• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسا وقت کبھی کبھار آتا ہے، جب کوئی منتخب ادارہ اپنی اہمیت اور عظمت منوا سکتا ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کا سوموار کو انتخاب بھی ایک ایسا ہی تاریخی مرحلہ ہے جب اس کی حمیت کو چار چاند لگ سکتے ہیں یا پھر اس کے مقدر میں ایک اور گرہن لگنے کو ہے۔ کیا ہر ایک شاخ پہ اچھل کود کرتے بندر طوفانِ ہزیمت کا سامان بنیں گے یا پھر سینیٹ میں موجود سنجیدہ قوتیں اُنہیں اپنے اُسترے فراہم کرنے کی بجائے کسی قابلِ احترام اور قابلِ قبول شخص پر اعتبار کر کے سینیٹ کے ادارے کو تکریم بخشیں گی۔ سینیٹ کے انتخابات سے قبل جو سیاسی و قانونی دھاندلی ہوئی اور جس طرح ایک جماعت کی بلوچستان میں تقریباً تمام پارلیمانی پارٹی اغوا ہوئی اور مسلم لیگ ن بطور جماعت انتخابی عمل سے بے نشان ہوئی وہ ہم دیکھ ہی چکے۔ پارٹیوں کے اندرونی انتشار، نئی گٹھ بندیوں اور مال کی ریل پیل نے جو گُل کھلائے وہ بھی ہماری نظروں سے محو نہیں۔ بہت دھول اُڑی اور اُڑائی گئی اور اس میں جس کا جہاں ہاتھ پڑا سیٹیں اُڑا لے گیا۔ اب ان گناہوں کی سزا کے طور پر 16 ایسے سینیٹرز ہیں، جو اوّل تو اکٹھے ہونے کو نہیں اور اگر ہوئے بھی تو سیاسی جماعتوں کی تذلیل کا باعث بن کر۔ مسلم لیگ ن، نیشنل پارٹی، پختون خوأ ملی عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام ف نے 48 نشستوں کے ہوتے ہوئے بھی سینیٹ کے جانے والے چیئرمین رضا ربانی کا نام متفقہ اُمیدوار کے طور پر پیش کر کے نہایت بُردباری کا مظاہرہ کیا تھا۔ لیکن، ایک زرداری سب پہ بھاری نے جو پارلیمانی اعزاز پیپلز پارٹی کو ملنے والا تھا کو حقارت سے ٹھکرا کر جو خلجان پیدا کیا ہے، اُس پر تقریباً تمام جمہوریت پسند منہ میں انگلیاں دبا کے رہ گئے ہیں۔ پھر کیا تھا، اعداد کا ختم نہ ہونے والا کھیل اور آزاد سینیٹرز کی اُلٹ بازیاں۔ اوپر سے عمران خان بھی کہاں نچلے بیٹھنے والے تھے۔ پہلے تو وہ نواز شریف مخالف محاذ کو آصف زرداری کی گود میں جاتا دیکھ کر ایسے بھونچکے ہوئے کہ درونِ خانہ ہتھیار پھینکنے پہ مجبور تو ہوئے لیکن شرم نے ایسا نہ کرنے دیا۔ اب اُنہوں نے اپنا اُسترا بلوچستان اور فاٹا کے آزاد پنچھیوں کے حوالے کر کے زرداری کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ زرداری کے لئے کیا مشکل ہے کہ وہ کوئی ایک پنچھی بلوچستان سے اور کوئی دوسرا فاٹا سے میدان میں اُتار کر پھر سے عمران خان کو مات دے دیں، لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہر آزاد منش اپنی اپنی موج میں رواں ہے اور اس میں بھی بھاؤ تاؤ ایسا لگنا ہے کہ چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ اور ایسی مٹی پلید ہونی ہے کہ بہت سے لوگ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
قابلِ قدر پارلیمانی روایات کا کچھ تو پاس ہو اور سینیٹ کے چیئرمین کو وفاقی اکائیوں کے ایوان کا پاسبان سمجھا جائے تو پارٹی اختلافات سے ماورا ہو کر اتفاقِ رائے پیدا کر لینے میں ہی پارلیمان کی بچی کھچی عزت کو بٹہ لگنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ سبھی لوگوں کا (سوائے زرداری کے) اگر کسی شخص پہ اجماع ہے تو وہ ہیں چیئرمین سینیٹ رضا ربانی۔ اس تجویز نے جوڑ توڑ کی محلاتی سازش کو اخلاقی مات تو دی، لیکن یہ اگلے انتخابات کے لئے ہونے والی نئی صف بندیوں سے لگا نہیں کھا پا رہی۔ زرداری صاحب نے سارے پاپڑ اس اُصول پسند اور فقیر منش ربانی کی آبرو سے فیضیاب ہونے کے لئے تو نہیں پیلے تھے۔ وہ سینیٹ کے انتخاب کو آئندہ انتخابات میں اُبھرنے والے شریف مخالف محاذ کا نقطہ آغاز بنانے پہ مصر ہیں کہ فرینڈلی اپوزیشن ہونے کی طویل سُبکی سے جاں خلاصی ہو اور وہ دوسرا متبادل بن کر سامنے آئیں۔ اُن کا سیاست کا نظریہ پی پی پی کے عوامی سیاست کے نظریے سے مختلف ہے اور وہ اسے اقتدار حاصل کرنے کا ایسا کھیل سمجھتے ہیں جس کا کسی مقصد و نظریے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ مصالحت کی عملیت پسندی بھی اسی طرزِ سیاست کا پر تو تھی اور اب اگلے انتخابات میں بچے کھچے فیوڈل عناصر کو جمع کرتے وہ پھر سے ریپبلکن پارٹی کی روایت زندہ کرنا چاہتے ہیں، بھلے بلاول بھٹو کی ’’سوشل ڈیموکریسی‘‘ کی ہٹی پہ تالا ہی کیوں نہ لگانا پڑے۔ زرداری صاحب کے پاس پورے پتے ہیں نہیں تو وہ تاش کیسے کھیل پائیں گے۔ جس بدسلوکی کا ربانی صاحب کو نشانہ بنایا گیا، اُس سے مایوس ہو کر وہ سینیٹر کا حلف نہ اُٹھانے اور مستعفی ہونے کی جانب مائل تھے، لیکن جانے ان جیالوں پر ابھی تک بھٹوز کا ایسا عشق سوار ہے کہ بلاول بھٹو سے ملاقات کے بعد اب ربانی پھر سے میدان میں ہیں۔ زرداری پتے پورے نہ کر پائے تو پھر اولڈ گارڈز سے رجوع کے سوا کوئی چارہ نہ بچ رہے گا۔
سینیٹ کو جو اہمیت وفاقی جمہوری نظام میں حاصل ہے، وہ پرانی وحدانی مرکزیت پسند سوچ اور مفادات کے ہاتھوں پنپ نہیں پائی۔ جو بات کھل کر سامنے آئی ہے وہ ہے اس کا طریقۂ انتخاب جسے بدلنے کی یکسر ضرورت ہے۔ بہتر ہوگا کہ پارٹی فہرست کی بنیاد پر متناسب نما ئندگی کے مطابق ہر پارٹی کو ہر صوبے میں ملنے والے ووٹوں کی شرح کے مطابق نشستیں مل جائیں۔ سینیٹ کو مالی اور اُن تمام وفاقی معاملات پر بھرپور کردار دیا جائے جو وفاقی اکائیوں میں ناہمواریوں کو دُور کر سکے۔ سینیٹ کے آخری اجلاسوں میں بااُصول جمہوریت پسند سینیٹرز نے جمہوریہ کو درپیش چیلنجوں کی صحیح نشاندہی کی ہے۔ خاص طور پر سینیٹر فرحت اللہ بابر نے جن تین چیلنجوں کا ذکر کیا ہے، اگلی پارلیمنٹ کو ان سے نپٹنا ہوگا: عدلیہ و انتظامیہ اور مقننہ میں اختیارات کے دائرۂ کار کا مسئلہ، حقیقی جمہوری اختیار اور غیرقانونی بالادستی کا قضیہ اور سول ملٹری تعلقات کو آئین کے مطابق استوار کرنے کی ضرورت تاکہ اداروں کا ٹکراؤ ختم ہو اور وفاق کی سلامتی کے لئے اٹھارہویں ترمیم کا تحفظ۔ فرحت اللہ بابر کا مدعا فقط یہ ہے کہ عوام کی حکمرانی کے اُصول کو تسلیم کیا جائے اور عوامی منشا کی غماز صرف پارلیمنٹ ہے۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے سینیٹ کے حوالے سے جن معاملات کو اُٹھایا ہے، وہ نہایت قابلِ غور ہیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی اور ہر ادارے کے اپنے اپنے متعین دائرے میں کام کو یقینی بنانے کے لئے جو تاریخی رولنگ اُنہوں نے دی ہے، اُسے آئینی و قانونی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ وفاقی اداروں، مشترکہ مفادات کونسل، مالیاتی امور، ترقیاتی پروگراموں، ذرائع رسل و رسائل، آبی و معدنی ذرائع اور دیگر بین الصوبائی امور میں سینیٹ کے جس نگران کردار کا اُنہوں نے ذکر کیا ہے، اُس پر نئی سینیٹ کو پیش قدمی کرنی چاہیے۔ سینیٹ میں بلوچستان اور فاٹا سے چیئرمین لانے سے کوئی بڑا فرق پڑنے والا نہیں اور خاص کر جیسے آزاد منشوں کے نام سامنے آ رہے ہیں۔ اصل سوال وفاقی اکائیوں کے ایوان کے طور پر سینیٹ کے دائرۂ اختیار کو وسعت دینے کا ہے۔ اگر ایسا کیا جائے تو وفاق مضبوط ہوگا اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا خواب بھی حقیقت بن پائے گا۔ ایسا وقت کبھی کبھار آتا ہے، جب کوئی منتخب ادارہ اپنی اہمیت اور عظمت منوا سکتا ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کا سوموار کو انتخاب بھی ایک ایسا ہی تاریخی مرحلہ ہے جب اس کی حمیت کو چار چاند لگ سکتے ہیں یا پھر اس کے مقدر میں ایک اور گرہن! کاش! ہمارے سیاستدان سینیٹ کے انتخاب کو احترام دے کر اپنی عزت بھی بڑھا سکیں!
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین