• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ ہمارے رول ماڈل ہیں

ہمارا تعلق یوسف زئی قبیلے سے ہے اور ہم مالاکنڈ ایجینسی میں آباد ہیں۔ زیرِنظر واقعہ، میرے جفاکش اور محنتی دادا کی اَن تھک محنت و مشقت اورجدوجہدپر مبنی ہے۔ دادا جی ابھی بہت چھوٹے ہی تھے کہ ان کے والد اس قدر شدید بیمار پڑے کہ بستر ہی سے لگ گئے۔ دادا جی کے والد کی بیماری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے بدطینت چچائوں (پردادا کے بھائیوں) نے ان کی زمینوں پر قبضہ کرلیا۔ داداجی کے ایک بڑے بھائی اور چار بہنیں تھیں۔ گھر میں بڑے بھائی اور ان کے سوا کوئی کمانے والا نہیں تھا۔ 

بھائی بھی اس قابل نہیں تھے کہ اپنی زمینوں کو چچائوں سے چھڑواسکتے، البتہ چچائوں نے اپنے طور پر احسان کرکے ان دونوں بھائیوں کو زمینوں پر کاشت کاری پہ لگادیا، اس کے عوض تھوڑی بہت اجرت دے دیا کرتے، جس سے گھر کا خرچہ بہت مشکل سے پورا ہوتا تھا۔

دادا کے والد اپنے بچّوں پر ظلم و ستم ہوتا دیکھ کر جی ہی جی میں کڑھتے رہتے، مگر بیماری اور محتاجی کے سبب بھائیوں سے جھگڑا مول لینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ ایک دفعہ دادا کے بھائی نے اپنے چچائوں سے احتجاج کیا، تو انہوں نے بہ طور سزا انہیں اجرت دینی بند کردی۔ 

گھر میں فاقے ہونے لگے، تو انہوں نے ان حالات میں کراچی جاکر اپنی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا تاکہ کسی طرح گھر کے حالات سدھار سکیں، مگر بدقسمتی سے دو ماہ بعد ہی ایک حادثے میں ان کا انتقال ہوگیا۔

جب ان کے انتقال کی اطلاع گھر پہنچی، تو صفِ ماتم بچھ گئی۔ دادا کے بیمار والد، یہ صدمہ نہ جھیل سکے اور ان کا بھی چند ماہ بعد انتقال ہوگیا۔ جس کے بعد ان کے سگے بھائی مکمل طور پر زمینوں پر قابض ہوگئے۔ 

بھائی اور والد کی موت کے بعد اب سارے گھر کی ذمّے داری دادا کے کندھوں پر آگئی تھی، وہ اگرچہ کم زور جسامت کے تھے، کام کرتے ہوئے جلد تھک جایا کرتے تھے، مگر بہنوں اور ماں کی ذمّے داریوں نے انہیں ایک دن بھی آرام نہیں کرنے دیا۔ چچائوں کی زمینوں پر کاشت کاری کی اجرت نہ ہونے کے برابر تھی، اس لیے انہوں نے میلوں دور، دوسروں کی زمینوں پرجاکر کام کرنا شروع کردیا۔ 

گرمی ہو یا سردی ایک ہی قمیص میں گھر سے نکلتے تھے۔ گرم کپڑے تو میسّر نہیں تھے، وہ ٹھٹھرتے، کانپتے طویل راستہ پیدل طے کر کے جاتے اور ایک کھیت سے دوسرے کھیت، شام تک پہاڑی علاقوں کی پتھریلی زمینوں میں کاشت کاری کی مشقّت کرتے۔

 بارہ سال کی عمر سے چالیس برس تک ان کا یہی روٹین رہا۔ پرائی زمینوں پر کاشت کاری کرتے رہے اور گھر کی ذمّے داریاں پوری کرتے رہے۔ بہنوں کے بعد اپنی بھی شادی کر کے، ان کے پاس بچت کے نام پر ایک دھیلا بھی نہ بچا تھا۔ 

بچّے پیدا ہونے کے بعد، ان کی تعلیم و تربیت کے اخراجات کے لیے وسائل کہاں سے لاتے، جب کہ ان کے چچازاد اپنے بچّوں کو اسکول بھیجنے لگے تھے۔ چچائوں نےبھی پلٹ کر اپنے بھتیجے کی خبر تک نہیں لی تھی۔

 یہ دکھ ان کے دل پر آری چلاتا رہتا کہ سگے ہوکر وہ ان سے غیروں جیسا سلوک کیا کرتے تھے۔ دادا کے پاس اپنا مکان تھا، نہ زمین، مگر انہیں اپنے بچّوں کو پڑھانے کا جنون تھا، وہ جانتے تھے کہ غربت سے چھٹکارے کا یہی ایک حل ہے۔

ان ہی دنوں قطر سے ایک ٹیم آئی ہوئی تھی، جو اپنے ملک میں تعمیر و ترقی کے لیے پاکستان سے محنتی مزدوروں کی بھرتی کررہی تھی۔ دادا کو پتا چلا، تو انہوں نے بھی قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ وہ دادا کو ان کی جفاکشی اور نڈر طبیعت کی بنا پر منتخب کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔ 

دادا جی نے جب ایک شدید غربت اور مشقّت بھری زندگی چھوڑ کر، دوسرے ملک کی سختی جھیلنے کا انتخاب کیا، تو دل میں صرف ایک ہی لگن تھی کہ انہیں صرف اپنے بچّوں کا مستقبل سنوارنا ہے۔

 وہاں شدید مشقّت اور سختیوں کے باعث بہت سے لوگ کام چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ دادا نے بھی کئی بار پریشان ہو کر وطن جانے کا ارادہ کیا، مگر ان کے سامنے ان کے بچّوں کے چہرے آجاتے، جنہیں وہ اپنے برادرِ نسبتی کے حوالے کرکےآئے تھے۔ دادا کے یہ رشتے دار خود معاشی پریشانیوں میں مبتلا تھے، مگر دادا نے جب پیسے بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا، تو حالات بہتر ہونے لگے، لیکن ان کی زندگی اسی طرح کڑی محنت و مشقّت میں گزرتی رہی۔

 گھر کے حالات سدھارنے کے لیے انہوں نے قطر میں بارہ سال گزاردیئے۔ وہ چالیس سال کی عمر میں گئے تھے، لیکن جب ریٹائرمنٹ کے بعد گھر لوٹے، تو بوڑھے ہوچکے تھے۔ لیکن ان بارہ برسوں کی کمائی کے پھل کو اپنی جاں فشانی اور حسن تدبّر سے دوگنا کردیا۔ 

زمینیں خرید کر اپنی نگرانی میں کاشت کاری شروع کروائی، باغات میں پھلوں کی کاشت کے نئے نئے طریقے استعمال کرکے ان میں آڑو، خوبانی کی کاشت شروع کی اور چند ہی برسوں میں اتنی جائیداد بنالی، جتنی گائوں میں کسی کے پاس بھی نہیں تھی۔ گائوں میں پہلا پکّا گھر ہمارا ہی بنا تھا۔

 ان کے بچّوں نے اس زمانے کے حساب سے تعلیم بھی حاصل کی اور اب ماشاء اللہ ان کی اولاد یعنی دادا کے پوتے سب تعلیم یافتہ ہیں، اور اکثر فارغ اوقات میں دادا سے ان کی جدوجہد کی داستان شوق سے سنتے ہیں۔ ٹانگ کے آپریشن کے بعد دادا اب وہیل چیئر پر بیٹھ کر اپنے باغات کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

چند روز قبل کی بات ہے، مَیں کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا، دادا آنگن میں کِھلے پھولوں کو بڑی محبت سے دیکھ رہے تھے، پھر وہ وہیل چیئر کو زور لگا کر ان پھولوں کی کیاریوں کے پاس پہنچے۔ پھول ان کی پہنچ سے دور تھے، لیکن انہوں نے ہمّت نہ ہاری اور وہیل چیئر پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ 

یہ دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے سوچا کہ میں بھاگ کر ان کی مدد کروں، مگر اس سے قبل ہی وہ وہیل چیئر سے اٹھ کھڑے ہوئے اور پھولوں کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر ان سے کھیلنے لگے۔ بلاشبہ، جس شخص کا حوصلہ اور خوداعتمادی اتنی ہو، وہ اپنی قوّتِ ارادی کے بل بوتے پر راستے کی ہر چٹان عبورکرسکتا ہے۔ حقیقتاً وہ ہماری نئی نسل کے لیے ایک رول ماڈل ہیں۔

(حذیفہ بختیار، کراچی)

آپ ہی سے کچھ کہنا ہے

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے جوکسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہے تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور وآگہی میں اضافے کے ساتھ ان کے لیے زندگی کاسفر آسان کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے، نیز ،اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت پڑے تو آسانی ہوسکے۔ ہمیں اپنی کہانیاں اور آراء اس پتے پر بھیجیں ۔

انچارج صفحہ، ناقابلِ فراموش، جنگ سنڈے میگزین،روزنامہ جنگ، اخبار منزل ،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

تازہ ترین
تازہ ترین