• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں دنیا کے آخری جزیرے پر کھڑا ہوں‘میرے سامنے تاحد نگاہ سمندر ہے‘ سمندر کی لہریں میرے پیروں کو چھو رہی ہیں‘ ساحل سے پرے جہاں یہ موجیں پانی میں ارتعاش پیدا کرتی ہیں وہاں نیلے رنگ میں یکدم سفید دودھیا رنگ امڈ آتا ہے‘ یوں لگتا ہے جیسے کوئی عظیم فنکار رنگوں سے کھیل رہا ہو۔ جہاں میری نظر کی حد ختم ہورہی ہے وہاں یہ سمندر آسمان میں مل رہا ہے‘ میرے پیچھے گہرے سبز رنگ کے پہاڑ ہیں‘ ان پہاڑوں کو دیکھ کر یوں لگ رہا ہے جیسے کسی نے دیوقامت سیب کی قاشیں تراش کر وہاں سجا دی ہوں‘ پہاڑو ں کے اوپر بادل منڈلا رہے ہیں، سورج کبھی ان بادلوں کی اوٹ میں چھپ کر سایہ کر دیتا ہے تو کبھی یکدم سامنے آکر سمندر کے پانیوں پر اپنی کرنیں بکھیر دیتا ہے۔ پہاڑ سبز ہیں‘ آسمان نیلا ہے اور سمندر کہیں سبز ہے اور کہیں نیلگوں ۔یہ پتہ لکھ کر فضاؤں میں بکھیر دیں ‘ قدرت آپ کو ہوائی لے آئے گی۔ہوائی ‘بحر الکاہل میں واقع چند چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ایک امریکی ر یاست ہے ‘ان میں سب سے بڑے جزیرے کا نام Oahuہے ، لاس انجلس سے ہونولولو کی پرواز ساڑھے پانچ گھنٹے کی ہے جو بحرالکاہل کے اوپر سے اڑا کر آپ کو اس جزیرے کے ہوائی اڈے پراتارتی ہے، نقشے میں دیکھیں تو یوں لگے گا جیسے اس جزیرے کو سمندروں نے چار طرف سے گھیر رکھا ہو‘ انگریزی میں اسےsea of oceans کہیں گے۔ لفظ’’جزیرے‘‘ سے ذہن میں کچھ ایسی تصویر ابھرتی ہے جیسے دنیا سے دور کوئی ایسی جگہ جہاں انسانی آبادی نہ ہونے کے برابر ہو‘ جہاں جدید ترقی کے ثمرات نہ پہنچے ہوں اور جہاں زندہ رہنے کے لئے لوگ سبزیاں اگا کر اور درختوں سے جنگلی پھل توڑ کر کھاتے ہوں۔ اس قسم کا خاکہ ذہن میں رکھ کر جو شخص پہلی مرتبہ اس جزیرے پر اترتا ہے وہ یہاں کی بلند وبالا عمارتیں‘ سڑکوں پر ٹریفک کا اژدہام، ساحلوں پر قطار اندر قطار کیفے اور ریستوران‘ چھوٹے بڑے ہوٹلز کی چین اور شاپنگ سنٹرز کی بھرمار جہاں ہر قسم کا برینڈ دستیاب ہے‘ دیکھ کر دم بخود ہو جاتا ہے۔ ہونولولو شہر میں بیسیوں ساحل ہیں‘ ہر ساحل کی اپنی خصوصیت ہے‘ آپ جزیرے کے شمال میں نکل جائیں وہاں یکدم آبادی کم ہونے لگے گی اور کہیں کہیں آپ کو گمان ہوگا کہ آپ شاید دنیا کے آخری کونے میں نکل آئے ہیں مگر اس کے باوجود آپ کو دنیا سے کٹ جانے کا احساس نہیں ہوگا۔Pacific Oceanکے ساتھ ساتھ جو سڑک آپ کو پورے جزیرے پر گھماتی ہے اس پر گاڑیاں ہمہ وقت رواں دواں رہتی ہیں‘ ہر تھوڑے فاصلے پر ایک جدید شاپنگ مال، کمیونٹی سنٹر‘ پٹرول پمپ‘ سیون الیون‘ کھانے پینے کی معروف چینز‘حتی کہ ہوٹل اور گالف کورس نظر آتے ہیں‘ پارکنگ لاٹس گاڑیوں سے بھرے ہیں‘ آپ کو لگتاہے جیسے آپ دنیا کے کسی جدید شہر کے بارونق ترین علاقے میں پھر رہے ہیں۔
ہوائی کی پہلی وجہ شہرت اس کے ساحل ہیں ‘ دنیا کے خوبصورت ترین ساحل ان جزائر میں ہیں ‘یہاں بچے کو پیدا ہوتے ہی سمندر کے حوالے کر دیا جاتا ہے ‘وہ سمندر کے کنارے ہی پل بڑھ کر بڑا ہوتا ہے ‘سمندر اس کی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے ‘ چھوٹے چھوٹے بچے یہاں ساحلوں پر بے فکری سے تیرتے نظر آتے ہیں ‘ یہاں ہر گھر کے باہر آپ کو کشتی اور surfingکا سامان نظر آئے گا‘ چپے چپے پر ساحل موجود ہیں ‘بیچ پارک بنے ہیں ‘ جہاں ریسٹ روم ‘ شاور کا انتظام اور کپڑے بدلنے کے کمرے موجود ہیں ‘ ساحل پر سگریٹ اور شراب پینے کی پابندی ہے ، باقی کسی چیز پرپابندی نہیں ۔ہوائی کی دوسری وجہ شہرت یہاں کی فلمی لوکیشنز ہیں ‘ ہالی وڈ کی بہترین فلموں کی شوٹنگ یہاں کی گئی ہے ‘ ان جگہوں کو دکھانے کے لئے باقاعدہ ٹور کمپنیاں موجود ہیں جو ان جگہوں پر لے جاتی ہیں ‘ Kualoa Ranch وہ جگہ ہے جہا ں زیادہ تر فلموں کی منظر کشی کی گئی ہے ‘یہ جگہ شہر سے کئی میل دور ہے مگر اپنی بے پناہ خوبصورتی کی وجہ سے ہالی وڈ کے ہدایتکاروں کی پسندیدہ ہے ‘پہاڑ ‘ سمندر ‘ جنگل ‘ یہاں سبھی کچھ ایک ساتھ موجود ہے ‘ مشہور زمانہ امریکی فلم سیریز Lostیہیں فلمائی گئی جس کی ایک قسط کی لاگت تقریباً اڑھائی سے تین ملین ڈالر تھی‘اس کے علاوہ50 First Dates, Jumanji, Jurassic Park, سمیت لا تعداد فلمیں یہاں شوٹ کی گئیں ‘ ہر فلم کی لوکیشن پر اس کا ایک بورڈ نصب ہے جس پر فلم کا نام اور اداکاروں کی تصاویر بنی ہیں ۔ہوائی کی تیسری خصوصیت اس کی ماحول دوستی ہے ‘ یہاں کئی لاکھ سال پرانے درخت ہیں ‘ درختو ں کی یہاں خصوصی دیکھ بھال کی جاتی ہے اور اس کے لئے باقاعدہ قانون موجود ہے ‘ حتی کہ شاپنگ مالز کے اندر آپ کو سینکڑوں برس پرانے درخت نظر آجاتے ہیں جن پر تختی لگی ہے کہ انہیں قانون کے مطابق محفوظ کیا گیا ہے۔ہوائی میں ہر وہ چیز لانے کی ممانعت ہے جس سے یہاں کی آب و ہوا، سمندری مخلوق یا ماحول کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو‘ اس کے باوجود ہوائی موسمی تغیرات سے محفوظ نہیں رہا ۔
ہوائی کے لئے میرا یہ دوسرا سفر ہے ‘ اس مرتبہ یہاں دو عجیب باتیں معلوم ہوئیں ۔ نائی نوا تھامسن نامی ایک شخص کے بارے میں پتہ چلا ‘ یہ شخص ہوائی میں پیدا ہوا ‘یہ بنیادی طور پر ملاح ہے اور جدید ایجادات کے سہارے کے بغیر ستاروں کی مدد سے ‘سمندر کے مدو جذر اور موسم کا حال دیکھ کر اپنا راستہ معلوم کرتا ہے ‘ اس کے پاس ایک چھوٹی سی کشتی ہے جس پر وہ سفر کرتا ہے ‘ اس کا ایک سفر ایسا تھا جو اس نے جون 2016میں نیویارک سے شروع کیا جو پورے ایک برس بعد ہوائی پہنچ کر ختم ہوا یہ تمام فاصلہ اس نے اپنی کشتی میں طے کیا ‘ بحر الکاہل پا ر کیا اور ستاروں کی مدد سے منزل پر پہنچا‘کہا جاتا ہے کہ جس ستارے نے اس کی منزل تک پہنچنے میں مدد کی وہ Southern Cross تھا جو آسمان پرصرف جون کے مہینے میں ہوائی میں نظر آتا ہے۔ کیسے کیسے لوگ ہیں دنیا میں! دوسرا انکشاف یہ ہوا کہ ہوائی میں بعض لوگوں کا اپنے بارے میں خیال ہے کہ وہ روحانی طور پر بہت پہنچے ہوئے ہیں ‘یہاں دنیا کے بڑے آتش فشاں پہاڑ ہیں جن میں سے کچھ تو خشک ہو چکے اور کچھ ایسے ہیں جن میں کبھی کبھار لاوا ابل پڑتا ہے ، ان کے بارے میں کہا جاتاہے کہ ان پہاڑوں کے گردروحیں منڈلاتی ہیں ‘سو ان روحوں سے شکتی حاصل کرنے کے لئے بہت سے پروہت وہاں بسیرا کرتے ہیں اور کچھ پادریوں کی روحانی تربیت بھی اسی مقصد کے تحت وہاں کی جاتی ہے تاکہ وہ ’’امر ‘‘ ہو جائیں۔ہوائی کی خوبصورتی اپنی جگہ مگر یہ بات بھی طے ہے کہ جیسے پہاڑ میں نے یہاں دیکھے ویسے اپنے ہاں بھی ہیں ‘ جیسا سمندر دیکھا ویسا ہمارے پاس بھی ہے اور جیسے جنگل دیکھے کچھ کچھ ایسے جنگل اپنے ملک میں بھی ہیں ۔
مگر ہوائی میں قدرت نے یہ تمام نظارے یکجا کر دیئے، ہیں، اور باقی کسر یہاںکی حکومت نے پوری کر دی ہے۔ پہاڑ، سمندر، صحرا یا جنگل ہونا کافی نہیں ، سیاحت ایک پورا پیکیج ہے اور یہ پیکیج ہوائی میں پورے جوبن پر دستیاب ہے ۔ہمارا حال تو یہ ہے کہ حسین وادیو ں میں برف باری ہو تو خبر آتی ہے ہزاروں سیاح پھنس گئے، وزیر اعظم نے نوٹس لے لیا،تاہم کچھ بھی ہو اس وقت میرا ارادہ ہوائی کی زیادہ تعریف کرنے کا اور اپنے ملک پر تنقید کرنے کا نہیں کیونکہ اڑھائی ہفتے ہونے کو آئے ہیں اور میں نے اب تک کلچوں اور بونگ کی شکل نہیں دیکھی، آلو گوشت کا ڈیزائن مجھے بھول چکا ہے اور سری پائے یاد کرتا ہوں تو چکر سے آنے لگتے ہیں۔ اس وقت میرا حال اس عورت جیسا ہے جس کی نئی نئی شادی ہوئی تو اس کا خاوند ہنی مون کے لئے سوئٹزر لینڈ لے گیا ، وہاں کے کسی کیفے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ گھر سے فو ن آیا جسے سُن کر وہ رونے لگی، خاوندنے گھبرا کر پوچھا کیا ہوا‘ کہنے لگی ’’گاؤں میں سب اکٹھے بیٹھے ہیں، آم کھا رہے ہیں، موجیں کر رہے ہیں اور میں یہاں بیٹھی بور ہو رہی ہوں!‘‘ کچھ ایسا ہی حال میرا بھی ہوچکا ہے ۔ہوائی بے حد حسین ہے مگر اپنا گھر پھر اپنا ہی ہے۔

تازہ ترین