لاہور(نمائندہ جنگ)چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ارکان پارلیمنٹ کی دہری شہریت کے خلاف از خود کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ یہ ہیں پاکستان کے نمائندے وہاں فائدہ ہوا تو وہاں کی شہریت لے لی، یہاں کی موجیں دیکھیں تو واپس آگئے، انتخاب سے دو دن پہلے وطن کی محبت یاد آگئی۔ دہری شہریت کا فیصلہ 2012میں آیا، ان کی نااہلی تو پھر تب سے شروع ہونی چاہیے۔عدالت نے دہری شہریت کے حامل سینیٹرز سے بیان حلفی طلب کر لئے، عدالت نے سینئر قانون دانوں خالد خان اور بلال منٹو کو عدالتی معاون مقرر کر دیا ۔عدالت نے کیس کی سماعت 13مارچ تک ملتوی کی تاہم عدالتی وقفہ کے بعد عدالت نے اس کیس کی دوبارہ سماعت کی اور ریمارکس دیئے کہ 12مارچ کو چیئرمین سینٹ کے الیکشن ہو رہے ہیں اور عدالت نہیں چاہتی کہ کوئی اہل رکن اس میں حق رائے دہی انجام دینے سے محروم ہو جائے۔اس لئے عدالت اب اس کیس کی سماعت 13 مارچ کی بجائے 10مارچ کو لاہور میں کرے گی۔ دہری شہریت از خود نوٹس کیس کی سماعت سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں قائم تین رکنی فل بنچ نے کی۔بنچ کے دیگر ارکان جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن تھے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے افسوس کا اظہار کیا کہ دہری شہریت کے حامل افراد بھی پارلیمنٹ کے رکن رہ چکے ہیں۔سماعت کے دوران تحریک انصاف کی رہنما عندلیب عباس نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم کی بہن سعدیہ عباسی اور نزہت صادق پانچ پانچ سال دہری شہریت کے ساتھ پارلیمنٹ کی رکن رہیں اب پارلیمنٹرین بننے کے لیے دہری شہریت چھوڑنے کا فیصلہ کیا، ہمارے حقوق سلب کئے جارہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا ہم آپ کے حقوق کے تحفظ کے لئے بیٹھے ہیں اسی لئے سوو موٹو لیا ہے۔دہری شہریت کا فیصلہ 2012میں آیا، ان کی نااہلی تو پھر تب سے شروع ہونی چاہیے۔ سعدیہ عباسی اور نزہت صادق کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ اس کیس کی سماعت جلدی کرلی جائے،حلف برداری ہونی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نوٹیفکیشن جاری ہوگا تو حلف برداری ہوگی۔عدالت کے روبرو تحریک انصاف کے رہنماچوہدری سرور بھی پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ انہوں نے 2013 میں برطانوی شہریت چھوڑ دی تھی ،جس پر عدالت نے انہیں بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیا ۔