نثار اعوان
سینیٹ انتخابات نے جہاں اور بہت سی باتیں منکشف کی ہیں ، وہاں پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری کے دائو پیچ کی اہمیت بھی اجاگر کردی ہے۔ اپنی طے شدہ سیٹوں سے زائد سینیٹ کی نشستیں جیت لینا مستقبل کے حوالے سے آصف علی زرداری کی حکمت عملی کو ایک نئے امکان سے ہمکنار کر گیا ہے۔ دوسری طرف پنجاب میں مسلم لیگ ن کی ایک نشست کا ’’اچک‘‘ لیا جانا بھی سیاسی طور پر مسلم لیگ ن کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا گیا ہے۔
نواز شریف کے لندن میں مستقل میزبان اور دیرینہ ساتھی زبیر گل کا پنجاب سے سینیٹ الیکشن میں ہار جانا ایک ایسا واقعہ ہے کہ جسے شاید حود نواز شریف بھی آسانی سے ہضم نہیں کر پائیں گے۔ تحریک انصاف کے چوہدری محمد سرور نے کیسے 14 زائد ووٹ لئے اور جب مسلم لیگ ن نے واضح طور پر سینیٹر کیلئے 48 اراکین کا گروپ بنا دیاتھا تو پھر یہ کیسے ہوا کہ مسلم لیگ ن کا کوئی بھی امیدوار 42 سے زائد ووٹ حاصل نہ کرسکا اور رانا محمود الحسن 40 ووٹ لے کر بڑی مشکل سے سینیٹر منتخب ہوئے جبکہ چوہدری محمد سرور نے سب سے زیادہ 44 ووٹ لئے ، حالانکہ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے کل 30 ووٹ تھے۔
یہ نمبر گیم اوپر نیچے کیسے ہوئی اور جنوبی پنجاب کے ارکان اسمبلی نے طے شدہ منصوبے سے ہٹ کر زبیر گل کی بجائے رانا محمود الحسن کو ووٹ دیئے اور اپر پنجاب کے 48 اراکین اسمبلی جن کو رانا محمود الحسن کیلئے پابند کیا گیا تھا ان میں سے اکثریت ووٹ دینے کیلئے آمادہ نہ ہوئی۔ یوں اس کشمکش کا فائدہ تحریک انصاف نے اپنی بہتر حکمت عملی اور منصوبہ سازی کے ذریعے اٹھایا اور چوہدری محمد سرور ن لیگ کے ووٹ نکالنے میں کامیاب رہے۔
دلچسپ اعداد یہ بھی ہیں کہ اکثر ووٹرز نے زبیر گل کو دوسری ترجیح میں رکھا جس کی وجہ سے وہ مات کھا گئے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ملتان کی مقامی سیاست کی وجہ سے یہاں مسلم لیگ ن کے ایک گروپ کی حتی المقدور کوشش تھی کہ کسی طرح رانا محمود الحسن کو سینیٹر بننے سے روکا جائے۔
ذرائع کے مطابق اس گروپ کی وجہ سے بھی رانا محمود الحسن کو کم ووٹ پڑے اور جنوبی پنجاب کے کچھ ایم پی ایز نے چوہدری محمد سرور کو ووٹ دیا۔ بہرحال 11 سینیٹرز کی سیٹیں لینے کے باوجود اس ایک سیٹ نے مسلم لیگ ن کی ساری خوشی پر پانی پھیر دیا اور پہلی بار پنجاب اسمبلی سے تحریک انصاف اپنا سینیٹر بنوانے میں کامیاب رہی ، حالانکہ انتخابات سے پہلے سب اس بات کو مذاق سمجھ رہے تھے کہ تحریک انصاف نے چوہدری محمد سرور کو پنجاب سے سینیٹ کا ٹکٹ دے کر سوائے ان کی جگ ہنسائی کے کوئی اور کام نہیں کیا مگر اب اس نشست پر چوہدری محمد سرور نے کامیابی حاصل کرکے تحریک انصاف کے کارکنوں کا مورال انتہائی بلند کردیا ہے اور وہ مایوسی جو لودھراں کی شکست کے بعد نظر آ رہی تھی وہ اس فتح کے بعد بڑی حد تک زائل ہوچکی ہے۔
جہاں تک پیپلزپارٹی کے کارکنوں کا تعلق ہے اگرچہ پیپلزپارٹی پنجاب سے کوئی نشست حاصل نہیں کرسکی لیکن مجموعی طور پر پیپلزپارٹی کی کامیابی نے کارکنوں میں ایک نئی امید پیدا کردی ہے۔ خاص طور پر آصف علی زرداری کے اس دعوے کو تقویت ملی ہے کہ پیپلزپارٹی آئندہ انتخابات میں نہ صرف مرکز بلکہ پنجاب میں بھی بڑی کامیابی حاصل کرکے حکومتیں بنائے گی۔
ویسے تو سینیٹ کے انتخابات اور عام انتخابات میں بہت فرق ہوتا ہے۔ یہاں چند سو ارکان کو کنٹرول کرنا مقصود ہوتا ہے جبکہ عام انتخابات میں کروڑوں لوگ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں تاہم جو جادوگری آصف علی زرداری نے سینیٹ انتخابات میں دکھائی ہے۔
ادھر تحریک انصاف نے ایک نئے انداز سے رابطہ عوام مہم شروع کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے اور اس منصوبے کے دو واضح مقاصد نظر آتے ہیں۔ پہلا مقصد تو یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو باقاعدہ تحریک انصاف میں شامل کیا جائے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ ہر قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقے میں جس طرح امیدواروں کی ایک لائن لگی ہوئی ہے ان کی شارٹ لسٹنگ کی جائے۔
پارٹی ذرائع کے مطابق چیئرمین تحریک انصاف کی جانب سے ہدایات جاری کردی گئی ہیں کہ جو کوئی قومی اسمبلی کا امیدوار بننا چاہتا ہے وہ 4 ہزار افراد کے مکمل کوائف ، ان کی آمادگی کا ثبوت اور پارٹی کیلئے ان کی وابستگی کے ضمن میں معلومات فراہم کرے۔
اس سلسلے میں ہر قومی اسمبلی کے امیدوار کو 4 ہزار ممبر شپ فارم جمع کئے جائیں گے اور ایک فارم کی قیمت 50 روپے ہوگی۔ فارم کو کمپیوٹرائزڈ نظام کے ذریعے پارٹی کے ڈیٹا میں فیڈ کیا جائے گا اور اس کے بعد متعلقہ ممبر کو پارٹی کی طرف سے ممبر شپ کارڈ بھی جاری ہوگا۔
اس سلسلے میں فرضی کوائف سے بچنے کیلئے تمام معلومات کی کمپیوٹر سافٹ ویئر سے تصدیق کی جائے گی یہ بھی دیکھا جائے گا کہ قومی اسمبلی کے امیدوار نے جو 4 ہزار ممبر بنائے ہیں وہ اس کے حلقہ کے تمام حصوں کی نمائندگی کرتے ہیں یا ایک ہی علاقہ سے انہیں منتخب کرلیا گیا ہے۔
اسی طرح صوبائی اسمبلی کے امیدوار کیلئے 2 ہزار ممبر بنانے کی شرط رکھی گئی ہے اور ان سب کا ڈیٹا بھی مرکزی آفس میں محفوظ کیا جائے گا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس وقت تحریک انصاف وہ جماعت ہے جس میں امیدوار کی بڑی تعداد خودساختہ طور پر سامنے آچکی ہے اور یہ وہ مسئلہ ہے جو انتخابات کے موقع پر پارٹی قیادت کیلئے درد سر بن سکتا ہے۔
شاید اس مشکل سے بچنے کیلئے یہ منصوبہ بندی کی گئی ہے مگر اس میں ایک اور مسئلہ بھی کھڑا ہوسکتا ہے کہ وہ ارکان اسمبلی جو مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ اس شرط پر ہی شامل ہوئے ہیں کہ انہیں پارٹی ٹکٹ جاری کیا جائے گا تو کیا رکنیت سازی کی یہ شرط ان پر بھی لاگو ہوگی یا انہیں استثنیٰ دے دیا جائے گا۔
اگر ایسا ہوا تو وہ لوگ جو ایک عرصہ سے مختلف حلقوں میں خود کو امیدوار کے طور پر متعارف کرا رہے ہیں ، کیا پارٹی کی اس پالیسی سے اتفاق کریں گیا یا ان میں ایک مزاحمت پیدا ہوگی۔ اس سوال کا جواب آنے والے کچھ عرصہ میں خود بخود آجائے گا۔