• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوازکیخلاف فیصلہ متنازع ہے،چوٹی کا معروف عالمی جریدہ

کراچی(رفیق مانگٹ)چوٹی کے معروف عالمی جریدے نے نواز شریف کے بطور پارٹی صدر کیے گئے فیصلوں کو منسوخ کرنے کے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کو متنازع قرار دیتے ہوئے کہا ہےکہ سینیٹ انتخابات میں ن لیگ کو نقصان پہنچانے کیلئے صوبائی اسمبلیوں میں ردوبدل کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے۔برطانوی جریدے ’اکنامسٹ‘ نے پاکستانی سیاست،سینیٹ انتخابات اور مسلم لیگ نوازکے ساتھ اعلیٰ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے رویے پر اپنی رپورٹ میں سوال اٹھایا کہ ایسا کون ہوسکتا ہے جو حکمران جماعت مسلم لیگ (ن )کے انتخابی نشان شیر کی جگہ ٹرک کو تبدیل کردے تاہم تبدیل شدہ لوگو سینیٹ انتخابات میں حکمران جماعت کے امیدواروں پرزبردستی قبول کرنے کے لئے تھوپے گئے۔ حکمران جماعت کے امیدواروں کو الیکشن کمیشن نے ’’آزاد امیدوار‘‘کے طور پر انتخابات لڑنے پرمجبور کیا اورالیکشن کمیشن نے یہ اقدام سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اٹھایا جس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو کرپشن اسکینڈل کے بعد پارٹی کی صدارت سے روک دیا تھا۔مسلم لیگ نواز کے سرکردہ رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ104ارکان کے ایوان بالا میںداخل ہونےسے قبل ان کے کامیاب ’آزاد ارکان‘ کی وفاداریاںاعلیٰ اور موثر طاقت کے ذریعے تبدیل کی جاسکتی ہیں۔ جریدے نے لکھا کہ طاقتور اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو شدید ناپسند کرتی ہے اور اسی اسٹیبلشمنٹ کاصوبائی اسمبلیوں کی تشکیل نو (ری شفلنگ) میںہاتھ دکھائی دیتا ہے جس کا مقصد نواز لیگ کو نقصان پہنچانا ہے۔پارٹی صدر کے طور پر نواز شریف کے گئے فیصلوں اور اقدامات کو منسوخ یا کالعدم قرار دینے کااعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ بھی متنازع ہے۔جریدہ مزید لکھتا ہے کہ سینیٹ کا کنٹرول معمولی مارجن پر ہوتا ہے ،مسلم لیگ نواز کے پاس صرف ایک سیٹ کی کمی ہے،اگر مسلم لیگ نواز دیگر ارکان کو ساتھ ملا اکثریت حاصل کرلیتی ہے تو نواز شریف کویہ موقع مل سکتا ہے کہ وہ وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنی برطرفی کے قانون کو تبدیل یا ختم کردیں۔تاہم یاد رہے کہ پاناما کیس میں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کو بھی عالمی میڈیا نے متنازع قرار دیا تھا اور اس کے پیچھےاسٹیبلشمنٹ کااشارہ کیا تھا۔ جولائی2017میں وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کا نواز شریف کے خلاف فیصلہ آتا ہے اور نومبر2016میں بھارتی اخبار’سنڈے گارجین‘ نے ایک تفصیلی رپورٹ دے دی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو پاناما پیپرز کی آڑ میں عدلیہ سے نااہل قرار دلائے گا اور وسط 2017میں نواز شریف کو اقتدار سے ہٹادیا جائے گا اور ویسا ہی ہوا۔ دوسری جانب امریکی اخبار’ نیویارک ٹائمز‘ میں شائع تفصیلی مضمون میں کہا گیا ہےکہ مسلم لیگ نواز کی صدارت سے ہٹانے کے حالیہ عدالتی فیصلے پر نوازشریف کے تنقیدی ردعمل میں کوئی تعجب نہیں،جج صاحبان نجات دہندہ کا جوکھیل کھیلتے ہیں وہ ملک کیلئے خطرناک ہے،مشرف نے دوٹوک کہا تھا کہ ان کے خلاف متعدد کیسز میں فوج نے مداخلت کرکے انہیں عدالت سے ضمانت دلائی،مشرف پر آئین سے غداری کا الزام ہے،انہیں آرام دہ اور پرسکون جلاوطنی میں رہنے کی اجازت دی گئی ، عدلیہ نوازشریف کی طرح مشرف کو کبھی بھی اپنی پارٹی کی سربراہی سے روک نہیں پائی،پاکستانی جج صاحبان اپنے کام کو ’جاب‘ سمجھ کر کریں،گاڈ فادر کا حوالہ دینے کی بجائے قانون کی کتابوں کا حوالہ دیں،جج صاحبان صرف انصاف ہی نہیں کرنا چاہتے،وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ انہیں ایسا کرتے ہوئے دیکھا اور سنا جاناچاہیے،جج صاحبان اپنی آوازوں سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں کہ وہ اعلیٰ عدالتوں کوایک’ٹاک شوز‘ کی طرح چلانا چاہتے ہیں، جج خود نہیں بلکہ ان کے عدالت میں کیے گئے فیصلوںکو بولنا چاہیے،عدلیہ نے بھی فوجی آمروں کے سامنے دوسرے الفاظ میں ملازمہ کا کردار ادا کیا،مشکوک الزامات پر منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی، ایک اورمنتخب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کوسزا دینے میں ناکام رہی، چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرح چوہدری افتخار بھی پاکستان کو ٹھیک کرنے کی امید رکھتے تھے۔ پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ایسے آدمی ہیں جو مشن پر ہیں، سینئر ترین جج صاحبان ملک کوبدعنوان سیاستدانوں سے چھٹکارا دلانا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ہم ہارمونز سے پاک چکن کھائیں۔

تازہ ترین