• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بزرگوں سے باربار سنا ہے کہ اللہ پاک کے کاموں میں کوئی نہ کوئی بہتری ہوتی ہے۔ اس بات کو حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب کشف المحجوب میں یوں بیان کیا ہے ’’اللہ تعالیٰ کےفیصلے الل ٹپ نہیں ہوتے‘‘ یعنی ان فیصلوں کے پس پردہ کوئی حکمت، کوئی بہتری اورکوئی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں بارہا اس اصول یا یقین کو سو فیصد درست نکلتے اور صحیح ثابت ہوتے دیکھا ہے۔ یہ الگ بات کہ بعض فیصلوںکی حکمت آج تک سمجھ میں نہیں آئی لیکن سچ تو یہ ہے کہ خدائی فیصلوںکی ہر بارحکمت سمجھنا ضروری بھی نہیں اور آسان بھی نہیں ۔ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ جن واقعات یا خدائی فیصلوں کی حکمت یاان میں مضمر بہتری سمجھ میں آئی وہ میرے رب کی منشا تھی کہ وہ مجھے سمجھائے ورنہ انسان خدائی معاملات میں بے بس ہوتا ہے اور کچھ نہیں کرسکتا۔ گویا الٰہی فیصلوں کی حکمت بھی تبھی سمجھ میں آتی ہے جب یہ منشائے الٰہی ہوتی ہے۔ جن معاملات کو پوشیدہ رکھنا مقصود ہوتاہے ان کے مقاصد کبھی بےنقاب نہیں ہوتے۔
اگر آپ بہت زیادہ روشن خیال اور الٹرا لبرل ہیں توہوسکتا ہے آپ ان باتوں میں یقین نہ رکھتے ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ اسے توہم پرستی یا قدامت پرستی سمجھ کر تمسخر بھی اڑاتے ہوں لیکن میں جب اپنی طویل زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے بہت سے ایسے واقعات یاد آتے ہیںجن سے بظاہر میرا نقصان ہوا، مجھے صدمہ پہنچا، میرے لئے وہ معاملہ نہایت غیرمتوقع تھا یا میں نے اپنی مرضی کے خلاف محض دوستوں عزیزوں کے کہنے پرکچھ کر دیا لیکن دل میں افسوس اور شک تھااور کچھ عرصے کےبعد راز کھلا کہ ان میں میرے لئے بہتری (Blessing) پوشیدہ تھی جس کا اس وقت میں سوچ سکتا تھا نہ اندازہ کرسکتا تھا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ زندگی کی راہ پر چلتے ہوئے اچانک شدید دھکا یا دھچکا لگا یا مجھے ایسے جرم کی سزادے دی گئی جو میں نے کیا ہی نہیں تھا۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ ایسی صورتحال میں پھنس جاتے ہیں جس میں آپ کا ہاتھ ہوتاہے نہ آپ کو علم ہوتا ہے اور انسان پریشان ہو جاتا ہے یا بظاہر نقصان اٹھاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد راز کھلتا ہے کہ قدرت نے آپ کو چھوٹا نقصان پہنچا کر کسی بڑے نقصان سے بچا لیا۔اکثر یوں بھی ہواکہ میں جسے گھاٹے کا کام سمجھا تھا وہ کچھ برسوں بعد منافع کا سامان نکلا، میں جسے سزاسمجھا وہ وقت بدلنے کے بعد میرے لئے جزا اور باعث رحمت بن گئی۔ اس حوالے سے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ بعض اذیتیں، سزائیں یا بیماریاں جو انسان اس دنیا میں بھگتتا ہے اس کا اجر اگلے جہان میں ملتا ہے بشرطیکہ انسان معصوم اور بے قصور ہو۔ ایک سے زیادہ حدیثوں سےرہنمائی ہوتی ہے کہ اس دنیامیں طویل بیماری سے گناہ جھڑتے ہیںاور ابدی زندگی یعنی اگلے جہان میں انسان ان گناہوں کی سزا سے بچ جاتا ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی کسی کوشش میں ناکام ہو جاتے ہیں، ارادہ تکمیل نہیں پاتا اور جو چاہتے ہیں وہ مل نہیں سکتا ۔ بعض اوقات کمند اس وقت ٹوٹ جاتی ہے جب لب بام دوچار ہاتھ رہ گیا تھا، ہم کچھ اور بننا چاہتے ہیںلیکن قدرت ہمیں کسی دوسری راہ پر ڈال دیتی ہے چنانچہ ایسے مواقع پر انسان کو شدید صدمہ پہنچتاہے۔ دل ٹوٹتا اور حوصلے پارہ پارہ ہوتے ہیں۔ میراذاتی تجربہ یہ ہے کہ ان محرومیوںاور ناکامیوںمیں عام طور پر ایسی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے جوکبھی کبھی وقت گزرنے کے بعد ظاہر ہوجاتی ہے اورکبھی کبھی ظاہر نہیں ہوتی لیکن یہ یقین رکھیں کہ جب آپ اپنے معاملات، خواہشات اور فیصلے اپنے مالک حقیقی کے سپرد کردیں اور اس کی رضا پر راضی رہنے کی کوشش کریں تو پھر ہر ناکامی میں مصلحت اور حکمت مضمر ہوتی ہے اورہر کامیابی میں بے پایاں برکت پیدا ہوتی ہے البتہ اگر آپ اپنے معاملات کو کلی طور پر اپنے ذاتی کارنامے یا ذاتی فعل سمجھیں اور آپ کا ایمان یہ ہو کہ ان میں قدرت کا کوئی عمل دخل نہیں، توپھر کوشش کے باوجود آپ کو ان میں کبھی بھی کوئی حکمت نظر آئے گی نہ مصلحت۔ یقین رکھئے جو لوگ اپنے آپ کو مختارِ کل سمجھتے ہیں ان پر حکمت ِ الٰہی اور بصیرت کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کردیئے جاتے ہیں۔ وہ دنیاوی علم جتنا مرضی حاصل کرلیںاور علم و فضل کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوجائیں، لیکن اللہ پاک کی عطا کردہ بصیرت سے محروم رہتے ہیں اور جو لوگ اس بصیرت سے محروم ہوتے ہیں وہ ہمیشہ ظاہر بین رہتے ہیں اور ان پر ظاہر کا باطن کبھی نہیںکھلتا۔ اس ضمن میںیہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ واقعات، حالات اور معاملات جیسے نظرآتے ہیں،عام طور پرویسے ہوتے نہیں۔ دنیا فریب ِ نظر اور زندگی مداری کا تماشا ہے۔ اس ظاہرکے جادو سےنکلنے کے لئے نگاہوں سے فریب کا پردہ ہٹانا ضروری ہے مگرفریب کا پردہ تیقن یعنی اللہ پاک پر گہرے یقین اور اندھے بھروسے سے ہٹتا ہے۔ جب تک انسان کے اندر ’’میں‘‘ موجود رہتی ہے وہ یقین کی منزلیں طے کرکے تیقن کے مقام پر نہیں پہنچ سکتا اور جب تک تیقن کی منزل حاصل نہیں ہوتی، ظاہر کا پردہ نگاہوں سے نہیں سرکتا۔ ’’میں‘‘ کو ختم کرنے کے لئے خود سپردگی ناگزیر ہے اور خودسپردگی سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو کلی طور پر اللہ پاک کے سپرد کردے اور اس کے ہر فیصلے پر دل سے راضی رہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا وہ قول یاد کیجئے کہ ’’میں نے رب کو اپنے ارادوںکی ناکامی سے پہچانا‘‘ارادوں کی ناکامی میں رب کو صرف وہی نگاہ ڈھونڈتی ہے جو رضائے الٰہی کے بلند مقام پر موجود ہوتی ہے جس نےخود کو مکمل طورپر اللہ پاک کےسپردکردیا ہوتا ہے اور جسے یقین ہوتا ہے کہ اس کے ارادوں کی ناکامی میں بھی اس کےلئے کوئی بہتری، حکمت اورمصلحت موجود ہے۔ اس کے برعکس جو حضرات مختار ِ کل کے زعم میں مبتلا ہوتے ہیں وہ ارادوں کی ناکامی کا ذمہ داربھی خود کو سمجھتے ہیں یا خارجی عوامل کو الزام دیتے ہیں اور ناکامی کی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر پست حوصلگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کبھی قسمت کو مطعون کرتے ہیں اور کبھی مقدر کا رونا لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اللہ سبحانہ ٗ تعالیٰ پر تیقن اور اپنے آپ کو مالک حقیقی کے سپرد کرنے والے ان ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں اور صدمات، مشکلات، ناکامیوں وغیرہ کو آزمائش کا حصہ تصور کرکے صبر کرتے اور ان میں حکمت کے منتظر رہتے ہیں۔ اس صبر کا اجر ملتا ہے اور اس حکمت کی تلاش سے بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ میں کم فہم اور کوتاہ نظر انسان ہوں لیکن میں نے زندگی کے سفر میں بارہا یہی دیکھا کہ بظاہر ناکامیوں، جھٹکوں اور خساروں میں میرے لئے کوئی بہتری مقصود تھی یا میری تربیت مقصود تھی۔ اکثر معاملات کی حکمت کا راز وقت کے ساتھ کھل کر سمجھ میں آگیا لیکن بعض پر پردہ پڑا رہا اور ہر مقام پر حضرت علی بن عثمان الہجویری کا یہ قول میرے ذہن میں زندہ رہا کہ ’’اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کے فیصلے الل ٹپ نہیں ہوتے بلکہ حکمت کے امین ہوتے ہیں۔‘‘

تازہ ترین