• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو ہالینڈ سے سیکھنا ہوگا ہالینڈ کی ڈائری…راجہ فاروق حیدر

ہالینڈ دنیا کے نقشے پر ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ خوشحال ممالک میں ہوتا ہے۔ ہالینڈ حجم کے لحاظ سے دنیا میں 136ویں نمبر پر آتا ہے جبکہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق آبادی 17ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ میں اس ملک میں اپنی زندگی کی تقریباً 45بہاریں گزار چکا ہوں، آج میں اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر یہاں حکومتی سطح پر اپنے عوام کے فلاح و بہبود کے لئے خدمات اور یہاں کے حکمرانوں کے طرز زندگی کا اپنے کالم میں ذکر کر رہا ہوں ’’شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات‘‘ یہاں اگر کسی کے پاس کام نہیں تو اسےحکومت 1350یورو بیروزگاری الاؤنس ماہانہ ادا کرے گی جبکہ 50فیصد گھر کا کرایہ حکومت دے گی گھر میں کوئی چیز خراب ہوجائے فرج، ٹی وی، واشنگ مشین، برتن دھونے والی مشین، صوفہ، بچوں کی بنیادی تعلیم فری ہوتی ہے بچوں کی عمر 18سال ہونے پر الاؤنس، چائلڈ بینیفٹ ان کا شہری اگر کسی وجہ سے قرضے میں ڈوب جاتا ہے تو گورنمنٹ اس کا متبادل انتظام کرتی ہے۔ خدانخواستہ اگر کسی کا بچہ یا ماں باپ معذور ہوجائیں تو ان کی دیکھ بھال کے علیحدہ پیسے ملیں گے، اگر گھر میں ان معذور افراد کے لئے سپیشل کمرہ اور باتھ روم کی ضرورت ہو وہ بھی حکومت بنوا کر دے گی۔ شہریوں کو ان کے حقوق دلانے کے لئے جگہ جگہ مراکز بنے ہوئے ہیں جو بوقت ضرورت مدد کرتے ہیں۔ یہاں کا معاشرہ بڑا لبرل ہے، سیکڑوں مساجد اور دیگر مذاہب کے لوگوں کی عبادت گاہیں موجود ہیں۔ محرم اور عید میلادالنبیﷺ اوردیگر مواقع پر جلوسوں کو تحفظ دیا جاتا ہے یہاں سب سے بڑی بات جس کی دین اسلام میں بھی بڑی اہمیت ہےوہ یہ ہے کہ انسانی جان کی بڑی حرمت ہے۔ یہاں کے وزیراعظم، وزراء آمدورفت کے لئے سائیکل کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ روز مرہ زندگی میں ٹرام اور بسوں میں بھی سفر کرتے ہیں، دفاتر میں کوئی چپڑاسی نہیں ، افسر اپنا کام خود کرتے ہیں۔ یہاں کا معاشرہ دیانت دار ہے، ان کی ترقی و خوش حالی کا یہی راز ہے ہمارے دین اسلام کے اصول انہوں نے اپنائے ہوئے ہیں، میرا صحافت سے بھی تعلق ہونے کے باعث میں ان پاکستان کے اعلیٰ سطح کے وفود سے ملاقاتیں کرتا رہتا ہوں جو پاکستان سے یہاں مطالعاتی دوروں پر آتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں، بیورو کریسی کو ان لوگوں سے ان کی خوشحالی و ترقی کی حکمت عملی سیکھنی ہوگی۔ گزشتہ روز نیدرلینڈ کے وزیر خارجہ نے اپنی غلط بیانی منظر پرآنے پر خود بخود استعفیٰ دے دیا۔ ہم لوگ عالم شباب میں ان ممالک میں آئے تھے کہ چند سال میں کچھ رقوم بنا کر اپنے وطن لوٹ جائیں گے مگریہاں کے طرز زندگی نے اتنا مانوس کیا کہ جوانی بھی یہاں گزر گئی اب بڑھاپا بھی یہاں ہی گزر رہا ہے۔ میں اکثر اس بات کا ذکر کرتا رہتا ہوں کہ کاش ہمارے وہ رہنما جن کی انتھک محنت کی وجہ سے وطن عزیز پاکستان ہمیں حاصل ہوا وہ کچھ مدت مزید زندہ رہتے اور مملکت خداداد پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر جاتے۔ ’’منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘‘ میرے جیسے لاکھوں تارکین وطن اپنی زندگیاں ان ممالک میں گزار کر بھی وطن سےبے انتہا محبت رکھتے ہیں وہ ہمیشہ پاکستان کے استحکام ترقی و خوشحالی کے لئے دعاگو رہتے ہیں، یہاں پاکستانیوں کی نئی نسلں بھی سبز ہلالی پرچم اٹھا کر ’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے‘‘ ملی نغمے گاتے ہیں۔

تازہ ترین