• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک اور ایمنسٹی : ’’غیر ملکی اثاثوں کے لیے ٹیکس ایمنسٹی‘‘ پر منعقدہ جنگ فورم کی رپورٹ

ایک اور ایمنسٹی : ’’غیر ملکی اثاثوں کے لیے ٹیکس ایمنسٹی‘‘ پر منعقدہ جنگ فورم کی رپورٹ

رپورٹ:طلعت عمران

عکّاسی:اسرائیل انصاری

ملک میں پانچ مرتبہ ایمنسٹی اسکیم لائی گئی اور تمام ریونیو بیسڈ تھیں، بیرونِ ملک منتقل ہونے والا سارا سرمایہ غیر قانونی نہیں، بد امنی کی وجہ سے بھی اثاثے بیرونِ ملک منتقل کیے گئے، ایمنسٹی اسکیم سے حکومت کو فائدہ ہو گا، اگر صرف بیرونِ ملک جائیدادوں کے لیے اسکیم لائی گئی، تو حکومت ٹیکس کیسے وصول کرے گی، اب لوگ ملک میں پیسہ لانا چاہتے ہیں، ایف بی آر سمیت دوسرے ادارے انہیں سہولتیں فراہم کریں، انڈونیشیا، بھارت اور جنوبی افریقا میں ایمنسٹی اسکیمز سے فائدہ ہوا، اسکیم سے متعلق بنائی گئی کمیٹی میں اسٹیک ہولڈرز کو بھی شامل کیا جائے، سرمایہ داروں کا اعتماد متزلزل ہے، اسے بحال کیا جائے، ٹیکس چوری سے بچنے کے لیے ٹیکس کی شرح کم کی جائے

زکریا عثمان

ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں سارا زور غیر ملکی اثاثہ جات ظاہر کیے جانے پر ہے، صرف ٹیکس ڈیفالٹرز کو تحفظ دیے جانے تک کو معاملہ ٹھیک ہے، لیکن ناجائز ذرائع سے کمایا گیا پیسہ منتقل کرنے والوں کو ایمنسٹی نہ دی جائے، اسکیم لانے کی بہ جائے پیسے کی بیرون ملک منتقلی روکی جائے، جب تک نظام تبدیل نہیں ہو گا، یہ سلسلہ جاری رہے گا، رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں بلیک منی کا عمل دخل بہت زیادہ ہے، پراپرٹی میں سرمایہ کاری بڑھنے سے ضرورت مند افراد اپنا گھر نہیں خرید پا رہے، اس کی روک تھام کی جائے، آف شور کے ساتھ آن شور اثاثوں پر بھی توجہ دی جائے، بیرون ملک سرمایہ کاری کی ایک حد مقرر کرنی چاہیے، ٹیکس پلاننگ کو پلاننگ کمیشن کے سپرد کیا جائے

نسیم بیگ

ایک اور ایمنسٹی : ’’غیر ملکی اثاثوں کے لیے ٹیکس ایمنسٹی‘‘ پر منعقدہ جنگ فورم کی رپورٹ

مجوزہ ایمنسٹی اسکیم میں صرف غیر ملکی اثاثوں پر توجہ دی جا رہی ہے،یہ مخصوص افراد کے لیے لائی جا رہی ہے، پورے معاشی نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، ماضی میں جب بھی اسکیم جبراً نافذ کرنے کی کوشش کی گئی، تو یہ ناکام رہی، اس بار بھی ایسا کیا گیا، تو اس کے معیشت پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے، ایمنسٹی اسکیم کا باقاعدہ نظام وضع کیا جائے اور اس کی نگرانی کی جائے، اینٹی منی لانڈرنگ قانون کو واضح کرنا چاہیے، ایف بی آر قوانین پر عملدرآمد نہیں کروا پا رہا، اس وقت بیرون ملک 120سے200ارب ڈالرز کے اثاثے موجود ہیں اور حکومت 2سے 10فیصد تک کی چھوٹ دے رہی ہے، یورپی ممالک میں سخت شرائط کی وجہ سے بھی لوگ اپنا سرمایہ ملک میں لانے پر مجبور ہیں، انہیں سسٹم میں لایا جائے اور یہ شرط عاید کی جائے کہ وہ اپنے 20سے25فیصد اثاثوں سے سرمایہ کاری کریں گے

اشفاق تولا

ان دنوں وفاقی حکومت کی جانب سے ایک مرتبہ پھر ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا بڑے زور و شور سے تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ تاہم، یہاں یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ ایمنسٹی اسکیم کن افراد کے لیے لائی جا رہی ہے؟ اس کے کیا مقاصد ہیں؟ کن شرائط پر معافی دی جائے گی اور اس کے نتیجے میں پاکستانی معیشت کو کیا فواید حاصل ہوں گے؟ نیز، ماضی میں ایمنسٹی اسکیمز کا کیا فائدہ ہوا اور ایک مرتبہ کے بہ جائے بار بار ایمنسٹی اسکیمز کیوں متعارف کروائی جاتی ہیں؟ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں ٹیکس دہندگان کا نقصان ہوتا ہے اور ہمارے ٹیکس کے نظام میں اس قدر خامیاں پائی جاتی ہیں کہ ٹیکس وصول نہیں ہو پاتا اور اس نظام میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔

 اس حوالے سے گزشتہ دنوں عارف حبیب سینٹر میں ’’ غیر ملکی اثاثہ جات کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں ایف پی سی سی آئی (وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت) کے سابق صدر، زکریا عثمان، عارف حبیب انوسٹمنٹ کے سی ای او، نسیم بیگ اور ٹیکس ریفارم کمیشن کے رکن، اشفاق تولا نے اظہارِ خیال کیا۔ ذیل میں فورم میں ہونے والی گفتگو پیش کی جا رہی ہے۔

جنگ :ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی شرح کیا ہو گی اور کیا حکومت اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی؟

اشفاق تولا :اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور دیگر مالیاتی اداروں کی جانب سے تیار کی گئی رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ ہمارے قوانین اس قدر کمزور ہیں اور ان میں اتنے سقم پائے جاتے ہیں کہ پاکستانی باشندے بہ آسانی اپنے اثاثے بیرونِ ملک منتقل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

 جب بھٹو کے دور میں نیشنلائزیشن ہوئی، تو 1972ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے اور واپس لانے کی ہدایت کی اور ساتھ ہی 45فیصد بونس دینے کا اعلان بھی کیاگیا۔ یعنی اس دور میں پاکستانی باشندوں پر غیر ملکی اثاثے رکھنے پر پابندی عاید کر دی گئی تھی، لیکن بد قسمتی سے اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا اور اثاثے ملک میں واپس نہیں آئے۔ 1992ء میں ’’پروٹیکشن آف اکنامک ریفارم ایکٹ‘‘ متعارف کروایا گیا اور اس میں کافی چھوٹ دی گئی۔

 1972ء میں نیشنلائزیشن کا چرچا تھا اور 1992ء میں لبرلائزیشن کا دور تھا، لیکن میرے خیال میں ملک میں اوور لبرلائزیشن کی گئی۔ یعنی غیر ملکی اکائونٹس کھولنے پر کوئی پابندی نہیں تھی اور نہ ہی اس بارے میں پوچھ گچھ کی جاتی تھی۔ 1998ء میں ڈالرز اکائونٹس منجمد کرنے تک یہ پالیسی جاری رہی اور جب اکائونٹس منجمد کیے گئے، تو لوگوں کا اعتماد متزلزل ہو گیا۔

بعدازاں اگرچہ اعتماد کی بحالی کے لیے کوششیں کی گئیں، لیکن اس کے اثرات باقی رہے اور آج بھی لوگ اعتماد کرنے پر آمادہ نہیں۔ 2001ء میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس سعید الزماں صدیقی کے سامنے ارشاد احمد شیخ بخلاف ریاست ایک مقدمہ پیش کیا گیا، تو عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ اگر کسی مجرمانہ فعل کو تحفظ دینے کے لیے ’’پروٹیکشن آف اکنامک ریفارم ایکٹ‘‘ کا سہارا لیا جائے گا، تو یہ قابلِ قبول نہ ہو گا۔ 

پھر ایک ایف ای 12سرکولر جاری کیا گیا کہ اہلِ خانہ کی کفالت اور بچوں کی تعلیم سمیت دیگر پانچ مقاصد کے لیے ترسیلاتِ زر بھیجی جا سکتی ہیں، لیکن اس کے 15روز بعد ہی ’’فارن اکائونٹس کرنسی آرڈینینس 2001ء‘‘ جاری کیا گیا اور اس کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر چھوٹ دے دی گئی۔ نائن الیون کے بعد پاکستانیوں نے بیرونِ ملک پیسہ منتقل کرنے سے اجتناب کرنا شروع کر دیا، جس کے نتیجے میں ہماری معیشت مستحکم ہوئی۔ ماضی میں جب بھی ایمنسٹی اسکیم جبری طور پر نافذ کرنے کی کوشش کی گئی، تو یہ ناکام ہوئی اور بیرونِ ملک رقم منتقلی کا سلسلہ جاری رہا۔

 پھر قانون میں بھی تبدیلیاں کی جاتی رہیں اور ہمارے قانون کے مطابق 5سے 6برس پرانے اثاثوں کی چھان پھٹک نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں پورے نظام کو تبدیل کرنا ہے، لیکن اس کی بہ جائے غیر ملکی اثاثوں پر توجہ دی جا رہی ہے اور اگر ٹکڑوں ٹکڑوں میں کوئی کام کیا جا رہا ہے، تو مستقبل میں اس کے معیشت پر بہت منفی اثرات مرتّب ہوں گے۔ میں نے اور زکریا عثمان نے 2006ء میں ایک رپورٹ تیار کی تھی، جس میں یہ بتایا تھا کہ اگر پراپرٹی کی قیمت کم کر دی جائے اور اسے مارکیٹ ویلیو کے مساوی کر دیا جائے ،تو اس کے ذریعے گرے منی کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک پلاٹ کی مالیت 10کروڑ ہے، تو اس کی ڈی سی ویلیو 1کروڑ ہے اور مجھے 9کروڑ روپے گرے کرنسی میں ادا کرنا پڑیں گے۔

 صرف فارن اکائونٹس کو دستاویزی شکل دینا ایسا ہی ہے کہ کرپشن کی کھڑکیاں بند کر دی جائیں اور دروازہ کھلا رکھا جائے۔ فارن ایمنسٹی آنی چاہیے اور ریپارٹیشن بھی ہونی چاہیے، لیکن اس کے لیے باقاعدہ طریقۂ کار وضع کیا جانا چاہیے اور اس کی نگرانی بھی ہونی چاہیے۔ ماضی میں ایمنسٹی اسکیمز کے ناکام ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ان کی مانیٹرنگ نہیں کی گئی اور سیکنڈ رن نہیں دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق، نئی ایمنسٹی اسکیم میں انکم ٹیکس آرڈینینس کے 111 سب سیکشن4 کو کلپ کیا جائے گا اور یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس وقت جو95فیصد ترسیلاتِ زر ہو رہی ہیں، وہ ایک لاکھ ڈالر سے کم ہوتی ہیں، جبکہ میری رائے میں اس وقت ترسیلاتِ زر کی مد میں 5سے7ارب ڈالرز آ رہے ہیں۔ 

اگر اس پر قدغن لگائی گئی، تو ملکی معیشت پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوں گے، کیونکہ اس رقم سے ادائیگیوں میں توازن پیدا ہوتا ہے اور تجارتی خسارہ کم کیا جاتا ہے۔ ہم تین سال میں آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالرز قرضہ لینے جاتے ہیں اور اس کی تمام شرائط تسلیم کر لیتے ہیں اور ری پیمنٹ کے دوران بھی اس کا دبائو قبول کرتے ہیں۔ 

ایف بی آر کے تمام ٹیکس ریٹرنز کی چھان بین کی جانی چاہیے کہ بیرونِ ملک سے کتنی رقوم آ رہی ہیں۔ میری تحقیق کے مطابق، ایک ملین سے زاید کی مجموعی طور پر 7ارب ڈالرز کی ترسیلاتِ زر آ رہی ہیں۔ فارن کرنسی اکائونٹ کی ترسیلاتِ زر کو کلپ کر دیا جائے، لیکن انہیں بند نہ کیا جائے۔

جنگ :اس وقت حکومت کیوں ایمنسٹی اسکیم لا رہی ہے؟

اشفاق تولا :حکومت کا کہنا ہے کہ رقوم کی منتقلی بند کر دی جائے کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا، لیکن یہاں بھی حکومت کی حکمتِ عملی میں نقص پایا جاتا ہے اور اسے رقم کی بیرونِ ملک منتقلی کو روکنا چاہیے۔

 بھارتی حکومت نے یہ پالیسی بنائی ہے کہ کوئی بھی شخص 5لاکھ ڈالرز سے زیادہ رقم سے بیرونِ ملک سرمایہ کاری نہیں کر سکتا اور یہاں بھی ایسا ہی کر دیا جائے۔ اس وقت ایف بی آر اپنے قوانین پر عملدرآمد نہیں کروا پا رہا اور ہمیں اس نظام کو سدھارنا چاہیے۔ پھر اینٹی منی لانڈرنگ قانون کو واضح کرنا چاہیے اور ٹیکس کی چھوٹ اور اے ایم ایل میں فرق واضح کرنا چاہیے۔

جنگ :اس وقت بیرونِ ملک کتنے اثاثے موجود ہیں؟

اشفاق تولا :تقریباً 120سے 200ارب ڈالرز۔ ان میں سے زیادہ تر ناقابلِ انتقال اثاثے ہیں اور اگر قابلِ انتقال اثاثوں میں سے بھی 50فیصد ضمانت کے ساتھ واپس آتے ہیں، تو پھر کچھ سوچا جا سکتا ہے۔

جنگ :حکومت کتنے فیصد چھوٹ دے رہی ہے؟

اشفاق تولا :دو سے 10فیصد تک اور یہ بھی محدود مدت کے لیے ہیں، لیکن اس بارے میں کوئی زیادہ تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

ایک اور ایمنسٹی : ’’غیر ملکی اثاثوں کے لیے ٹیکس ایمنسٹی‘‘ پر منعقدہ جنگ فورم کی رپورٹ

جنگ :ایمنسٹی اسکیم کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت اور کاروباری برادری پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

زکریا عثمان :پاکستان میں پانچ مرتبہ ایمنسٹی اسکیم لائی گئی۔ سابق وزیرِ خزانہ محبوب الحق کے دور میں پہلی ایمنسٹی اسکیم لائی گئی تھی۔ اس کے بعد جتنی بھی ایمنسٹی اسکیمز لائی گئیں، وہ ریونیو بیسڈ تھیں، لیکن حکومت نے خود آمدنی میں اضافے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ لوگ ٹیکس اس لیے چوری کرتے ہیں کہ اس کی شرح بہت زیادہ ہے۔ دوسرا مسئلہ پراپرٹی کا ہے، جس میں 10فیصد خرچہ منتقلی پر آتا ہے اور اگر اسے دستاویزی شکل دی جائے، تو یہ معیشت کے لیے بہتر رہے گا۔ 

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیسہ باہر کیوں گیا؟ اس کا سبب ملکی حالات تھے اور گزشتہ دور حکومت میں سرمایہ داروں نے نہ صرف اپنا پیسہ بلکہ اپنے بچے بھی بیرون ملک بھیج دیے تھے۔

 سرمایہ کاروں نے بیرون ملک جائیداد میں سرمایہ کاری کی، کیونکہ اس میں منافع بہت زیادہ تھا۔ اگر بیرونِ ملک جائیدادوں کے لیے ایمنسٹی اسکیم لائی جاتی ہے، تو انہیں فروخت تو نہیں کیا جائے گا اور اگر اسے ڈکلیئر کر دیا جائے گا، تو حکومت ٹیکس کیسے لے گی، کیونکہ ڈبل ٹیکسیشن تو نہیں ہو سکتی۔ یہ بات درست نہیں ہے کہ بیرون ملک چوری کا پیسہ منتقل ہوا، بلکہ لوگوں نے خوف کی وجہ سے بھی بیرونِ ملک رقم منتقل کی۔ ایمنسٹی اسکیم سے حکومت کو فائدہ پہنچے گا اور مارکیٹ میں پیسہ بڑھے گا۔ 

انڈونیشیا، بھارت اور جنوبی افریقا سمیت بہت سے ممالک نے ایمنسٹی دی اور یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ اگر کسی شخص نے جائیداد بیچی اور اس کے پاس 10کروڑ روپے آگئے، تو اسے یہ رقم ظاہر بھی نہیں کرنے دی جاتی۔ اسی طرح اسٹاک ایکسچینج میں بھی بہت زیادہ پیسہ آیا۔ 1972ء میں جب درآمدات کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا، تو ملک میں نئی صنعتیں قائم ہوئیں۔ اس وقت چینی صنعت کاروں کو سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں، لیکن مقامی سرمایہ کاروں کو نہیں۔ 1968ء کے بعد ملک میں کوئی نئی انڈسٹری نہیں لگی۔

جنگ :کیا ایمنسٹی اسکیم کے حوالے سے حکومت نے اسٹیک ہولڈرز سے کوئی مشاورت کی ہے؟

زکریا عثمان :اس ملک کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں جب کوئی شخص حکمران بنتا ہے، تو ہوائوں میں اڑنے لگتا ہے اور اسے عوام اور ملک کو خود کفیل بنانے کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ یہاں دوسرے ممالک کے کلچر کے مطابق ٹیکس عاید کیا جاتا ہے، جو درست نہیں۔ ایف بی آر کی وجہ سے لوگوں میں خوف پایا جاتا ہے اور جب ٹیکس کی شرح بڑھائی جاتی ہے، تو ٹیکس چوری شروع ہو جاتی ہے۔ اب ملک کے حالات بہتر ہونا شروع ہو گئے اور صنعت کار اپنا پیسہ واپس لانا چاہتے ہیں، تو انہیں اس سلسلے میں سہولت فراہم کی جائے اور قانون کے مطابق پیسہ ملک میں آنے دیا جائے، لیکن اگر نیب، ایف بی آر اور دوسرے ادارے گھیر لیں، تو پھر کون سرمایہ لائے گا۔

جنگ :آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

نسیم بیگ :ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں سارا زور غیر ملکی اثاثہ جات ظاہر کیے جانے پر ہے کہ باہر سے پیسہ ملک میں آ جائے۔ پھر اب آف شور کمپنیز والے ممالک نے ٹیرر فنانسنگ کے ڈر سے منی لانڈرنگ روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں بعض ٹیکسیشن کے مسائل بھی ہیں اور ان پر امریکا کی جانب سے دبائو ہے۔ امریکا میں ٹیکس کا نظام باقی ممالک سے مختلف ہے۔

 وہ سٹیزن شپ پر ٹیکس لیتے ہیں۔ اب برطانیہ اور جرمنی سمیت دوسرے ممالک نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ ڈیکلیئریشن پر کام کریں۔ اب اگر برطانیہ میں میرے اثاثے موجود ہیں، تو اس کی ٹیکس اتھارٹی ہمارے ایف بی آر کے سامنے انہیں ظاہر کرے گی۔ اب ان لوگوں میں خوف پیدا ہو گیا ہے کہ جن کے بیرون ملک اثاثے موجود ہیں، لیکن انہوں نے انہیں ملک میں ظاہر نہیں کیا۔ یعنی جو افراد ملکی حالات کے خوف سے پیسہ بیرون ملک لے کر گئے تھے، اب وہ پیسہ ظاہر کرنے سے خوفزدہ ہیں۔ لوگوں میں خوف ہوتا ہے اور اسی لیے وہ سارا پیسہ ملک میں نہیں رکھنا چاہتے۔

 پھر روپے کی گراوٹ کا بھی خوف ہوتا ہے اور اس لیے ڈالر اکاوئنٹس بنائے گئے، لیکن 1998ء کے بعد سے ڈالر اکائونٹس بنانے میں بھی لوگ خوف کا شکار ہیں۔ اس کے لوگوں نے اپنے اثاثوں کو چھپانا شروع کیا اور اگر کوئی ٹیکس ادا کرنے کے بعد اپنی رقم بیرون ملک لے کر گیا ہے اور وہاں اس رقم سے جائیداد خریدی ہے، جس سے اسے فائدہ ہو رہا ہے، تو وہ ظاہر نہیں کر رہا، تو وہ ٹیکس ڈیفالٹر ہے۔ اس حد تک معاملہ ٹھیک ہے، لیکن اگر کچھ لوگ رشوت اور ڈرگ منی سمیت دوسرا سیاہ دھن بیرون ملک لے کر گئے ہیں، تو انہیں بے شک ٹیکس ایمنسٹی نہ دی جائے۔

 کیونکہ انہوں نے ٹیکس سے بچنے کے لیے رقم بیرون ملک منتقل نہیں کی، بلکہ ان کا پیسہ ہی غیر قانونی ہے اور اگر وہ چاہتے ہیں کہ اس پر بھی ایمنسٹی مل جائے، تو یہ بہت مشکل ہے اور بالآخر ہمیں اس معاملے کی جڑ تک پہنچا ہے کہ ایک شخص اپنے سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور کیوں ہوتا ہے اور ہمیں ان حالات کا جائزہ لینا ہے۔ چاہے ہم ایک ایمنسٹی اسکیم لائیں یا دس لائیں، جب تک حالات تبدیل نہیں ہوتے، یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ دوسری جانب مقامی طور پر رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر بھی بات ہوئی ہے اور اس میں بھی بلیک منی کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔

 اس وقت ہر ڈی ایچ اے ہی پاناما بنی ہوئی ہے۔ یہاں جرائم پیشہ عناصر نے بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، تو ہمیں اس جانب بھی توجہ دینا ہو گی۔ اب پراپرٹی کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں ناجائز پیسہ چھپایا جا رہا ہے اور سرمایہ کاری بڑھتی جا رہی ہے۔ 

ایک اور ایمنسٹی : ’’غیر ملکی اثاثوں کے لیے ٹیکس ایمنسٹی‘‘ پر منعقدہ جنگ فورم کی رپورٹ

پھر اس کے نتیجے میں ڈی انڈسٹریا لائزیشن بھی بڑھتی جا رہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے پراپرٹی میں سرمایہ کاری شروع کر دی ہے۔ پراپرٹی میں سرمایہ کاری بڑھنے سے ضرورت مند افراد اپنا گھر خرید نہیں پا رہے۔ ہمیں اس مسئلے پر توجہ دینی ہو گی۔ اگر ہم غیر ملکی اثاثوں پر ہی توجہ دیتے رہے اور مقامی صورتحال پر توجہ نہیں دی، تو پھر یہ مسائل بڑھتے رہیں گے۔ ہمارے ٹیکس کا نظام عوام میں خوف پیدا کر رہا ہے اور قانون پر عمل کرنے والوں کو بھی پریشان کیا جاتا ہے اور میرے اپنے ساتھ بھی ایسا ہو چکا ہے۔ 

ہمیں اس ٹیکس نظام پر نظر ثانی کرنا ہو گی اور اسے از سرنو ترتیب دینا ہو گا۔ اگرچہ مالی ذخائر میں اضافے کے لیے غیر ملکی اثاثوں کی جانچ پڑتال اور انہیں دستاویزی شکل دینے کے لیے ایمنسٹی اسکیم ضروری ہے، لیکن یہ مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ برائی کی جڑ ہمارا ٹیکس کا نظام ہے اور پہلے بد امنی بھی تھی۔

 اب ماشاء اللہ ملک کے حالات بہت بہتر ہو چکے ہیں اور پاکستان کو مواقع کی سرزمین قرار دیا جا رہا ہے، تو ہمیں ان مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ جو لوگ باہر سے اپنے اثاثے لانا چاہتے ہیں، انہیں اجازت دی جائے اور جو نہیں لانا چاہتے، تو انہیں باہر رکھنے دیں اور وہ کم از کم بینکنگ سسٹم میں تو انہیں ظاہر کر دیں گے۔

جنگ :لیکن پاکستان پر منی لانڈرنگ کا الزام تو عاید کیا جاتا ہے؟

نسیم بیگ :یہ بات بالکل درست ہے۔ اگر پاکستان کا نظام ایسا ہے کہ یہاں جرائم پیشہ افراد زمین خرید کر اپنا کالا دھن چھپانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور پھر اسے ٹیرر فنانسنگ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، تو پھر ایسے ہی نتائج سامنے آتے ہیں۔ یہاں تو کوئی بھی شخص بہ آسانی اپنا اکائونٹ کھلوا سکتا ہے اور اس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی۔ 

ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔ حال ہی میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کی وجہ گرے لسٹ میں ڈالا ہے اور اگر ہم نے خود کو نہ سنبھالا، تو وہ مزید آگے تک جائیں گے۔ 

اس وقت امریکا کا یہی مطالبہ ہے کہ ہم اپنے ملک میں کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں پر پابندی عاید کریں اور اب ہم مزید ٹال مٹول سے کام نہیں لے سکتے۔

جنگ :آپ کا کہنا تھا کہ قدغن لگانے کی وجہ سے ملکی معیشت پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوں گے؟ یہ اثرات کس شکل میں ظاہر ہو سکتے ہیں اور ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ کیا ہو گا؟

نسیم بیگ :میرا سوال یہ ہے کہ اشفاق تولا نے کہا کہ ملک میں کم و بیش 6ارب ڈالرز آتے ہیں، لیکن پیسہ باہر کن ذرایع سے جاتا ہے؟

اشفاق تولا: یہ دکھا کر باہر بھیجا جاتا ہے کہ بھائی نے بہن کے لیے بھیجا ہے۔ یہ کوئی چھپانے والی بات نہیں ہے اور اس کو چھپانا خود کو بے وقوف بنانے کے مترادف ہو گا۔ 

ایمنسٹی کا دوسرا نام فارن ڈیکلریشن ہے۔ جیسا کہ زکریا عثمان نے بتایا کہ بھارت اور انڈونیشیا میں بھی ایمنسٹی اسکیمز لائی گئیں، تو بھارت میں اس کی شرح 45فیصد تھی۔ اس اسکیم کے نتیجے میں 6750کروڑ روپے ظاہر کیے جانے تھے، لیکن اس میں سے 3750کروڑ ظاہر کیے گئے۔ انہوں نے مرحلہ وار کام کیا۔ اس کے علاوہ 500اور1000مالیت کے کرنسی نوٹ بند کر دیے، جس کے نتیجے میں کافی لوگ سڑکوں پر آ گئے۔

 اب وہ پلاسٹک منی کی طرف جا رہے ہیں اور اب ٹیکس دہندہ کے پاس یہ پلاسٹک کارڈ ہو گا اور جس کے پاس نہیں ہو گا، اسے رجسٹریشن نمبر کی مدد سے پکڑنے کی کوشش کی جائے گی، لیکن ہمارے ہاں ایمنسٹی اسکیم تو لائی جا رہی ہیں، مگر اس کے لیے استعداد نہیں ہے اور یہ ساری لاڈلوں کی اسکیمز ہیں۔ تاہم، میں یہ نہیں کہتا کہ یہ نہیں ہونی چاہیے۔

 1990ء میں سینیٹر مظہر نے ایک کمیٹی بنائی تھی۔ تب چار سے پانچ قسم کے ود ہولڈنگ ٹیکس ہوتے تھے اور 1992ء میں نارمل ریجیم میں آنے کا فیصلہ کیا گیا، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اس وقت لوگ باہر پیسہ روک کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان میں یہاں کے ایکسپورٹرز بھی شامل ہیں، جو وہاں امپورٹرز ہیں اور کئی ایل سیز بند پڑی ہیں۔

 ایسی بات نہیں ہے کہ یہ لوگ پاکستان کی محبت میں پیسہ ملک میں لائیں گے، بلکہ او ای سی ڈی کے رکن ممالک کی سخت شرائط انہیں مجبور کر دیں گی۔ اس وقت وہ پریشان ہیں اور اسی وجہ سے اپنا پیسہ نکالنا چاہتے تھے۔ 

تاہم، اگر وہ پیسہ لے کر آ رہے ہیں، تو انہیں سہولتیں فراہم کی جانی چاہئیں، کیونکہ ہم نے انہیں ایک سسٹم میں لے کر آنا ہے، لیکن انہیں اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑے گی۔ اگر ہم انڈونیشیا کی بات کریں، تو وہاں 667ہزار ڈیکلیریشنز ہوئیں اور240ارب ڈالرز ملے۔ یہ اسکیم آف شور اور آن شور دونوں کے لیے تھی۔ 

ہمیں بھی ایسی ہی اسکیم لانی ہو گی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس وقت ایک ایسی لابی بنی گئی ہے کہ جو صرف غیر ملکی اثاثوں ہی کی ملک میں منتقلی کے لیے کوششیں کر رہی ہے اور لوکل کو بعد میں دیکھ لیں گے۔

 اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنا دور ختم ہونے سے پہلے تک غیر ملکی اثاثوں ہی کو ڈیکلیئر کروانا چاہتی ہے اور لوکل کو نئی حکومت دیکھ لے گی، مگر میں اس طریقہ کار کے خلاف ہوں۔ البتہ ان پر یہ شرط عاید کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے لیکوئڈ ایسٹس کا 20سے 25فیصد پاکستان میں لاکر سرمایہ کاری کریں گے۔ 

اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اس طرح کوئی نہیں لائے گا، تو نہ لائے اور پھر اپنے اثاثے ظاہر بھی نہ کرے۔ اس معاملے کو سپریم کورٹ بھی دیکھ رہی ہے اور میں عدالت عظمیٰ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ تمام پہلوئوں کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ہی فیصلہ سنائے اور اگر ان شرائط کے بغیر ایمنسٹی اسکیم لائی گئی، تو یہ پاکستان کے لیے تباہ کن ہو گی۔ 

اب ہم اس کے مثبت پہلوئوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ بیرون ملک سے پیسہ ملک میں آنے کی صورت میں ہماری معاشی بڑھوتری ہو گی، لیکن خدارا ایک مخصوص طبقے کو سہولت فراہم کرنے کے بہ جائے تمام افراد کو سہولت فراہم کی جائے اور اگر ایسا نہ کیا گیا، تو پھر ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا اور وہ قرضوں کے لیے سخت شرائط عاید کرے گی اور وہ بھی پاکستان کی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گی۔

عثمان زکریا :بلاشبہ چیف جسٹس صاحب اس معاملے کو بھی دیکھ رہے ہیں، لیکن اگر یہ معاملہ بھی دوسرے مقدمات کی طرح طول اختیار کر گیا اور برسوں بعد فیصلہ آیا، تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس سلسلے میں جو کمیٹی بنائی گئی ہے، اس میں ایف آئی اے، ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر شامل ہیں، لیکن اس میں اسٹیک ہولڈرز کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ 

اسی طرح ایک کمیٹی بنائی جائے، جس میں ماہرینِ معیشت کو شامل کیا جائے اور انہیں یہ ہدف دیا جائے کہ وہ چند روز کے اندر ایک ایسی اسکیم تیار کر کے دیں کہ جس کے نتیجے میں بیرونِ ملک موجود سرمایہ واپس آ جائے۔ 

پھر باہر سے سرمایہ لانے والوں کو اعتماد اور حوصلہ بھی دیا جائے۔ اس وقت بیرون ملک موجود پاکستانی سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہے اور وہ اسی شک و شبے میں مبتلا رہتے ہیں کہ کسی بھی وقت کوئی نیا قانون آ سکتا ہے۔ دراصل، ہمارے ٹیکس ماہرین قوانین کے ذریعے کھیلتے ہیں اور ملک میں سرمایہ لانے والوں کو تنگ اور بلیک میل کرتے ہیں۔ 

وہ پہلے کروڑوں روپے رکھوانے کا کہتے ہیں اور اپیل کا حق بھی نہیں دیتے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سارے فیصلے سیاسی بنیادوں پر کیے جاتے ہیں، معاشی نکتہ نظر سے کوئی نہیں سمجھتا اور ہر جانے والی حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ نئی حکومت کے لیے کام ادھورا چھوڑ جائے۔ 

ہمیں لوگوں کو اعتماد دینا ہو گا اور اگر پراپرٹی کی قیمت بڑھائی جاتی ہے، تو اس پر ٹیکس کی شرح کم جانی چاہیے۔ لوگوں کو ترغیب دینی چاہیے اور بالخصوص ان صنعتوں پر ٹیکس کا بوجھ کم کیا جائے کہ جو ملک کی ضروریات پوری کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر آئی ٹی اور فارماسیوٹیکل انڈسٹری۔ اگر ہم ان سمیت دیگر صنعتوں کو ٹیکس میں چھوٹ دیتے، تو ہماری درآمدات میں اتنا اضافہ نہ ہوتا، لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا اور اب ان تجاویز پر فوری طور پر کام شروع کر دینا چاہیے۔

نسیم بیگ :ہمیں اس مسئلے کی جڑ میں جانا چاہیے کہ لوگ بیرون ملک سرمایہ منتقل کیوں کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں سرمایہ دار خوف کا شکار ہیں اور ویسے بھی دنیا بھر میں سرمایہ کاروں کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ متنوع سرمایہ کاری کریں اور جائز طریقے سے بیرون ملک بھی اپنا سرمایہ منتقل کریں اور اثاثے بنائیں۔ 

تاہم، ایک حد لگا دینی چاہیے کہ اتنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ بھارت نے لگایا ہے، تاکہ سرمایہ کار خود کو محفوظ تصور کرے کہ وہ اتنی رقم باہر منتقل کر سکتا ہے۔ پھر ایف بی آر اپنے طریقہ کار میں تبدیلی لائے اور زراعت سمیت تمام شعبوں کو ٹیکس ریٹرنز دیکھے جائیں۔ پھر مناسب انداز میں اور حقیقی چھان بین کی جائے۔ ٹیکس پالیسی کو پلاننگ کمیشن کے سپرد کیا جائے اور وزارتِ خزانہ سے دور رکھا جائے، جبکہ ایف بی آر سمیت دوسرے ادارے ٹیکس جمع کرنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔

 اب ایف بی آر جون سے پہلے پہلے تمام صنعت کاروں سے زبردستی ٹیکس وصول کرتی ہے کہ اسے کسی نہ کسی طرح اپنا ہدف پورا کرنا ہوتا ہے۔ ایف بی آر کے اس طریقہ کار کی وجہ سے ہی لوگ ٹیکس دینے سے گھبراتے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک معزز شہری کی طرح سلوک کیا جانا چاہیے اور ایسا نہ ہو کہ وہ خود کو چور سمجھنے لگیں۔ 

تازہ ترین