• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تمامتر وسوسے، خدشات اور حربے پھر ناکام ہوگئے، جمہوری سفر کی ایک اور منزل طے ہوگئی، مدر آف آل انسٹی ٹیوشنز پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں صوبوں کی نمائندگی کاحق ادا کرنے والوں کا انتخاب بروقت مکمل ہوگیا، کریڈٹ بجا طور پر الیکشن کمیشن اور جمہوریت پسندوں کو جاتا ہے جنہوں نے تمام حدیں پار کرنے والوں کو چیلنج کرکے انتخابی عمل کو یقینی بنایا۔
ڈکٹیٹرشپ کے بعد2008 میں عوام کےووٹوں سے جمہوریت بحال ہوئی تو افواہ ساز فیکٹریاں اور سازشی عناصر بھی سرگرم ہوگئے، ہر روز جمہوریت کی نیا ڈبونے کی پیش گوئیاں معمول رہیں ،خدا خدا کرکے اسمبلیوں نے طبعی عمر پوری کرلی، 2013کے انتخابی عمل کے نئے مینڈیٹ نے اقتدار نواز شریف کی جھولی میں ڈال دیا، تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد امید کی جارہی تھی کہ میاں صاحب اقتدار کا پانچ سالہ پل صراط بہ احسن عبور کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن وہی ہوا جس کا ڈر ہی نہیں کسی حد تک یقین تھاکہ اقتدار میں آتے ہی میاں صاحب کو پارلیمنٹ کی بالادستی بھول گئی محض وزارت عظمیٰ کی طاقت یاد رہی، طاقتور چیف ایگزیکٹو بن کر امن مذاکرات، ہمسائیوں سے تعلقات کی بحالی، معاشی و خارجہ پالیسیوں اور بڑے فیصلوں کو اپنا حق سمجھ لیا، میاں صاحب کے تخت سنبھالنے کے محض ایک سال بعد ہی تختہ کرنے کے آرزومند حملہ آور ہوئے مگر پارلیمنٹ کے مضبوط ستونوں کے سہاروں نے ان کے قدم جما دیئے، بیرونی خطرہ ٹلا تو ایوانوں میں اقتدار کی کرسی کے دبدبے کا شور پھر اٹھا، سیاستداں بکھرے تو طوفانوں نے ایکا کرلیا اور بقول خود میاں صاحب روز اک نیا حربہ، روز ایک نئی سرکس اور پھر تسلسل سے کٹھ پتلی تماشے کا ایسا اسٹیج سجا دیا گیا کہ صداکار، اداکار اور فنکار بدلتے رہے کہ اس کا اسکرپٹ وہی گھسا پٹا ہی رہا لیکن سچ یہ ہےکہ سارا قصور ’’ان‘‘ کا نہیں، میاں صاحب خود بھی خودسری اور خوداعتمادی کا شکار اس قدر ہوئے کہ ماضی کےدو ادھورے ادوار ِاقتدار کا ریکارڈ توڑنا تیسری مرتبہ بھی چیلنج بنالیا، سربراہ حکومت کی حیثیت سے ’’طاقتوروں‘‘ کےفیصلوں سے سرکشی، واضح پیغام ثابت ہوا کہ نواز شریف بدل چکا ہے لہٰذن طے کیا گیا کہ اب محترم کا اقتدار قابل قبول نہیں لہٰذا فارغ کردیا جائے، دوسری طرف میاں صاحب نے بھی معاملے کو سادہ سمجھ کر پارلیمنٹ سے بےاعتنائی کا سلسلہ جاری رکھا، پھر پاناما لیکس نے ایوانِ اقتدار پر ایسا لرزہ طاری کیا کہ اپوزیشن کی ضد کے باوجود میاں صاحب انصاف لینے عدالت عظمیٰ چلے گئے، پاناما کی بجائے اقامہ کی صورت منصفانہ فیصلہ آگیا، محض اقتدار نہیں سیاست سے دیس نکالا دینے کا فیصلہ کیا گیا تو پھر اگلے پچھلےحساب نکال لئے گئے۔ چند ساعتوں میں سب کچھ ہاتھ سے گیا تو میاں صاحب کو ووٹ کی بےحرمتی کا دھیان آگیا جس کو انہوں نے مشن بنالیا۔ کمپرومائز اور صلح جوئی کا مشورہ دینے والوں میں سے کوئی ساتھ کھڑا ہوتا یا نہیں، صاحبزادی نے ناانصافی کا نعرہ لگا کر بغاوت کا علم اٹھا لیا، ایک دیرینہ ساتھی کے ’’کیوں نکالا‘‘ کو بیانیہ بنا کر میاں صاحب جی ٹی روڈ سے جو نکلے تو پھر رکے نہیں، ووٹ کے تقدس اور مینڈیٹ کے احترام کا نظریہ ہر شہر اور گلی پہنچا رہے ہیں جس کا عوامی جواب حلقہ این اے120 سے لودھراں کے راستے سرگودھا کے صوبائی حلقے30 تک بھاری کامیابی کی صورت آرہا ہے۔ کالم کے آغاز میں کہہ چکا ہوں کہ سینیٹ انتخابات نہ ہونے کے اندازے غلط ثابت ہوگئے لیکن اس انتخابی عمل میں ووٹ کے تقدس کا جو حال ہوا اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آرہی ہے۔ مبینہ طور پرخود فاٹا کی نمائندگی کرنے والے ارکان نے ووٹ کےحصول کے لئے کروڑوں کی چمک کا الزام لگا کر اس جمہوری عمل کو گہنایا ہی نہیں داغدار کردیا ہے، ہر کوئی خفیہ سودے بازی کی بات کر رہا ہے، انتخابی عمل میں خرابی کے کئی نمونے اس سے پہلے بھی سامنے آتے رہے ہیں تاہم طاقتور الیکشن کمیشن اور آزاد میڈیا کے ہوتے ہوئے ان کارناموں کا ہونا نظام کی بدترین کمزوریوں کو ظاہر کرتا ہے۔ سندھ، کے پی اور پنجاب کے قدرے حیران کن نتائج نے بھی جمہوری نظام کے اسٹیک ہولڈرز کے کان کھڑے کردیئے ہیں، مبینہ طور پر کروڑوں کی چمک کے خفیہ دھندے نے پرچی کی حرمت پر گویا سیاہی پھینک دی ہے۔ پنجاب میں حکمران جماعت کی ایک خاتون پارلیمنٹرین کا واضح فتح کےامکانات میں بدترین شکست پر آنسوئوں سےرونا اور اپنی جماعت کی خواتین پر الزامات لگانا اس پراسس پر بدنما داغ کی مانند ہے۔ ضمیر فروشی میں اصولوں کی سیاست کرنے والے دعویدار اور نیا پاکستان بنانے کے خواہش مند بھی برابر کے شریک ہیں۔ لیکن اس سے بھی پریشان کن صورت انتخابی عمل کے بعد پیدا ہو رہی ہےجب منتخب آزاد سینیٹرز کا بھائو تائو ہورہا ہے اور وہ گھوڑوں نہیں بےچارے گدھوں کی ٹریڈنگ سے بھی بدترین مثال بن کر بِکیں گے۔ نام اور نشان کے بغیر سینیٹ کا انتخاب لڑنے والی حکمران جماعت33 منتخب سینیٹرز سے اکثریتی پارٹی تو بن گئی ہے لیکن اب اگلا مرحلہ ہے مینڈیٹ کے احترام کا، تو کیا اس کو چیئرمین سینیٹ منتخب کرانے دیا جائے گا یا یہ اہم مرحلہ بھی ووٹ فروشی کی غلط روایت کی نذر ہوجائے گا؟ جمہوری اصولوں یا عددی اکثریت کے مروجہ طریقوں کی بجائے فاٹا اور بلوچستان سمیت دیگر صوبوں کے آزاد ارکان کو چمک سے وفادار بنانے کی کوششیں عروج پر ہیں، دیکھتے ہیں زر-دار سب پر بھاری ہوگا یا جمہوری روایات اور اصول؟ ہارس ٹریڈنگ کے ’’سنہری‘‘ اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت بنانے اور گرانے کے دعویدار سینیٹ میں اپنا قائد ایوان ہر صورت لانا چاہتے ہیں، بظاہر لگتا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی 15 آزاد سینیٹرز، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ایم کیو ایم کے5 اور دو، چار نشستیں رکھنے والی جماعتوں کو ساتھ ملا کر چیئرمین شپ حاصل کرنے کا پنجہ آزمائی کررہی ہیں، بات نہ بنی تو مل بانٹ کر کھانے کے ’’جمہوری‘‘ اصولوں کی پاسداری کی جائے گی۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں میاں صاحب کی سیاست کے ایوانوں میں واپسی کے ’’منصوبے‘‘ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے چیئرمین شپ کی قربانی بھی دے دی جائے یا ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ پیپلز پارٹی کو دے کر گھر میں معاملات طے کرلئے جائیں۔ باہمی رضامندی اس لئے بھی ضروری ہے کہ پیپلزپارٹی کی عوامی مفاد میں اسٹیبلشمنٹ سے مبینہ ڈیل آئندہ انتخابات میں اس کے لئے مشکلات پیدا کرسکتی ہے، لہٰذا ایک ہاتھ ’’بڑوں‘‘ کےہاتھ میں رہے اور دوسرا جمہوریت پسندوں کے ہاتھ میں دے کر دہرا فائدہ لیا جائے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ متفقہ طور پر رضاربانی جیسا مضبوط نگران وزیراعظم لانےمیں آسانی ہوگی۔ بعض ذرائع اب بھی قیاس آرائی سے باز نہیں آرہے کہ طاقتور سینیٹ میں اپ سیٹ کرکے مرضی کا سیٹ اپ لانےکی کوششوں میں مصروف ہیں۔ مارچ میں میاں صاحب کو نیب زدہ کرکے چھوٹے بھائی کو واضح پیغام دیا جائے اور عام انتخابات کے نتائج توقعات کے مطابق حاصل کرلئے جائیں۔ یہ بھی افواہ ہے کہ صفائی ایک نہیں تمام گھروں میں کی جائے اور آسمان سے اترے باکردار اور نیک نام ٹیکنوکریٹس کو یہ فریضہ انجام دینے کے لئے دو تین سال دے دیئے جائیں۔ زمینی حقائق گواہ ہیں کہ جب بھی سیاسی انجینئرنگ کی کوشش کی گئی نتائج برعکس نکلے اور فائدہ سیاسی لیڈر شپ کو ہوا۔ 88ء سے لےکر سینیٹ انتخابات تک حالات گواہ ہیں کہ شہید بےنظیر بھٹو کو نظام سے باہر کرنے کی کوششوں نے انہیں دوبار اور نواز شریف کو تین بار وزیراعظم بنادیا، اب بھی لگتا ہے کہ تمام تیاریاں نواز شریف کو بھاری مینڈیٹ سے چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنانے کے لئے کی جارہی ہیں۔ سیاسی مطلع صاف ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ فیصلے زور زبردستی کی بجائے اب ووٹ کی پرچی سے ہوں گے تو نظام چلے گا لیکن اس کے لئے سیاسی و جمہوری طاقتوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا، خود پر نوٹ نہیں ووٹ کی حرمت کا اصول لاگو کرنا ہوگا۔ یہ طے ہے کہ اگر آج جمہوری نظام کی خالص روایات کو اعتماد نہ ملا تو پھر ووٹ کے تقدس کی پامالی ہمیشہ کے لئے آپ کا مقدر رہے گی۔

تازہ ترین