• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Dr G Mustafa Habibullah Dies

ملک کے ممتاز ماہر تعلیم اور یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے بانی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جی مصطفیٰ حبیب اللہ بھی اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے،اس فانی دنیا میں ان کا قیام تقریبا 75 برس رہا۔

ڈاکٹر صاحب اپنے آخری دنوں تک وہ ایک بھرپور اور متحرک زندگی گزار رہے تھے لیکن جب بلاوا آتا ہے تو بس ایک بہانا ہی بنتا ہے سو ٹیٹنس کا ایک بہانا بنا اور دو ہفتے ڈیفنس کے ایک ہسپتال میں صاحب فراش رہ کر اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گیے۔

جو لوگ ان کو جانتے ہیں وہ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ان کے انداز سے خلوص اور بے غرض محبت کا اظہار ملتا تھا،ان کی شخصیت میں ایک سحر تھا جو ملنے والے کو ان کا گرویدہ کر دیتا تھا، وہ مسلسل محنت اور جدوجہد پر یقین رکھتے تھے وہ اکثر کہتے تھے کہ زابر انسان کیا نہیں کر سکتا اگر کرنا چاہے۔

پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ حبیب اللہ ایک بہت بڑے ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ایک بڑے انسان بھی تھے، وطن عزیز کی پہلی ایجوکیشن یونیورسٹی کا قیام ان کا خواب تھا۔

جب 2002 میں یونیورسٹی آف ایجوکیشن کا قیام عمل میں آیا تو ان کی خوشی دیدنی تھی.وہ اس لمحے کو اپنی زندگی کی بہت بڑی کامیابی قرار دیتے تھے. ڈاکٹر جی مصطفیٰ 2006 تک اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے. مجھے کئی برس ان کی محبت اور شفقت کے زیر سایہ رہنے کا موقع ملا۔

وفات سے ایک ڈیڈھ ماہ پہلے تک رابطے میں رہے، چند دن فون نہ کرتا تو خود فون کر کے طبیعت کا پوچھتے، احمد اور فاطمہ کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے پوچھتے پھر ڈھیروں دعائیں دیتے،اکثر ان کی دعائیں کافی طویل ہوتیں، والد گرامی،والدہ اور سب کا بڑی محبت سے پوچھتے، کمال انسان تھے۔

ان کی آنکھوں میں محبت،شفقت اور خلوص کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر میں نے محسوس کیا،میری پی ایچ ڈی کا کریڈٹ بھی ان کو ہی جاتا ہے ایک دن اچانک ان کا فون آیا اور پوچھا زابر بیٹا! تم نے پی ایچ ڈی کرنی ہے اس میں اب سستی نہیں کرنی،پھر کہا میں نے ہزاروں لوگوں کو پی ایچ ڈی کروائی ،ان دنوں تم نے کبھی مجھ سے اس کا اظہار نہیں کیا۔

میں نے کہا کہ 2002 میں میری پی ایچ ڈی ہو جانی تھی اگر وہ میری صحافتی زندگی میںجدو جہد کا دور نہ ہوتا،اس موقع پر انہوں نے کہا کوئی بات نہیں اب کر لو، میں نے اس بات کا ذکر اپنی بیگم اور بچوں سے بھی کیا کہ پتہ نہیں ایسا کیا ہوا ہے جو ڈاکٹر صاحب نے خصوصی طور پر فون کر کے تقریبا حکم دینے کے انداز میں کہا ہے کہ زابر تم نےپی ایچ ڈی ضرور کرنا ہے۔

جب میرا پنجاب یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ ہوا تو سب سے پہلے اس کی اطلاع اس عظیم اور پر خلوص انسان کو دی وہ اتنا خوش ہوئے کہ اس کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں. پھر ڈھیروں دعائیں دیں، اپریل 2016 میں لاہور پریس کلب میں میری کتاب ’’پاکستان اور فوج‘‘ کی تقریب رونمائی میں تشریف لائے۔

مجھے ابھی تک یاد ہے جب انہوں نے کہا بیٹا میں تمہیں انکار نہیں کر سکتا، میں ضرور آؤں گا. وہ اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے،یونیورسٹی آف ایجوکیشن سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہوں نے بڑی فعال اور متحرک زندگی گزاری۔ پاکستان کی بڑی جامعات سے منسلک رہے. وہ عمل پر یقین رکھتے تھے.مایوسی کو گناہ سمجھتے تھے ہمیشہ امید کا درس دیتے تھے۔

وفات سے ایک دو ماہ قبل انہوں نے ایک کتاب لکھنے کے حوالے سے فون کیا کہ کسی دن مل بیٹھ کر اس پر گفتگو کریں گے ،وہ کوئی کتاب لکھنا چاہتے تھے تاہم افسوس ہے کہ زندگی نے انہیں مہلت نہیں دی. آج وہ ہم میں نہیں لیکن ان کی یادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو تھم نہیں رہا،حضرت علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
وہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

اللہ کریم اپنی رحمت سے ان کو جنت الفردوس میں بلند مرتبہ عطا فرمائے۔


(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں, حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں.

تازہ ترین