• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں سبزہ زار اسپتال کا افتتاح کرتے ہوئے شہباز شریف صاحب آبدیدہ ہوگئے۔ وزیراعلیٰ نے گلوگیر لہجے میں کہا کہ روز قیامت جب اللہ تعالیٰ مجھ سے سوال کریں گے کہ شہباز شریف نامہ اعمال میں کیا لائے ہو؟ تو میں بصد عجز و انکساری عرض کروں گا یااللہ تو رحیم و غفور ہے، یااللہ میں نے تیری دکھی اور بیمار مخلوق کی خدمت کے لئے پی کے ایل آئی بنا دیا۔ یااللہ میرے گناہ معاف کردے، مجھے بخش دے۔ جناب میاں صاحب! آپ پاکستان میں اور خصوصاً پنجاب میں صحت کے مسائل کے حوالے سے بہت فکر مند اور ہمیشہ تشویش میں مبتلا رہتے ہیں اور اکثر و بیشتر پنجاب کے مختلف اسپتالوں میں چھاپے مارتے رہتے ہیں اور اکثر آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ آپ کی تمام تر کوششوں کے باوجود پنجاب میں صحت کے معاملات اس حد تک درست نہیں ہو رہے جس کی خواہش آپ اور پنجاب کے دونوں وزرائے صحت خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے ہاں جو ہیلتھ کی بے شمار کمپنیاں اور افسران کام کر رہے ہیں ان کی زیادہ تر دلچسپی تنخواہوں میں اور سرکاری ملازمت سے رخصت لے کر ہیلتھ کی پرائیویٹ کمپنیوں میں ملازمت کرنے میں ہے۔آپ شعبہ صحت کے حوالے سے آڈٹ کروالیں۔ جتنی تنخواہیں مراعات اور سہو لتیں محکمہ صحت کے ملازمین اور افسران کو دے رہے ہیں وہ کیا مریضوں کو ملنے والی سہولتوں کے مقابلے میں زیادہ نہیں تاہم اس وقت حالات یہ ہیں کہ نومولود بچوں کی شرح اموات میں پاکستان نمبر 1پر آچکا ہے۔ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر 22میں سے ایک نومولود بچہ ہلاک ہوجاتا ہے جبکہ افریقین ری پبلک میں یہ شرح 24میں سے 1اور افغانستان میں 25میں سے ایک ہے۔ جاپان میں 1,111 آئس لینڈ میں ایک ہزار اور سنگاپور میں نوسو میں سے ایک ماہ کا بچہ ہلاک ہو جاتا ہے۔پاکستان میں تقریباً گیارہ ہزار افراد کے لئے 14طبی ماہرین ہیں ۔پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات اس لئے بڑھ رہی ہیں کہ حاملہ خواتین کی صحت کی طرف بالکل توجہ نہیں دی جاتی پاکستان میں کروڑوں افراد غذائی کمی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچے انتہائی کمزور اور لاغر ہوتے ہیں۔
ماہرین کے بقول غذائی قلت اور غربت کی وجہ سے بچوں کی صحت پر بد ترین مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں، جسمانی نشوونما کے علاوہ ذہنی نشوونما بھی رک جاتی ہے جس سے ان کا آئی کیو لیول نہیں بڑھ پاتا اوروہ تعلیم اور زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں نوازائیدہ بچوں کوکینگرو مدر کیئر سے بچایا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے کینگرو مدر کیئر کےبارے میں خواتین کی اکثریت کو پتہ ہی نہیں۔ کینگرو مدر سے غریب مائیں اپنے بچوں کو بچا سکتی ہیں۔خواتین کو گولڈن منٹ اور گولڈن آور کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہے۔ اسپتال والوں کو بتایا جائے کہ گولڈن منٹ اور گولڈن آور کیا ہے، تھر میں روزانہ غذائی قلت کی وجہ سے بچے مر رہے ہیں لیکن حکومت کی ترجیحات کچھ اور ہی ہیں۔ ملک میں سیاسی کشمکش عروج پر ہے۔ کسی کو یہ نہیں پتہ کہ عوام کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کوئی پیپلز پارٹی کو ، کوئی نواز لیگ کو، کوئی پی ٹی آئی کو برا کہہ رہا ہے کسی کو عوام کے اصل مسائل سے کوئی دلچسپی ہی نہیں۔
چھوٹے میاں صاحب بعض دفعہ بعض بیورو کریٹس کو اپنے بہت قریب کر لیتے ہیں اور جب ان کی بدعنوانی کی خبریں آتی ہیں تو پھر ان کو بچانے کے لئے سب میدان میں کود پڑتے ہیں۔ میاں صاحب اکثر اپنی تقریروں میں بیورو کریٹس میں سے کسی کو اپنا چھوٹا بھائی اور کسی کو بیٹا کہہ دیتے ہیں۔ جس کے بعد وہ شخص عوام کے ساتھ وہ سلوک کرتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ آشیانہ اسکیم کے احد چیمہ نے جو کچھ کیا وہ باعث شرم بھی ہے اور سبق بھی۔ آپ کے بیورو کریٹس کی اکثریت کے بچے بیرون ممالک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 19اور 20گریڈ کے افسر کیا اپنی تنخواہ میں بچوں کو باہر کےممالک میں پڑھا سکتے ہیں؟ آپ چاہے آبدیدہ ہوں لیکن یہ بھی تو سوچیں کہ کیا کوئی پندرہ ہزار میں اپنا گھر چلا سکتا ہے؟ میاں صاحب، حقیقت ہے کہ لوگ اتنے مجبور ہو چکے ہیں کہ وہ مرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ علاج کرائیں تو گھر کا خرچہ نہیں چلتا، گھر کا خرچ چلائیں تو علاج ممکن نہیں۔
آپ نے ’’دیر آید درست آید‘‘ کے فقرے پر عمل کرتے ہوئے لاہور میں کینسر کا فری اسپتال بنانے کا اعلان کر دیا، جو کہ خوش آئند ہے۔ میاں صاحب، آپ بار بار پی کے ایل آئی کا ذکر کرتے ہیں۔ پی کے ایل آئی آپ کی بخشش کا ذریعہ بنے یا نہ بنے یہ تو خدا جانتا ہے لیکن یہ بھی خدا جانتا ہے کہ کینسر کے مریض جس قدر اذیت اور مشکل میں ہیں اِس کا شاید آپ کو اندازہ ہے یا نہیں۔ کینسر کے مریضوں کو جب درد ہوتا ہے تو ایسی چیخیں مارتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ پھر ایک ایساا سٹیج آتا ہے کہ اُنہیں مارفین دینا پڑتی ہے جو کسی سرکاری اسپتال میں نہیں ملتی۔ ہم نے جیسے اپنے پچھلے کالم میں بتایا تھا کہ پورے ملک میں کوئی Gynecology Oncology Surgeon نہیں ہے۔ اب آپ بتائیں کہ جن خواتین کو مخصوص قسم کا کینسر ہو جائے تو وہ کہاں جائیں! کیونکہ اس کی کوئی سرجن نہیں ہے کینسر اسپتال بنانا اتنا بڑا کام نہیں جتنا بڑا کام کینسر کے ماہرین کو لانا ہے اس وقت ہمارے ملک میں کینسر کے ماہرین کی شدید کمی ہے اور اس سےبڑھ کر کینسر کی جدید مشینوں کی جبکہ کینسرکا علاج انتہائی مہنگا ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ ہم جو بھی اخبار اٹھاتے ہیں وہ صحت کے مسائل اور مریضوں کی تکالیف سے بھرا ہوتا ہے۔ پروفیسر حضرات شام کو اسپتالوں کا رائونڈ لگانے کو تیار نہیں ، رات کو ایمرجنسی سے مریضوں کو بھگا دیا جاتا ہے۔ لیبارٹری ٹیسٹ، ایکسرے اور سی ٹی ا سکین نہیں کئے جاتے۔ میاں صاحب یقین کریں اگر آپ سرکاری اسپتالوں کی ایمرجنسیوں میں رات کو جائیں تو آپ صرف آبدیدہ نہیں بلکہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں گے۔ کوئی پروفیسر،ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اسسٹنٹ پروفیسر رات کو رائونڈ لگانے کو تیار نہیں۔ ہمیں آپ کی نیت اور جذبے پر کوئی شک نہیں لیکن آپ اکیلے یہ سارا کام نہیں کرسکتے۔ آپ کے دونوں وزرائے صحت اگرچہ انتہائی محنتی ہیں لیکن ان کو بھی کام انہی افراد سے لینا ہے جو کام کرنے کو تیار نہیں۔ آپ علاج معالجے پر اربوں روپے دے رہے ہیں لیکن جب تک آپ کے پاس محکمہ صحت میں صحیح معنوں میں تھنک ٹینک نہیں ہوگا مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔میاں صاحب کینسر کے مریض بڑی اذیت میں ہوتے ہیں کاش PKLIکا بیس ارب روپے کا بجٹ آپ سرکاری اسپتالوں میں قائم کینسر وارڈز کو اپ گریڈ کرنے پر لگا دیتے تو زیادہ مناسب ہوتا۔ اللہ نہ کرے کسی روز اس کا بھی کوئی اسکینڈل سامنے آجائے۔ اس ملک کے کروڑوں لوگ غربت اور افلاس کے ہاتھوں روزانہ خون کے آنسو روتے ہیں۔ کب ان کی مفلسی کے دن ختم ہونگے؟ کب سیاسی جماعتیں اس ملک کے غریب عوام کے مسائل کے لئے آل پاکستان پارٹی کانفرنس کریں گی؟

تازہ ترین