• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ادب پارے

سید ضمیر جعفری

ایک تقریب میں پاکستان کے فوجی حکمراں، جنرل ضیاء الحق کی فرمائش پر ضمیر جعفری نے ایک شعر سنایا۔ قریب کھڑے افراد نے شعر کی تعریف کی، لیکن حفیظ جالندھری گویا ہوئے:

’’یار ضمیر! جب تم میرے ماتحت کام کرتے تھے، اُس وقت تو اتنے اچھے شعر نہیں کہہ پاتے تھے۔‘‘

’’جی ہاں! یہ سب آپ سے دوری کا فیض ہے۔‘‘ ضمیر جعفری نے برجستہ جواب دیا۔

٭…٭…٭

سید ضمیر جعفری اور ان کے چند ساتھی، فوجی افسر اپنا طبی معائنہ کروانے کے لیے ایک ملٹری اسپتال میں گئے تو انہیں اچنبھا ہوا کہ ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود ان کے وارڈ میں کسی نرس کا گزر نہیں ہوا۔ اتفاق سے جب ایک میٹرن وہاں سے گزری تو ضمیر جعفری نے پوچھا کہ ’’بڑی بی کیا بات ہے، ہم لوگ ایک ہفتے سے اس وارڈ میں ہیں، لیکن تم نے آج تک کسی نرس کو اس وارڈ میں نہیں بھیجا۔‘‘ یہ سن کر میٹرن نے کہا: ’’میں خوب جانتی ہوں، اس وارڈ میں جتنے بھی لوگ ہیں، وہ سب کے سب تندرست اور توانا ہیں۔‘‘

٭…٭…٭

سید ضمیر جعفری، ایک روز عبدالعزیز خالد کے مہمان ہوئے اور وہاں کچھ لکھنے کے لیے انہوں نے خالد صاحب سے ان کا قلم مستعار لیا، مگر تین چار دفعہ کوشش کے باوجود یہ قلم اُن سے نہ چل سکا۔ اس پر انہوں نے خالد صاحب کو قلم واپس کرتے ہوئے کہا: ’’یہ آپ رکھ لیجیے، اسے غالباً آسان اردو لکھنے کی پریکٹس نہیں ہے۔‘‘ (عبدالعزیز خالد خاصی مشکل زبان استعمال کرتے تھے)

٭…٭…٭

ایک بار ضمیر جعفری نے ایک کالم لکھ کر حسرت کو دکھایا۔ وہ کالم چراغ حسن حسرت کو پسند نہ آیا۔ ضمیر جعفری نے کسی احتجاج کے بغیر وہ کالم پُرزے پُرزے کر ڈالا۔ اگلے روز جب چراغ حسن حسرت نے اخبار دیکھا تو ضمیر جعفری سے دریافت کیا: ’’حضرت! وہ آپ کا کالم کہاں ہے؟‘‘

اس پر ضمیر جعفری نے بتایا کہ انہوں نے حسرت کی ناپسندیدگی کی بنا پر اسے ضائع کردیا۔ تب میجر حسرت نے سگریٹ کا ایک طویل کش لے کر کہا: ’’کیا فرق پڑتا ہے مولانا!… چھاپ دیتے… دیگر لغویات بھی تو چھپتی ہی رہتی ہیں۔‘‘

٭…٭…٭

ایک دن ضمیر جعفری، بک کارنر پر تشریف لائے، دیوہیکل پرسنالٹی اور بوسکی کا ترو تازہ شلوار قمیص سوٹ پہنے، خوشبوئیں لگائے مہک رہے تھے۔ شاید حمید پوچھنے لگے:

’’شاہ جی! آج کدھر کی تیاری ہے؟‘‘

بولے: ’’تجھے نہیں پتا آج میں گورنمنٹ گرلز کالج کے فنکشن میں مہمانِ خصوصی ہوں۔ بوڑھا ہوں تو کیا ہوا، جانا تو خواتین کی محفل میں ہے۔‘‘ اور پھر اپنا یہ شعر سنادیا:

ربط ہے تازہ ہر اک چہرے، ہر اک منظر کے ساتھ

میں بڑھاپے کو نہ آنے دوں گا کیلنڈر کے ساتھ

٭…٭…٭

تازہ ترین
تازہ ترین