• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سر چشمہ ہدایت: حقوق العباد ’’ خواتین کے حقوق‘‘

سر چشمہ ہدایت: حقوق العباد ’’ خواتین کے حقوق‘‘

ہر سال 8مارچ، دنیا بھر میں ’’عالمی حقوقِ نسواں‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دنیا کی قدیم تہذیبوں کا جائزہ لیں، تو پتا چلتا ہے کہ دنیا کی پوری تاریخ، خواتین کے ساتھ روا رکھے گئے ظلم و جبر کے ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے، جہاں مرد کی حکمرانی میں عورت کے بنیادی معاشرتی کردار کو نظرانداز کرتے ہوئے اسے بازاری جنس بنا کر رکھا گیا۔ یونانی تہذیب نے عورت کو ناپاک اور شیطان کہا، رومیوں نے انسانوں سے کم تر مخلوق جانا، یہودیوں نے ناقص العقل سمجھا، مشرق نے نجس و حقیر کہا، ایرانیوں نے فتنہ و فساد کی جڑ قرار دیا، جب کہ جاپانی اور چینی اسے ناقابلِ اعتبار سمجھتے رہے۔ ہندو ازم میں عورت کو ستی کے نام پر شوہر کی چِتا کے ساتھ نذر آتش کیے جانے کا گھنائونا فعل انجام دیا جاتا رہا، تو قبل از اسلام عرب معاشرے میں منحوس قرار دے کر زندہ درگور کی جاتی رہی۔ حتیٰ کہ آج کے اس تہذیب یافتہ دَور میں بھی امریکا و یورپ جیسے ترقی یافتہ معاشرے نے عورت کو ایک نمائشی شئے اور عیش و عشرت کا سامان بنا کر اس کی تذلیل و تشہیر کرتے ہوئے اشتہارات میں مصنوعات کی تشہیر کا ذریعہ بناکے رکھ دیا ہے۔

اگرچہ دنیا کی نصف آبادی ہونے کے ناتے خواتین کو بھی آزادی سے جینے کا مساوی حق حاصل ہونا چاہیے،لیکن بدقسمتی سے آج بھی دنیا کی ہر تیسری عورت تشدد کا شکار ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ صنفِ نازک کے ساتھ ہم دردی ،خیر خواہی سمیت اس کے فطری جذبات کی قدر کی جائے، اور دنیا بھر میں عورتوں کے ساتھ بہیمانہ برتائو، ان پر پر ڈھائے جانے والے مظالم اور تشدد کے خاتمے کی تدابیر کی جائیں۔یہ عجیب بات ہے کہ خود کو عورتوں کے حقوق کا محافظ کہنے والے ہی انہیں حقوق سے محروم اور اختیارات سے بے دخل کرکے ان کے ساتھ نارواسلوک کرتے ہیں۔ حکمرانوں نے اسلام میں فراہم کیے گئے عورتوں کے بنیادی حقوق کو پامال کرتے ہوئے انہیں جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ تاہم، یہ بات خوش آئند ہے کہ آج دنیا بھر میں حقوقِ نسواں کے تحفّظ کے حوالے سے خواتین میں شعور و آگاہی بیدار ہورہی ہے اور بہت سی خواتین اپنے حقوق کے تحفّظ کے لیے میدانِ عمل میں سرگرم ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ حقوقِ نسواں کی اس تحریک کو درست سمت پر گام زن کیا جائے۔

اسلام اور حقوقِ نسواں:کرئہ ارض پر اسلام کا سورج طلوع ہونے سے قبل، عورتوں پر ظلم و بربریت کی داستانیں عام تھیں، عدل و انصاف کی روح تقریباً عنقاء ہوچکی تھی۔ عورت کی حیثیت مرد کے پائوں کی جوتی سے بھی بدتر تھی۔ بچیوں کو زندہ درگور کردینا، تو ایک عام سی بات تھی۔ تذلیلِ نسوانیت عروج پر تھی۔ ’’صحیح بخاری‘‘ میں حضرت عمر فاروقؓ کا فرمان ہے کہ’’ عہدِ جہالت میں عورتوں کو بالکل ہیچ (قابل ِنفرت) سمجھا جاتا تھا،لیکن طلوعِ اسلام کے بعد اللہ نے ان کے متعلق آیات نازل کیں، تو ان کی قدر و منزلت معلوم ہوئی۔‘‘ (صحیح بخاری) قرآن کریم میں اللہ پاک عورت و مرد دونوں کایک ساں تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ’’اے لوگو…! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قوم اور قبیلے بنائے، تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے، جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘ (الحجرات13:49)سرورِ کونین، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات کے ذریعے عورتوں کو عزت و احترام کے اس اعلیٰ مقام پر پہنچایا کہ جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ احکاماتِ باری تعالیٰ اور احادیثِ نبویؐ کی روشنی میں امہات المومنینؓ، بناتِ رسول اللہؐ اور صحابیاتؓ کی زندگی کے شب و روز رہتی دنیا تک کی خواتین کے لیے بہترین عملی نمونہ قرار پائے، جس میں زندگی کے ہر ہر پہلو کا احاطہ کیا گیا ہے۔طلوعِ اسلام سے قبل دنیا کی طویل تاریخ عورتوں کے ساتھ مثبت کردار و عمل کے ذکر سے خالی ہے۔ تاہم، طلوعِ اسلام کے بعد عطا کردہ حقوق کے سبب دنیا کی ان ہی مظلوم و لاچار عورتوں نے علم و عمل کے میدانوں میں حیرت انگیز کارنامے انجام دے کر عقل کو دنگ کردیا۔ اسلامی تعلیمات سے حاصل کردہ شعور و آگاہی اور فکر و نظر کی وسعت کے سبب اپنے عزم و استقلال، علم و دانش، فہم و فراست اور ایثار و قربانی سے وہ عظیم الشان داستانیں رقم کیں کہ جو تاریخ کی کتابوں میں سنہرے حروف سے تحریر ہیں۔ صنفِ نازک کہلانے والی ان بہادر اور جرّی خواتین نے شریعتِ اسلامی کے زیرسایہ وہ کارہائے نمایاںانجام دیئے کہ دیکھ اور سن کر کرئہ ارض کے ٹھیکیدار انگشتِ بدندان رہ گئے۔تاریخ گواہ ہے کہ حضور نبی کریمﷺ کی صداقت کی گواہی دینے والی اور سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی حضرت خدیجتہ الکبریٰؓ ایک خاتون ہی تھیں۔ اسلام قبول کرنے کی پاداش میں سب سے پہلے جامِ شہادت نوش کرنے والی حضرت سمیہؓ (حضرت عمار ؓ کی والدہ) بھی ایک خاتون تھیں۔ اسی طرح بے شمارمسلمان خواتین کے مختلف اوقات میں برّی اور بحری جنگوں میں شرکت کے واقعات بھی تاریخ کے اوراق میں درج ہیں۔ یعنی جنگ کے میدان میں زخمیوں کی خدمت و تیمارداری ہو،طب و جرّاحت ، درس و تدریس یا علمیت و خطابت کا میدان، صنعت و حرفت، تجارت و زراعت، تعلیم و تربیت ہو یا وعظ و تقریر، عدل و انصاف کا معاملہ، ظالم کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرأت ، سیاسی مشورے ہوں یا حکومتی معاملات ،اصلاحِ معاشرہ اور عزیز و اقارب سے تعلقات، پڑوسیوں کے حقوق، خانگی معاملات، معاشرتی تنازعات، خاندانی تعلقات ہوں یا سماجی مشکلات، فقہی مسائل یا دینی معاملات، غرض یہ کہ زندگی کا وہ کون سا پہلو ہے، جس میں قرونِ اولیٰ کی ان مسلم خواتین نے عظیم الشان کارہائے نمایاںانجام نہیں دیئے۔ یقیناً امتِ مسلمہ کی ان عظیم خواتین کے یہ عملی اقدامات آج کی خواتین کے لیے راہِ ہدایت بھی ہیں اور باعث ِنجات بھی۔اسلام نے عورت کا تعیّن چار معزز رشتوں میں کیا۔ ماں، بیوی، بیٹی اور بہن۔ عورت کوجب ماں کے مقام و مرتبے پر پہنچایا، تو اس کے قدموں تلے جنّت رکھ کر اسے تقدّس و تکریم کی معراج عطا کردی۔ جب بیوی کا درجہ دیا، تو آئینہ و آبگینہ قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ حسنِ سلوک کو تقویٰ کا جزوِ لازم قرار دیا اور گھر کی محافظ و ملکہ بنا دیا۔ جب بیٹی کا درجہ دیا، تو اس کی پرورش، تربیت اور اس سے محبت کو جنّت کے حصول کا ذریعہ کہا اور جب بہن کا درجہ دیا، تو وہ باپ، بھائیوں کی دوست، مونس، غم خوار اور مان قرار پائی۔

عورت بہ حیثیت ماں: قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’ہم نے انسان کو اپنے ماں، باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔ اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر اور تکلیف برداشت کرکے جَنا۔‘‘ (الاحقاف15:46) اس آیتِ مبارکہ میں اللہ نے عورت کی مشقّت و تکلیف کا ذکر فرماتے ہوئے اولاد کو تاکید کی ہے کہ وہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کریں۔ اس کے ساتھ ہی ماں کے مقام کو باپ سے مقدّم قرار دیا، کیوں کہ نو ماہ تک مسلسل حمل کی تکلیف، اس کا بوجھ اور پھر زچگی کی شدید تکلیف صرف تنہا ماں ہی اٹھاتی ہے۔ اس لیے حدیث مبارکہ ؐ میں بھی ماں کے ساتھ حسنِ سلوک کو اوّلیت دی گئی ہے۔ ایک صحابیؓ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ ’’میرے حسن ِسلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’تمہاری ماں۔‘‘ انہوں نے پھر یہی سوال کیا۔ آپؐ نے پھر جواب میں فرمایا۔’’ تمہاری ماں۔‘‘ تیسری مرتبہ بھی انہوں نے پوچھا،تو آپؐ نے فرمایا۔ ’’تمہاری ماں۔‘‘ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر فرمایا۔ ’’تمہارا باپ۔‘‘ (صحیح مسلم) حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’جنّت ماں کے قدموں تلے ہے۔‘‘ حضرت فاطمہؓ سے روایت ہے کہ ’’ماں کے پیروں سے چمٹے رہو، وہیں جنّت ہے۔‘‘ (ابن ماجہ) حضرت ابن ِعباسؓ سے روایت ہے کہ ’’جس شخص نے اپنی ماں کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا، وہ بوسہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے حجاب ہوگا۔ (بیہقی)

عورت بہ حیثیت بیوی:عورت کا دوسرا روپ بیوی کا ہے، جو شوہر کے گھر کی مالک اور محافظ ہے۔ سورۃ البقرہ میں اللہ ارشاد فرماتا ہے۔’’ عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم عورتوں کا لباس ہو۔‘‘ (187:2) ایک مرتبہ ایک سفر کے اونٹ بانوں نے اونٹوں کی رفتار تیز کردی، تو آپؐ نے ارشاد فرمایا۔ ’’اونٹوں کو آرام سے چلائو، ان پر آئینے و آبگینے ہیں۔‘‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد، رہتی دنیا تک کے لیے تمام جہانوں کی خواتین کی عزت و تکریم اور نزاکت و حفاظت کا وہ لافانی پیغام ہے، جو دنیا کے کسی مذہب اور کسی بھی معاشرے میں نظر نہیں آتا۔ اسلام نے ’’شرم و حیا‘‘ کو عورت کا زیور قرار دے کر اسے تقدّس و تکریم کے اعلیٰ مقام پر فائز کیا اور مردوں کو پابند کیا کہ وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک اور عمدہ اخلاق سے پیش آئیں۔

بہ حیثیت بیٹی: عورتوں، خصوصاً بیٹیوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا، وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ زمانۂ جہالت میں عرب میں بیٹیوں کو منحوس قرار دے کر زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ ایک شخص نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عہدِجہالیت کا ایک واقعہ بیان کیا کہ ’’میری ایک بیٹی تھی، جو مجھ سے بہت محبت کرتی تھی اورمجھ سے بڑی مانوس تھی۔ میں جب اسے بلاتا، تو وہ دوڑتی ہوئی میرے پاس آتی اور فرطِ محبت سے مجھ سے لپٹ جاتی۔ ایک روز میں نے اسے ساتھ لیا اور راستے میں ایک کنویں میں دھکا دے دیا۔ اس کی چیخوں کی آواز میرے کانوں سے ٹکراتی رہی۔ ’’ہائے ابّا… ہائے ابّا…!‘‘ یہ واقعہ سن کر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم آب دیدہ ہوگئے۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے اس سے کہا کہ’’تو نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کورنجیدہ کردیا ہے۔‘‘ حضورؐ نے فرمایا۔ ’’اسے مت روکو۔ جس چیز کا اسے احساس ہے، اس کے بارے میں اسے سوال کرنے دو۔‘‘ آپؐ نے پھر اس سے دوبارہ وہی واقعہ سنا اور اس قدر روئے کہ داڑھی مبارک آنسوئوں سے تر ہوگئی۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا ’’زمانۂ جہالت میں جو کچھ ہوا، اللہ نے اسے معاف کردیا۔‘‘ اسلام نے بیٹیوں کے قتل کے اس جاہلانہ اور ظالمانہ اقدام کو نہایت نفرت انگیز جرم قرار دیا۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی۔‘‘ (سورۃ التکویر 8,9:81) دراصل اس آیتِ مبارکہ میں اللہ کے سخت غضب کی طرف نشان دہی کی گئی ہے کہ اللہ زندہ گاڑنے والے سے نہیں، بلکہ خود مظلوم لڑکی سے دریافت کرے گا اور وہ اپنے درندہ صفت والدین کے ظلم و بربریت کی داستان خود سنائے گی۔ حضرت ابن ِعباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جس شخص کی بیٹی ہو، اور وہ اسے کم تر سمجھے نہ اپنے بیٹے کو اس پر ترجیح دے، تو اللہ اسے جنّت میں داخل کردے گا۔ (ابو دائود) حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سراقہ بن جعشم ؓ سے فرمایا۔’’کیا میں تمہیں بتائوں کہ سب سے بڑا صدقہ کیا ہے؟ (سب سے زیادہ فضیلت والا) تیری وہ بیٹی، جو (طلاق پا کر یا بیوہ ہوکر) تیری طرف پلٹ آئے اور تیرے سوا کوئی اس کے لیے کمانے والا نہ ہو۔‘‘ (ابن ماجہ)

بہ حیثیت بہن: مذکورہ رشتوں میں ایک خوب صورت روپ، بہن کا ہے، جو بہ یک وقت دوست، مونس اور غم خوار ہوتی ہے، جو بھائیوں کی خاطر اپنے منہ کا نوالہ، اپنا حق، یہاں تک کہ اپنی جان بھی قربان کرنے سے گریز نہیں کرتی۔ جاہلانہ معاشرے میں آج بھی وڈیروں اور جاگیردار بھائیوں کی جھوٹی اَنا اور ضد کی خاطر ان کی کنواری بہنیں حویلیوں میں قیدرہ کر اپنی جوانیاں نچھاور کردیتی ہیں۔ بہنوں کی عزت و احترام کا عملی نمونہ ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک سے ملتا ہے۔ امّ المومنین، حضرت خدیجہؓ کی بہن حضرت ہالہؓ یا آپ کی رضاعی بہن، حضرت شیماءؓ جب کبھی تشریف لاتیں، تو آپؐ فرطِ محبت سے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کرتے اور ان کے لیے اپنی چادر بچھاتے، ان کے ساتھ حسنِ سلوک فرماتے۔ بہنوں کے ساتھ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل پوری انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ بھائی، بہنوں کی عزت کے رکھوالے ہوتے ہیں۔ اگر باپ حیات نہیں ہیں، تو بھائیوں کی ذمّےداری ہے کہ وہ باپ بن کر ان کی کفالت کریں، شادیوں کے بعد بھی ان کی خبرگیری کریں اور وراثت میں ان کا حصّہ ان کے حوالے کریں۔ والدین کی ذّمے داری ہے کہ وہ لڑکیوںپر لڑکوں کو فوقیت نہ دیں، بلکہ برابری کا رویہ رکھیں۔

شادی کا حق:اسلام لڑکیوں اور عورتوں کی شادی کے معاملے میں کسی زبردستی کا قائل ہے،نہ اس کی اجازت دیتا ہے۔ شریعت ِاسلامی نے والدین اور سرپرستوں کو پابند کیا ہے کہ وہ کنواری لڑکیوں اور بیوہ کی شادی کرتے وقت ان کی مرضی و منشاء معلوم کریں اور اگر ان کی مرضی نہ ہو، تو اس جگہ شادی نہ کریں۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کنواری لڑکی کا نکاح نہ کیا جائے، جب تک کہ اس سے اجازت نہ لی جائے اور بیوہ کا نکاح نہ کیا جائے، جب تک کہ اس سے حکم نہ لیا جائے۔ (بخاری) والدین اور سرپرستوں کی یہ ذمّے داری ہے کہ لڑکیوں کی جلد شادی کے لیےجستجو و فکرکریں اور مناسب، بہتر، برسرِروزگار اورجوڑ کے مطابق رشتہ دیکھ کران کی اجازت سے نکاح کردیں۔

حقِ کفالت:عورت کا ایک حق یہ ہے کہ شادی کے بعد اس کا شوہر اس کی کفالت کرتے ہوئے اس کے جملہ اخراجات مثلاً غذا، لباس، رہایش وغیرہ اپنی استطاعت کے مطابق پورا کرے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’خوش حال، اپنی استطاعت کے مطابق اور غریب اپنی توفیق کے مطابق معروف طریقے سے نفقہ دے۔‘‘ (البقرہ236:2) حجتہ الوداع کے موقعے پر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ تم پر تمہاری بیویوں کا حق ہے کہ تم انہیں اچھا کھلائو اور اچھا پہنائو۔‘‘ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ’’ تم اللہ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے جو کچھ بھی خرچ کرو گے، اس کا تمہیں ثواب دیا جائے گا، یہاں تک کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں دو گے، اس کا بھی تمہیں ثواب ملے گا۔‘‘

عورت کو خلع کا حق:اسلام نے طلاق کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے مرد کو طلاق کا حق دیا ہے، بالکل اسی طرح عورت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ مرد سے خلع لےسکتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اگر تمہیں یہ ڈر ہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے، تو عورت (خاوند کے پاس سے) رہائی پانے کے لیے کچھ دے ڈالے۔ اس میں دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘ (البقرہ229:2) شریعت کی اصطلاح میں اسے خلع کہتے ہیں۔ یعنی عورت اگر خاوند سے علیٰحدگی حاصل کرنا چاہے، تو اس صورت میں خاوند عورت سے اپنا مہر واپس لے سکتا ہے۔ خاوند اگر علیٰحدگی قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو، تو عورت عدالت کے ذریعے بھی خلع لے سکتی ہے۔

حقِ مہر:قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’عورتوں کو ان کا مہر خوش دلی سے ادا کرو۔‘‘ (سورۃ النساء 4:4) مہر ،عورت کی ملکیت ہے، جسے مرد کو واپس لینے کا حق نہیں۔ ہاں! اگر بیوی اپنی خوشی سے دینا چاہے، تو وہ لے سکتا ہے۔ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہےکہ ’’ہاں! اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ تم کو چھوڑ دے، تو اسے ذوق وشوق سے کھا لو۔‘‘ (النساء 4:4) نکاح کے فوراً بعد ایک عورت کا اپنے مرد پر پہلا حقِ مہر کی ادائیگی ہے۔ مہر اس معاوضے کو کہتے ہیں، جو نکاح کے موقعے پر شوہر کی طرف سے بیوی کے لیے حقِ زوجیت کی بناء پر مقرر کیا جاتا ہے۔ شریعت میںمہر کی کوئی خاص مقدار مقرر نہیں، مہر کی رقم باہمی رضامندی اور شوہر کی مالی حیثیت کو مدنظر رکھ کر مقرر کی جاتی ہے۔ نکاح کی پہلی رات ہی مہر کی ادائیگی افضل ہے۔

وراثت میں عورت کا حق:اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے کہ جس نے عورت کی تقدیس و تکریم کو مقدم رکھتے ہوئے اس کی مالی حیثیت کو بھی مضبوط کیا ہے، تاکہ وہ کسی پر بوجھ نہ بنے۔ لہٰذا مہر اور نان نفقے کے علاوہ اسے والدین، خاوند اور بیٹے کے ترکے میں وارث قرار دے کر اس کا حصّہ مقرر کردیا گیاہے۔ عورت کے حقِ وراثت کے بارے میں اللہ تبارک تعالیٰ نے قرآن پاک کی سورۃہ النساء میں تفصیل کے ساتھ احکامات نازل فرمائے اور ارشاد فرمایا کہ عورت بالغ ہو یا نابالغ! وراثت میں ہر ایک کا حصّہ مقرر کردیا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عموماً بہنوں اور بیٹیوں کو مختلف حیلے بہانوں سے حقِ وراثت سے محروم کردیا جاتا ہے۔ ایسا کرنا سخت گناہ ہے۔ اللہ نے جو حصّہ مقرر فرما دیا ہے، اس کی پابندی کرنا سب پر لازم ہے۔

عورت کا کمانے کا حق:شریعتِ اسلامی، عورت پر اپنے والدین، شوہر یا سرپرست کی اجازت سے گھر سے باہر نکل کر کمانے یا گھر ہی میں کوئی پیشہ اختیار کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتی۔ اگر کوئی عورت اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے ملازمت ، تجارت کرتی ہے، یا کسی صنعت و حرفت سے وابستہ ہے، تو اسے ناجائز نہیں کہا جاسکتا۔ مسلمان خواتین نے تقریباً ہر شعبے میں بیش بہا خدمات سرانجام دی ہیں،اس کی سب سے اعلیٰ مثال تو یہ ہے کہ حضرت خدیجتہ الکبریٰؓ نہایت وسیع پیمانے پر تجارت کیا کرتی تھیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سی مسلمان خواتین تجارت سے وابستہ تھیں۔ حضرت زینبؓ دست کاری کا کام کرتی تھیں۔ (اسد الغابہ) اسی طرح حضرت خولاءؓ، ملیکہؓ، ثقفیہؓ اور بنتِ مخربہؓ عطر کی تجارت کیا کرتی تھیں۔ (اسد الغابہ) طب اور جراحی میں حضرت رفیدہ اسلمیہؓ، امّ مطاعؓ، امّ کبثہؓ، معاذہؓ، امّ عطیہؓ، امّ سلیمؓ، امّ زیادؓ اور ربیع بنتِ معوذؓکو مہارت حاصل تھی۔

تازہ ترین
تازہ ترین