• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم لندن کے سب سے مہنگے علاقے کی مشہور سڑک ’’آکسفورڈ اسٹریٹ‘‘ پر کھڑے اس بات کا تعین کر رہے تھے کہ اپنی منزل تک جانے کیلئے دائیں راہ لینی ہے یا بائیں مڑنا ہے۔اسی لمحے میاں نواز شریف اور بیگم کلثوم نواز سامنے سے آتے دکھائی دیئے‘ نظریں ملیںتو مسکراتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھے‘ گرم جوشی سے معانقہ کرتے ہوئے بولے ’’مبارک ہو!‘‘۔ پوچھا کس بات کی؟ کہنے لگے ’’جنرل وحید کاکڑ کو توسیع نہ ملنے پر آپ مبارک باد کے مستحق ہیں۔‘‘ عرض کیا‘ مگر آپ نے بھی ان کی مدت ملازمت کو بڑھائے جانے کی مخالفت کی تھی۔ ہاں مگر میں نے سینیٹ میں کی گئی آپ کی تقریر پڑھی تھی‘ جس میں توسیع نہ دیئے جانے کیلئے دلائل دیئے گئے تھے۔ یقین کریں اگر آپ نے مخالفت میں یہ بیان نہ دیا ہوتا تو یقیناً میں بھی خاموش ہی رہتا۔ پھر بیگم صاحبہ سے میرا تعارف کروایا۔ جواباً راقم نے بھی اپنی بیوی سے دونوں کو متعارف کروا دیا‘ جو اس وقت میر ے ساتھ تھیں۔ میاں نواز شریف کی یقیناً جنرل وحید کاکڑ صاحب سے ’’ان بن‘‘ رہی تھی‘ لیکن مجھ سمیت کسی کو ان سے کوئی شکایت نہ تھی‘ وہ بہت شاندار خاندانی روایات کی وضع دار شخصیت تھے۔ اپنے کام سے کام رکھنے والے‘ پیشہ ور فوجی افسر‘ کم سخن‘ سنجیدہ اور پروقار۔ ہوا یوں کہ ان دنوں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور وزیراعظم بے نظیرفرانس سے آبدوزوں کی خریداری جیسی ایک اور ’’ڈیل‘‘ کرنے جا رہی تھیں‘ اب کے بار ان کا نشانہ ایئر فورس تھی جس کیلئے میراج طیارے خریدنے کا ارادہ تھا۔ ان دنوں فرانسیسی ’’میراج‘‘ کی قیمت عالمی منڈی میں چالیس اور پینتالیس ملین ڈالر فی طیارہ تھی اور انڈیا نے اس قیمت پر بھی ان طیاروں کو یہ کہہ کر خریدنے سے انکار کر دیا تھا کہ یہ بہت مہنگے ہیں ۔ لیکن پاکستان کی حکومت یہ جہاز 95ملین ڈالر میں خریدنے کیلئے تیار تھی۔ میں بطور ممبر سینیٹ اس خریداری کی شدید مخالفت کرتا رہا‘ بعد میں حکومت کو یہ خریداری منسوخ کرنا پڑی۔ اسی بحث کے دوران ان خبروں کا ذکر کیا جو ان دنوں اخبارات میں زیر بحث تھیں‘ بے نظیر‘ جنرل وحید کاکڑ کو بطور فوج کے سربراہ توسیع دینا چاہتی تھیں‘ کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ اگر زیادہ نہیں تو کم از کم یکم مارچ تک ان کی مدت کو بڑھا دیا جائے۔
اس سے پہلے یہ دورانیہ یکم مارچ سے شروع ہو اکرتا تھا جو ضیاء الحق کی اگست میں طیارے کے حادثے میں شہادت کے بعد یکم مارچ کی بجائے اگست سے شروع ہونے لگا تھا جبکہ یہ دراصل یکم مارچ سے شروع ہو کر تین یا چار سال کی مدت کے بعد فروری کے آخری دن ختم ہو اکرتا تھا اور فوج کا نیا سربراہ یکم مارچ کو اپنے عہدے کا حلف اٹھاتا۔ مدت ملازمت میں بے جا توسیع سے فوج کے معیار اور مورال پر برا اثرا ہوا تھا جبکہ دوسری دونوں ’’سروسز‘‘ نیوی اور ایئرفورس اس برُی روایت سے بچی ہوئی تھیں اور ان کا معیار اور کردار محدود ہونے کے باوجود زیادہ قابل فخر خیال کیا جاتا تھا۔ اب میری دو ٹوک مخالفت نے اخبارات میں نمایاں جگہ حاصل کی تھی۔ اگلے دن سینیٹ کے اجلاس میں ایک صاحب نے خبردار کیا کہ فوج کی بلاوجہ مخالفت کیوں مول لیتے ہو؟ آپ کو ان معاملات میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ عرض کیا‘ فوج کے ناراض ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ اگر ایک آدھ آدمی کی پیشانی پر بل آتا ہے تو درجنوں جرنیل اور فوجی افسر خوش بھی ہوتے ہیں جن کی ترقیاں اس غیرضروری رکاوٹ کی وجہ سے رک جاتی ہیں‘ اور اس سینئر لیفٹیننٹ جنرل کا قصور کیا ہے جسے قابل فخر فوج کا سربراہ ہونے کا اعزاز ملنا چاہئے تھا مگر وہ تمام تر اہلیت و مہارت کے باوجود غیرضروری رکاوٹ کی وجہ سے بدقسمتی کا شکار ہو گیا۔ جاری اجلاس کے دوران یہ گزارشات اس وقت سچ ثابت ہوگئیں جب سینیٹر کمانڈر خلیل مسکراتے ہوئے آئے اور بولے ‘جہانگیر کرامت صاحب کا آپ کیلئے پیغام ہے کہ ’’آپ نے بہت مہربانی کی ہے ‘‘اور ہم بھی اپنے دوستوں کو بھولا نہیں کرتے ۔‘‘ ہم ایک دوسرے کو براہ راست نہیں جانتے تھے لیکن انہوں نے اس بات پر اپنا دوست جانا کہ سینیٹ میں جو کچھ کہا گیا تھا وہ ان کے دل کی آواز تھی۔ فوج میں اپنے سینئر کا احترام کیا جاتا ہے لیکن سینئر کو بھی یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ میرٹ کو کچل ڈالے اور جائز حق دار کی منزل کھوٹی کرے۔
اس چھوٹے سے واقعہ میں بڑا سبق ہے۔ جنرل وحید کاکڑ فوج میں اچھی مثال اور اعلیٰ کردار خیال کئے جاتے ہیں‘ بطور سپاہ سالار ان کا حکم ساتھیوں کیلئے اپنی جان سے بھی عزیز تر تھا‘ مگر جونہی یہ مثالی کردار کا افسر اعلیٰ اپنے وقت مقررہ کے بعد بھی اس عہدے پر براجمان نظر آتا ہے تو قریب ترین ماتحت اور دوست کی نظر میں وہ ناجائز براجمان رہے اور بے جا رکاوٹ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ایک اجنبی جو اس بے جا رکاوٹ کے خلاف زبانی احتجاج کرتا ہے وہ محسن اور دوست نظر آنے لگتا ہے۔ یہ دو اعلیٰ ترین اور مہذب افسروں کی کایا کلپ کی داستان ہی نہیں بلکہ انسانی نفسیات کا غیرمتبدل واقعہ ہے۔ جو آدمی تین چار عشرے سخت مقابلے کے ساتھ کڑے کوسوں کا سفر کر کے اپنی منزل کے قریب پہنچا ہے‘ اس کی راہ میں ’’مدت ملازمت میں توسیع‘‘ کی رکاوٹ کھڑی کر دی جائے تو اس کا یہی ردعمل ہوگا جو جہانگیر کرامت کا تھا۔ پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے سربراہ کا دورانیہ یکساں ہے۔ قیام پاکستان سے آج تک ایئرفورس میں اکیس سربراہوں نے قیادت کی اورنیوی کے بیسویں سربراہ خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ بری فوج میں جنرل راحیل شریف پندرھویں کمانڈر انچیف ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بری فوج میں کم از کم چھ لیفٹیننٹ جنرل اسلئے اس قابل فخر ادارے کی سربراہی سے محروم کر دیئے گئے کہ ان کے پیش رو اپنی حد سے زیادہ مدت تک عہدے پر فائز رہے۔ یہ بری روایت ہے جس پر کوئی ادارہ فخر نہیں کر سکتا جبکہ اپنی حد سے زیادہ عرصہ برقرار رہنے والوں کے دامن میں کوئی قابل فخر یا قابل ذکر کارنامہ بھی نہیں تھا۔ راحیل شریف ’’غیرمتوقع ‘‘فوج کے سربراہ مقرر ہو کر ’’ہیرو‘‘ کی طرح نمودار ہوئے۔ غیرمعمولی تیز رفتاری کے ساتھ قوم کے اندر عزت و شہرت کی بلندیوں کو جا لیا۔ جلد ہی دنیا بھر میں ’’مین آف ایکشن‘‘ کہلائے جانے لگے۔ صرف ایک سال کی قلیل مدت میں پسماندہ ملک کی فوج کے سربراہ کو عالمی سطح پر نمبر ون جرنیل ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔ ہماری قوم کو عموماً اور فوج کو بطور خاص ایسے افراد کی ضرورت ہے‘ جن کے کردار کو نمونہ بنا کر ان کی روایات کی پیروی کی جائے۔ جنرل راحیل شریف کا یہ اعلان کہ وہ ’’مدت ملازمت میں توسیع‘‘ پر یقین نہیں رکھتے۔ اس اعلان نے نہ صرف نقادوں اور غیرضروری تبصرہ نگاروں کے منہ بند کر دیئے وہیں اپنے سینئر ساتھیوں کے دلوں کو بھی امید اور ولولے سے بھر دیا۔ اب وہ زیادہ یکسوئی اور خوش دلی سے اپنے قائد کے قدموں سے قدم ملا کر ادھورے کام کو انجام دینے کی کوشش کریں گے۔ ان کے دلوں میں یہ خدشہ نہیں ہوگا کہ راحیل شریف کی شہرت و کامیابی ان دوستوں کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اب دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کامیابی کے امکانات روشن تر ہیں۔
اگر کسی وجہ سے راحیل شریف کی موجودگی کچھ مدت کیلئے ناگزیر ہو تو پھر پہلے کی طرح افواج کے سربراہان کی مدت کو تین سال سے بڑھا کر چار سال کر دیا جائے۔ فوج کے سربراہ کا دورانیہ یکم مارچ سے شروع ہوا کرتا تھا‘ اسے پھر سے یکم مارچ کر دیا جائے تو موجودہ سربراہان کو خود بخود تقریباً سوا سال مزید کام کرنے کا موقع مل جائے گاا ور کسی کی حق تلفی بھی نہیں ہوگی۔ بلکہ یہ پاکستان کی ابتدائی روایت کے مطابق ہو جائے گا ‘ جسے ایک سربراہ حکومت نے ذاتی انا کی تسکین کیلئے ایک برس کم کر دیا تھا۔
تازہ ترین