• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے گزشتہ روز افواج پاکستان کے سابق وابستگان کے معاملے میںقومی احتساب بیورو(نیب) کے دائرہ اختیار کے حوالے سے پچھلے 19برسوں سے پایا جانے والا ابہام دور کرکے بلاشبہ ایک نہایت اہم اور دور رس نتائج کا حامل فیصلہ سنایا ہے ۔ اس کے نتیجے میں احتساب کے عمل کو تمام شعبہ ہائے زندگی تک وسعت دے کر ملک کو وائٹ کالر جرائم خصوصاً مالی کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے پاک کرنے کی کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے میں یقیناً بہتر کامیابیاں حاصل کی جاسکیں گی۔جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس گل حسن اورنگ زیب پر مشتمل بنچ نے اپنے فیصلے میں اس حقیقت کی نشان دہی کی ہے کہ افواج پاکستان کے سابقین سمیت ملک کے تمام شہریوں کا احتساب نیب کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ افواج پاکستان کے سابق سربراہ اور ملک کے سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام میں دائر درخواست پر گزشتہ ماہ سماعت کی تکمیل کے بعد محفوظ کیے جانے اورجمعہ کو سنائے جانے والے اس فیصلے میں ڈویژن بنچ نے قرار دیا ہے کہ نیب کو اس معاملے کی تحقیق کا پورا اختیار حاصل ہے۔عدالت عالیہ نے نیب کے اپریل2013ء کے اس خط کو غیرقانونی قرار دے دیا ہے جس میں سائل کو بتایا گیا تھا کہ احتساب بیورو قانوناً سابق آرمی چیف کے اثاثوں کی تحقیقات نہیں کرسکتا۔عدالت نے آئین اور قانون کی روشنی میں واضح کیا ہے کہ نیب جنرل مشرف کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر تفتیش کا مکمل اختیار رکھتا ہے اوراگر جنرل مشرف کے خلاف نیب آرڈی ننس 1999ء کے تحت کوئی کیس بنتا ہے تو نیب کا فرض ہے کہ اس کی تفتیش کرے اور اس کے لیے تمام ضروری اقدامات عمل میں لائے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص اگر نیب کو کسی بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے تو نیب کا فرض ہے کہ بلاخوف و خطر اس کی تحقیقات کرے۔ عدالت عالیہ نے اس ابہام کو قطعی طور پر دور کردیا ہے کہ افواج پاکستان کے سابقین کے خلاف تحقیقات نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہے اور دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ تمام پاکستانی شہریوں کی طرح مسلح افواج سے ریٹائرہونے اورڈسمس یا ڈسچارج کیے جانے والے تمام افراد پر بھی نیب آرڈی ننس کا اطلاق ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے نیب میں یہ درخواست دائر کی تھی کہ پرویز مشرف نے 2013ء کے انتخابات کے موقع پر کاغذات نامزدگی میں ظاہر کردہ اثاثے بظاہر ان کے معلوم ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے لہٰذا ملک کے اندر اور باہر ان کے اثاثوں کی تحقیقات کی جائے ۔ اس درخواست پر نیب کا موقف تھا کہ اسے فوجی افسران کے خلاف تحقیقات کا اختیار نہیں۔تاہم عدالت عالیہ کی تشریح کی رو سے نیب آرڈی ننس1999ء کی دفعہ تین میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یہ قانون( یعنی نیب آرڈی ننس)باقی تمام قوانین پر بالادست ہوگا۔فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ آرڈی ننس کی دفعہ چار کے مطابق نیب کا قانون پورے ملک اور تمام شہریوں پر لاگو ہے جو حکومت پاکستان میں خدمات انجام دیتے رہے۔لہٰذا مسلح افواج سے ریٹائر، ڈسمس یا ڈسچارج ہونے والے افراد پر بھی نیب کی دفعہ پانچ کی شق ایم کی ذیلی دفعہ چھ کا اطلاق ہوتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس تاریخی فیصلے نے قومی احتساب بیورو کے لیے ملک میں جاری احتسابی عمل کے دائرے کو افواج پاکستان سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی تک وسعت دینے کا راستہ کھول دیا ہے ۔ فیصلے سے واضح ہے کہ نیب کو سابق فوجی افسران سمیت تمام پاکستانیوں کیخلاف مالی بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کا اختیار حاصل تھا لیکن ابہام پیدا کرکے اس قانون کو پچھلے دو عشروں میں بالعموم صرف سیاست دانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ۔ تاہم کم از کم اب اس کوتاہی کا پوری طرح ازالہ کیا جانا چاہیے کیونکہ جب تک احتساب کا عمل مکمل طور پر غیر جانبدارانہ، بے لاگ، ہمہ گیر اور غیرطبقاتی نہیں ہوگا ، اس وقت تک ملک کو کرپشن کے روگ سے پاک نہیں کیا جاسکے گا۔

تازہ ترین