(تحریر:اینڈریو لی لیکو)
تقریباً سب ہی لوگوں نے جونہی یہ حقیقت جان لی کہ کولمبس کایہ یقین کرلینا کہ وہ 1492میں انتہاء مشرق پر پہنچ گئے تھے،غلط تھا تو ان لوگوں نے حقیقی طورپر اس تک پہنچنے کے لئے ایک راستے کی تلاش شروع کردی تاکہ وہ مغرب کی جانب سے امریکا ز(شمالی وجنوبی دونوں براعظم امریکا)سے گزرکر اسپائس آئی لینڈز(جزائر)،چین اورہندوستان تک بحری سفرکریں۔
انگلستان کے بادشاہ ہنری ہفتم نے 1497 امریکا زسے گزرکرشمال کی جانب ایسا ایک راستہ ’’ شمال مغربی راہداری‘‘یعنی بحری گزرگاہ تلاش کرنے کا پہلا باضابطہ اقدام کیاتھا۔یہ کام آسان نہ تھا۔
چارصدیوں تک لوگوں نے اس کی تلاش جاری رکھی اوراس دوران وہ مرتے رہے۔وقت یوں ہی گزرتا گیا،یہاں تک کہ بالآخر 1903-1906میں رولڈایمنڈسن(انٹارکیٹیکا کے قطب جنوبی کے اسکاٹ لینڈباشندوں کو شکست دینے والے کے طورپر برطانیہ میں انتہائی معروف شخصیت)نے پہلی باراس بحری مہم جوئی کی قیادت کرتے ہوئے اس راہداری کو بحری جہاز کے ذریعے کامیابی کے ساتھ فتح کرلیا تھا۔
جاپان میں جدید ترقی صرف ایسی ترغیبات میں اضافہ کرے گی۔خواہ یہ گلوبل وارمنگ کے ذریعے ہو یا جدید ٹیکنالوجی کی بدولت،اس شمالاً جنوباً (سمندری)راہداری کا ممکنہ طوپر کھل جانا اسکریو پروپیلر (ہواکش پنکھا)کے متعارف کرائے جانے کے بعد سے سمندری تجارت کے حوالے سے ایک انتہائی نمایاں واقعہ ہوگا ۔
کینیڈاکی حکومت نے 1956 میں اس ’’نارتھ ویسٹ پے سج‘‘ کو ’’کینیڈاکی ریاستی حدود میں واقع سمندری علاقہ قراردیا‘‘۔لیکن چند برسوں کے دوران ہی یہ بات وضح ہوگئی کہ امریکا اس پر راضی نہیں تھا۔1969 میں یہاں سے پہلی تجارتی مہم جوئی ہوئی تھی اوراس کے ساتھ ہی اس پر پہلا تنازع سامنے آیا۔
1969 میں امریکی بحری جہازایس ایس مین ہٹن، امریکی کوسٹ گارڈکے دو آئس بریکر( سمندری برف توڑنے والے جہاز)کے ساتھ ،کینیڈاکی حکومت سے اجازت لیے بغیر مشرق سے مغرب کی جانب اس شمال مغربی بحری راستے پر سفرکیا،Prudhoe Bay (پروڈو بے(خلیج پروڈو،ریاست الاسکا)پر اس جہاز پرصرف ایک بیرل خام تیل لوڈ کیا گیا اورپھر اسے واپس لایا گیا،جس کا مقصد Prudhoe Bayمیں اس وقت کے تازہ دریافت شدہ تیل کے ذخائر سے تیل لے جانے کے قابل عمل ہونے کو معلوم کرنا تھا،بجائے اس کے کہ ٹرانس الاسکا پائپ لائن بچھائی جائے۔
1985 میں ایک بارپھر امریکی کوسٹ گارڈکے آئس بریکر،دی پولر سی،نے کینیڈاکی اجازت کے بغیر اس شمالاًجنوباًبحری راہداری میں گشت شروع کیا۔کینیڈاکے رپورٹرزنے جب امریکی حکومت سے پوچھا کہ اس نے اجازت کیوں طلب نہیں کی توامریکا نے جواب دیا کہ اسے اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ راہداری ایک بین الاقوامی سمندری راستہ ہے۔
1986 میں کینیڈانے اس سمندری علاقے پر اپنے دعوے کا اعادہ کیا اورامریکا نے کینیڈاکے اس نقطہ نظرکو مسترکردیا۔اس تنازع کے شدت اختیار کرنے سے بچنے کے لئے ،1987 میں امریکی صدرریگن اوروزیراعظم برائن ملرونی نے ذاتی طورپر ملاقات کرکے اس مسئلہ پر تبادلہ خیال کیا،جس کے نتیجے میں 1988 کاآرکٹیک تعاون معاہدہ ہوا،جس میں انتہائی چالاکی سے مشترکہ اعلامیہ شامل کیا گیا ۔
جس میں کہا گیا کہ بحیرہ آرکیٹیک میں امریکی کوسٹ گارڈکے بحری جہازہمیشہ سے تحقیقی عمل،ایک ایسی سرگرمی جس میں بحری جہاز وں کو بین الاقوامی سمندروں میںآرپار جانے( سروے کرنے) کی اجازت نہیں دی جاتی،کے نتیجے میں امریکی کوسٹ گارڈ کے بحری جہازوں کو ’’نارتھ ویسٹ پے سج‘‘میں آرپارجانے کے لئے لازمی طورپر اجازت لینی چاہئے خواہ امریکا اپنے اس دعوے سے دستبردارنہیں ہوتا۔
1970 کے اوائل میں ،اس تنازع کے ابتدائی دنوں میں ،دیگربہت سے ممالک کینیڈا کی طرف داری کرتے ہوئے دیکھے گئے۔لیکن اس وقت یہ معاملہ ایک اصول کے نقطہ نظرسے وسیع تناظرمیں دیکھا گیا۔وہ اصول یہ کہ اس شمال مغربی راہداری کے ذریعے تجارتی آمدورفت برف کی وجہ سے محدودہواکرتی تھی۔
1985 میں ایک بارپھر امریکی کوسٹ گارڈکے آئس بریکر،دی پولر سی،نے کینیڈاکی اجازت کے بغیر اس شمالاًجنوباًبحری راہداری میں گشت شروع کیا۔کینیڈاکے رپورٹرزنے جب امریکی حکومت سے پوچھا کہ اس نے اجازت کیوں طلب نہیں کی توامریکا نے جواب دیا کہ اسے اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ راہداری ایک بین الاقوامی سمندری راستہ ہے۔
بہر کیف ،1980کے وسط سے2000 کے اوائل تک گلوبل وارمنگ(عالمی درجہ حرارت میں اضافہ)کے باعث کافی لوگوں کو یہ پیشگوئی کرنے کا ادراک ہواکہ بحر آرکٹیک ماضی کے مقابلے میں بڑی حد تک تیزی کے ساتھ آمدورفت کا قابل ہوجائے گا،نتیجتاًیورپی یونین بھی اس معاملے میں شامل ہوگیا،جس کی پوزیشن ا س کے 2008 میں ’’کمیونیکیشن فرام دی کمیشن ٹو دی یورپین پارلیمنٹ اینڈ دی کونسل ‘‘میں ترتیب دی گئی۔اس قسم کا موقف کم یا زیادہ امریکا کی طرفداری والا تھا،(اگرچہ اس ضمن میں کچھ،غالباً سوچا سمجھا،ابہام پایا جاتا ہے)۔
میں ذاتی طورپر ریاست ہائے متحدہ (برطانیہ) کے اس ضمن میں الگ سے موقف کے بارے میں نہیں جانتا،آزادانہ طورپر یورپی یونین کا نقطہ نظر،اگرچہ کسی حد تک بلاشہ ایک خفیہ موقف پر مبنی دستاویز 285 کے زیریں حاشیہ سے معلوم ہوتاہے جسے کسی تاریک گوشے میں چھپاکر رکھا گیا ہے۔
ہمارا(برطانوی)قومی سطح پر موقف جو بھی ہو،کیا اسے ہونا چاہئے،وسیع ترتناظرمیںیہ کینیڈاکے دعوے کے اس انداز سے وسیع طورپرہمددردانہ ہوناچاہئے جو اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ ہم تیزی سے اپنے وسیع ترہمدردی کو اس کی مکمل حمایت میں تبدیل کردیں گے بشرطیکہ اگرکینیڈادیگرمحاذ مثلاًتیزی سے انجام کی جانب بڑھتے ہوئے پس از بریگزٹ تجارتی معاہدے اوردیگر جیو اسٹرٹیجک محاذوں پر ہماری طرفداری کرنے کا کام خود مناسب طورپر دوست بن کر دکھائے۔
یہ کوئی غیر اہم کام نہیں،کیونکہ معیاری بین الاقوامی سمندری قانون باضابطہ اعلان جنگ کے سوا فوجی مشقوں میں غیر ملکی جزائرکے گردبحری دستوں کی سرگرمیوں کے لئے اہم ہے۔لیکن ہم کینیڈین حکام کے اس موقف سے اتفاق کرسکتے ہیں کہ اس شمالی مغربی راہداری کے معاملے میں خصوصی عوامل کارفرما ہیں۔
اگر، جیسا اس وقت دکھائی دیتا ہے،سطح مرتفع کا پندرہ سالہ درجہ حرارت اپنے اختتام کے قریب پہنچ چکا ہواورگلوبل وارمنگ دوبارہ شروع ہوگیا ہو،تو ہم اس راہداری کی با آسانی قابل آمدورفت سمندری راہ گزر بن جاننے کی توقع کرسکتے ہیں۔
حتی ٰ کہ اگر مزید گرم کرنے کے لئے کوئی چیز موجود نہیں یا اگرموسمیاتی تبدیلی سے اس راہداری کی موجودہ آمدورفت میں اضافہ نہیں ہوتا ،اس ضمن میں مزید ایسی بے شمار ترغیبات ہوں گی جن کی مد دسے اس راہداری سے بحری جہازوں کے گشتی حجم( گزرنے کی تعداد)میں بڑی حدتک اضافہ ہوگا۔
(شایدیہ کام سمندری برف توڑنے کے لئے پہلے کی نسبت بہتر بنائے گئے یعنی ترقی یافتہ تکنیک اورٹیکنالوجی کے استعمال سے کیا جاسکتا ہے)۔
جیسا کہ چین کی ترقی یورپ اورچین اور امریکا کے مشرقی ساحل اورچین کے درمیان سامان کی تجارت کو کئی گنا بڑھادیتا ہے۔
جاپان میں جدید ترقی صرف ایسی ترغیبات میں اضافہ کرے گی۔خواہ یہ گلوبل وارمنگ کے ذریعے ہو یا جدید ٹیکنالوجی کی بدولت،اس شمالاًجنوباً(سمندری)راہداری کا ممکنہ طوپر کھل جانا اسکریو پروپیلر (ہواکش پنکھا)کے متعارف کرائے جانے کے بعد سے سمندری تجارت کے حوالے سے ایک انتہائی نمایاں واقعہ ہوگا ۔
دراصل،اس شمالی مغربی راہداری کے تناز ع میں برطانیہ اورکینیڈاکا معاہدہ ایک وسیع تر جیو اسٹرٹیجک معاہدے کا اہم حصہ بناسکتا ہے،جو باہمی مفاد سے متعلق مسائل بشمول موسمیاتی تبدیلی ،انٹرنیشنل فنانشل ریگولیشن، پٹینٹ ایکسٹینشنز برائے دواساز ادارے، ریگولیشن آف انٹرنیٹ اورخلا کا تجارتی استحصال ،عسکری اورسیکورٹی امور سے متعلق موجودہ تعاون کو مستحکم کرنا ،نیٹو اوردی’’فائیو آئیز‘‘پارٹنرشپ کے ذریعے، جوکینیڈاکے ساتھ ایک نئی خصوصی شراکت داری بنانے کے لئے ہو،کا احاطہ کرسکتا ہے۔
دوستوں کا ہونا ایک اچھا عمل ہے۔برطانیہ کے لئے کینیڈازیادہ فطری دوستوں میں سے ایک ہے۔کینیڈاکو اس شمالی مغربی راہداری(سمندری گزرگاہ)کے تنازع میں دوستوں کی ضرورت ہے،یہ تنازع دنیا میں جغرافیائی سیاسی تنازعات میں سب سے زیادہ تجارتی اہمیت والے تنازع کا رخ اختیار کرسکتا ہے۔
اب جبکہ ہم(برطانیہ) یورپ سے الگ ہورہے ہیں توہمیں چاہئے کہ ہم اس معاملے پر اپنا ایک آزادانہ موقف تیارکریں۔اگرکینیڈیں حکام .خاطرخواہ دوستانہ طرزعمل کا اظہار کرتے ہیں تو آئیے کہ ہم ا ن کا ساتھ دیں ۔