دراصل معروضی تجزئیے میں نہ تو بہائو کے رخ پردور تک بہا جا سکتا ہے اور نہ ہی بہائو کے مخالف سمت ۔ہمیشہ سچ اور حق رواں دواں ہوتا ہے۔ کسی بھی بنتی بگڑتی صورت حال میں مطلق سچائی کی تلاش بے معنی ہے۔ ہم کسی شے کا تقابل کسی دوسری شے کے تناظر میں حاصل کرتے ہیں۔ کوئی شے ہمیں اس لئے حرکت کرتی ہوئی نظر آتی ہے کیونکہ اس کے ارد گرد کی دوسری اشیاء بے حرکت یا جامد ہوتی ہیں۔ اسے مزید آسان انداز میں شاید یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ٹرین کے بند ڈبے یا جہاز میں بیٹھے ہوئے لوگ ایک دوسرے کے لئے حرکت میں نہیں ہوتے، ان کے درمیان فاصلہ جوں کا توں رہتا ہے لیکن جونہی کھڑکی کھولی جاتی ہے، تیزی سے پیچھے رہ جاتی اشیاء گاڑی کے تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کا یقین دلا جاتی ہیں۔
افراد، گروہ یا ادارے اپنی پسند نا پسندیا خواہش اور آرزوئوں کے گنبد میںبند ہو کر صرف اپنی آواز کی بازگشت ہی سن سکتے ہیں۔ اپنی محبت اور نفرت کی بند کھڑکی میں صرف اپنا عکس ہی نظر آتا ہے یا وہ جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لئے عملیت پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ بند کھڑکیوں کے پٹ کھول دیئے جائیں تاکہ نظر کو وسعت اور ذہن و جسم کو تازہ ہوا ملے اور حرکت کے احساس سے تبدیلیوں کی خبر ملتی رہے۔
تاریخ بھی تیز رفتار ٹرین کی کھلی کھڑکی کی طرح ہے جس سے ماضی کے سارے منظر صاف دکھائی دیتے ہیں۔ اور آج کے زمینی حقائق کے ساتھ مل کر یہ بدلتے منظر ہی دراصل معروضی تجزیئے کی بنیاد بنتے ہیں۔
پاکستان کی شطرنجی سیاست میں میاں محمد نواز شریف پہلے منتخب رہنما ہیں جو تیسری بار وزیرِ اعظم بنے اور تینوں بار وہ اپنے اقتدار کی پانچ سالہ مدت نہ پوری کر سکے۔ پہلی بار وہ صدر غلام اسحاق کے عتاب کا نشانہ بنے۔ وہ نومبر1990کے عام انتخاب جیت کر وزیرِ اعظم منتخب ہوئے تھے اور دو سال آٹھ ماہ بعد جولائی1993میں صدر نے انہیں آئین کے آرٹیکل58کی شق2-Bکے تحت برطرف کر دیا۔ یہ آرٹیکل جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاکے دوران بدنام زمانہ آٹھویں ترمیم کے ذریعے آئین میں شامل کیا گیا تھااور اس سے پہلے 1990میں محترمہ بے نظیر کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کیلئے بھی صدر غلام اسحاق اسے استعمال کر چکے تھے۔ نواز شریف دوسری بارفروری1997کے عام انتخابات کے نتیجے میں وزیرِ اعظم بنے اور اکتوبر1999میں چیف آف اسٹاف جنرل پرویز مشرف نے ان کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ نواز شریف گرفتا رکر لئے گئے لیکن ایک سال قید کاٹنے کے بعد بیرونی دبائو پر انہیں سعودی عرب ملک بدر کر دیا گیا۔ 2002میں جنرل پرویز مشرف کے لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت عام انتخابات منعقد کرائے گئے۔ محترمہ بے نظیر کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد قرار پائے۔ الیکشن کی شفافیت بھی مشکوک رہی۔ اس نیم مارشل لا کی چھتری تلے ق لیگ کی کولیشن حکومت قائم ہوئی جس میں پہلے دو سال ظفراللہ جمالی، پھر چند مہینے کیلئے چوہدری شجاعت حسین اور اس کے بعد حکومت کے اختتام تک شوکت عزیز وزیرِ اعظم رہے۔ 2007کے آخری مہینوں میں ایک’’ این آر او‘‘نیشنل ری کنسلی ایشن آرڈر لایا گیا جس کے تحت محترمہ بے نظیر اور نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی ۔ محترمہ جب وطن واپس آئیں تو کراچی میں ان کا فقیدالمثال استقبال ہوا لیکن اس دوران افسوس ناک بم دھماکوں کے نتیجے میں جلوس کے سینکڑوں شرکاء نے جامِ شہادت نوش کیا۔
کہا جاتا ہے اور یہ قرینِ قیاس بھی ہے کہ این آر او کے تحت طے یہ پایا تھاکہ" محترمہ بے نظیر جو خود ساختہ جلاوطنی اختیار کئے ہوئے تھیں"وطن واپس تو آسکتی ہیںلیکن نہ تووہ سیاسی سرگرمیوںمیںحصہ لے سکتی ہیںاورنہ ہی وہ جنوری2008میںمنعقدہونے والے انتخابات میںحصہ لینے کی مجازہوںگی۔ جب کہ نوازشریف کی جلاوطنی 10برس کی تھی جو2010میںختم ہونا تھی۔ مگرمحترمہ بے نظیر تو، این آراو اورکراچی میںاپنے استقبالی جلوس میںبم دھماکوںاوربے شمارشہادتوںکے باوجود شدومد کے ساتھ ملک بھرمیںاپنی سیاسی سرگرمیوںکاآغازکرچکی تھیں۔عوام ان کے جلسے جلوسوںمیںوالہانہ شرکت کررہے تھے۔اورپھر،کراچی حملے کے چندہفتے بعدہی 27دسمبر 2007کوجب وہ لیاقت باغ راولپنڈی میںایک بڑے جلسے کے اختتام پرجلسہ گاہ سے باہرآئیںتوایک منظم سازش کے ساتھ ان کی بم پروف گاڑی پر گولیوں،بموںاورخودکش بمبارکے ذریعے سہ طرفہ حملہ کیا گیا۔ جوجان لیواثابت ہوا۔محترمہ کی شہادت کا ردعمل پاکستان بھرمیںاورخاص طورپرسندھ بھر میںبہت شدیدہوا لیکن ان کے شوہرآصف زرداری کے ’’پاکستان کھپے‘‘کے نعرے کے نتیجے میںسندھ کے ہنگاموںکی شدت میںبتدریج کمی آتی چلی گئی۔ چند ہفتوں بعد، فروری2008میںعام انتخابات ہوئے۔ پیپلزپارٹی کوسندھ اورقومی اسمبلی میںاکثریت ملی۔ صوبے اورمرکزمیںپی پی پی کی حکومت بنی اوریوسف رضاگیلانی نے پاکستان کے 17ویں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایااور اس کے چھ ماہ بعد اگست2008 میںآصف زرداری بھی صدرمملکت منتخب ہوگئے۔
میںنے شروع میںہی عرض کردیاتھاکہ تاریخ بھی تیزرفتارٹرین کی کھلی کھڑکی کی طرح ہے جس سے پیچھے ماضی کی طرف جاتے ہوئے سارے منظرصاف دکھائی دیتے ہیںاورآج کے زمینی حقائق کے ساتھ مل کریہی بدلتے منظرہی دراصل معروضی تجزئیے کی بنیادبنتے ہیں۔ اب اس کہانی کی ہلکی ہلکی مختصرجھلکیاںدکھاتے ہوئے مجھے خودبھی یہ احساس ہواہے کہ ایک ترتیب میںیہ منظر سامنے آئے ہیںتویہ محض بنیادنہیں،اپنی اصل میں خود ایک مکمل اور بھرپور معروضی تجزیہ ہے جو اگست1988سے اگست2008کے بیس سال پرمحیط ہے۔ اوراگست 1988سے دومہینے پیچھے چلیںتو29مئی 1988کا وہ منظر کھلتاہے جب جنرل ضیاء الحق کی پریس کانفرنس جاری ہے اوراچانک ایک اسٹاف افسرقریب آکرڈکٹیٹرکے کان میںسرگوشی کرتاہے۔جنرل سامنے پڑے کاغذکے ٹکڑے پرعجلت سے دوجملے گھسیٹتاہے اورکاغذافسرکے ہاتھ میںتھمادیتاہے۔
وہ افسربھی تیزقدم اٹھاتے ہوئے منظرسے غائب ہوجاتا ہے۔ دوسرامنظرائیرپورٹ کے وی آئی پی لائونج کا ہے، جہاںابھی ابھی پاکستان کے وزیراعظم جونیجونے چین کے دورے سے واپسی پر لینڈ کیا ہے۔ وزیراعظم کے ہاتھ میںکاغذکاوہی ٹکڑاہے جس پرہم نے صدر پاکستان کو پچھلے منظر میں کچھ لکھتے دیکھا تھا۔ وزیراعظم کاغذ پر نظریں جمائے اخباری نمائندوں سے مخاطب ہوکر بتاتے ہیں کہ اس پرچی پر صدر پاکستان نے اپنے ہاتھ سے لکھاہے کہ ’’وزیراعظم پاکستان کو ان کے عہدے سے فی الفور برطرف کیا جاتا ہے‘‘۔ ماضی کے جھروکے میں دیکھا آپ نے۔ کیا عزت افزائی ہوئی ایک فوجی ڈکٹیٹر اور صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں مجلس شوریٰ کے منتخب عوامی نمائندے اور وزیراعظم پاکستان محمد خان جونیجو کی!!
اور اب ذرا کھولتے ہیں کھڑکی قریب ترین ماضی کی، جب عدالت عظمیٰ نے ملک کے منتخب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سوئٹزر لینڈ کی حکومت کو خط نہ لکھنے کی حکم عدولی پر30سیکنڈ کی سزا سنائی، اور پانچ سال کے لئے نااہل بھی قرار دیا۔ ان کی جگہ راجہ پرویز اشرف وزیراعظم منتخب ہوئے، متنازع خط لکھ دیا گیا، چیف جسٹس افتخار چوہدری ریٹائر ہوگئے اور پھر، چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ پیپلز پارٹی اور اس کے چیئرمین صدر مملکت آصف علی زرداری نے اپنے دور حکومت کا آخری سال میموگیٹ اسکینڈل کے حوالے سے انتہائی دبائو میں گزارا لیکن حکومت نے اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت کو رو پیٹ کر مکمل کرلیا۔ پاکستان کی شطرنجی سیاست کی تاریخ میں پہلی بار عوام کے ووٹ سے منتخب ہونیوالی ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار کی پُر امن منتقلی ممکن ہو سکی جسے جمہوریت کے مضبوط تر ہونے کی دلیل اور بجا طور پر ایک شاندار کامیابی قرار دیا گیا۔
اس موضوع پر مزید بات آئندہ نشست میں ہو گی۔ آخر میں شعیب بن عزیزکا ایک شعر، دیکھ لیں حسبِ حال ہے یا نہیں؟
شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا