئے طاقت اور حوصلہ افزائی کا وسیلہ ہے۔ 3 نومبر 1947 ء کو آل انڈیا ریڈیو سے خطاب کرتے ہوئے ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لا ل نہرو نے کشمیری عوام سے وعدہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے مجاز صرف کشمیری عوام ہی ہیں۔ ہم نے یہ وعدہ صرف کشمیری عوام کے سامنے نہیں بلکہ پوری دنیا کے سامنے کیا ہے اور اپنے اس فیصلے پر قائم ہیں‘‘۔ سفیر پاکستان نے کہا کہ ہندوستان نے آج تک اپنے اس وعدے کو پورا نہیں کیا اور کشمیری عوام پر طاقت کے بل بوتے پر اپنی حاکمیت قائم کررکھی ہے۔انہوں نے بین الا قوامی پلیٹ فارم پر پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کرنے پر حکومتِ ترک اور ترک حکام کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر ترکی کے نائب وزیر خارجہ احمد یلدیز نے کہا کہ صدر ایردوان کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم سے پوری طرح آگاہ ہیں اور وہ ہمیشہ عالمی برادری سے اس مسَلےکے حل پر زور دیتے آرہے ہیں اور وہ جلد از جلد اس کے حل کے خواہاں ہیں۔ اس موقع پر ترک پارلیمنٹ میں پاک ترک پارلیمانی دوستانہ گروپ کے چیئرمین محمد بالتا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح پاکستان کے عوام نے جنگِ نجات اور قبرص کی جنگ کے موقع پر ترک عوام کی حمایت اور پشت پناہی کی ہم اسکوکبھی بھی فراموش نہیں کرسکتے اور یہ ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی کھل کر حمایت کریں۔ اس موقع پرسعادت پارٹی کے چیئرمین تے میل قارا مولا اولو نے کہا کہ ترکی اور پاکستان کے درمیان قابلِ رشک تعلقات ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کی ہمیشہ بین الاقوامی پلیٹ فارم پر مکمل حمایت کرتے ہیں۔ سعادت پارٹی مسئلہ کشمیر کو اسلامی تعاون تنظیم کے ذریعے حل کروانے پر یقین رکھتی ہے کیونکہ اقوام متحدہ اور مغربی ممالک اسلامی ممالک کے مسائل حل کرنے میں ذرہ بھر بھی دلچسپی نہیں لیتے۔

تازہ ترین