• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈائجسٹ: بُوڑھا اخبار....

محمّد حامد سراج،چشمہ بیراج، میاں والی

کتاب کے اوراق اتنے بوسیدہ نہیں تھے، لیکن اس کی بینائی بہت کم زور ہو چلی تھی۔ اب تو وہ اخبار میں کالم نگاری کا اپنا شوق بھی محدّب عدسے سے پورا کرتا۔ بچّے کہتے، ’’دادا ابّو! آپ کیوں اتنی تکلیف اُٹھاتے ہیں، ٹیلی ویژن پر خبر نامہ دیکھ لیا کریں۔ ریڈیو پر ایف ایم لگا کر حالاتِ حاضرہ سُن لیا کریں، لیکن اس کا کہنا تھا، جو لُطف اخبار کے لمس میں ہے، وہ ٹیلی ویژن اور ریڈیو میں کہاں؟ کہولت(بڑھاپے)نے اسے بہت کم زور کر دیا۔ 

وہ عُمر کے اکیاسی کے سِن میں تھا۔ اِک زمانہ، زمانے کی تاریخ، باتیں یادیں اُس کے بوڑھے سینے میں محفوظ تھیں۔ کبھی کبھی وہ سوچتا کہ مَیں قلم کار ہوتا، تو اپنی زندگی کی یادیں جمع کر کے ایک کتاب کی شکل میں یادگار چھوڑ جاتا۔ ایک دِن وہ شالا مار باغ، لاہور چلا گیا کہ پورا دِن وہیں گزاروں گا۔ وہ ایک تالاب کی سنگی سیڑھی پر بیٹھا ماضی کی کتاب کے اوراق پلٹنے لگا۔ کتاب کے اوراق اتنے بوسیدہ نہیں تھے اور تحریر بھی اُجلی ہونے کے باعث اس کے لیے پڑھنا آسان تھی، لیکن اس کی خواہش تھی کہ یہ تاریخ اس کے بچّے اپنے سینوں میں محفوظ کرلیں، لیکن ان کی تعلیم، تعلیمی نظام بدل چکا تھا اور وہ اپنی تاریخ سے دِن بہ دن دُور ہوتے چلے جا رہے تھے۔

 اُسے دِن رات یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ وہ اپنی زندگی اپنے بچّوں کو کیسے منتقل کرے کہ اپنی تاریخ، اپنی زندگی انھیں منتقل کر کے ہی ایک محفوظ مستقبل کی تعمیر ممکن تھی۔ اس بوڑھے پنجر میں ٹکڑے ٹکڑے ہزاروں واقعات محفوظ تھے، جو مستقبل کی امانت تھے۔ مشکل یہ تھی کہ اُس کے پوتے، پوتیوں اور نواسے، نواسیوں کے پاس کہانی سُننے کا وقت نہیں تھا۔’’نانا ابّو! اب زمانہ اتنا زیادہ بدل چکا ہے کہ ساری دنیا کی کہانیاں، معلومات اس ڈبیا میں بند ہماری جیب میں ہیں۔‘‘ 

پھر وہ موبائل اور لیپ ٹاپ کھول کے نانا ابّو کے سامنے رکھتے کہ کیسے ایک ٹچ سے ساری دنیا ان کے سامنے ہے۔ اور کہتے، ’’آپ کس زمانے کی باتیں کرتے ہیں…؟‘‘ وہ چُپ ہوجاتا، لیکن دِل کی بات کہہ دیتا،’’بیٹا! یہ سب تمہارے سینوں میں ہونا ضروری ہے۔‘‘’’ابّاجی، ابّا جی! سینے میں محفوظ کررہے ہیں، تو یہ سائنسی ترقی دیکھ لیجیے، کہاں سے کہاں لے آئی ہے، انسان کو…۔‘‘

وہ برآمدے کے ستون کے ساتھ آرام دہ کرسی پر بیٹھا گُھٹنوں پر اخبار پھیلائے کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ یک لخت وہ اپنے آپ سے جُدا ہوگیا۔ سامنے منٹو پارک، لاہور تھا اور انسانوں کا انبوہ، جانے اتنی دنیا کہاں سے اُمڈ آئی تھی۔وہ بھی ان میں شامل تھا۔ کوئی اہم بات تھی، بہت اہم۔ بوڑھا ہونے کے باوجود اس کی یادداشت سلامت تھی۔ یہ سِن عیسوی انیس سو چالیس تھا۔ بہار کا موسم، درختوں پر بور اُتر آیا تھا۔ بور کی مہک سرشار کرتی تھی۔ اُسے تاریخ بھی یاد تھی، تئیس مارچ۔

 وہ یہ دِن بھولنا بھی چاہتا، تو اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس کے سامنے ’’اے کے فضلِ حق‘‘ کا بارعب چہرہ اور مضبوط قوتِ ارادی سے پیش کیا گیا ریزولوشن تھا ۔وہ دِن اس کے لیے بہت اہم تھا۔ اس نے ہندو اور دیگر مذاہب کے ٹکراؤ اور ذہنیت کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ اس کے کچّے ذہن میں ایک پکّے گھر کا تصوّر تھا، جہاں صرف مسلمان ہوں۔ ان کی اپنی حکومت ہو، اسلامی نظام، انصاف ہو، عبادات میں کوئی پابندی نہ ہو۔

پھر سال سرکنے لگے، جلسے جلوس، ایک ہی آواز، ایک ہی لَے، ایک ہی سُر اور ایک ہی مقصد۔ مسلم اُمّہ مسلم لیگ کے جھنڈے تَلے جمع ہوگئی، لیکن اس تحریک کے ثمرات کی خوشی میں انسان کی حیوانی جبلّت نے کہیں ایک چنگاری پھینکی اور دونوں اطراف انسان، قافلوں کی شکل میں گھروں اور راہوں میں جانوروں کی طرح ذبح ہونے لگے۔ عزتیں لُٹنے لگیں، مال لوٹ لیے گئے، لاکھوں گھر، انسانوں سمیت تباہ و برباد ہو گئے۔ تاریخ کی بدترین ہجرت، جس میں لہو اور عزّتوں کا خراج ادا کرنا پڑا۔

اس کی بہو، اس کے سامنے چائے کا مگ رکھ گئی۔ اس کا پسندیدہ مگ، جس پر پاکستان کا جھنڈا اور قائدِاعظم کی تصویر تھی۔ گھر کے سب افراد کو اس کی اہمیت کا ادراک تھا۔ اس لیے کوشش یہ رہتی کہ مگ دھوتے ہوئے کسی کے ہاتھوں سے نہ پھسلے۔ ’’ابّا جی! کھانے میں کچھ ساتھ لاؤں؟‘‘وہ مُسکرائے،’’کیک رس لیتی آؤ۔‘‘وہ ابھی تک منٹو پارک میں ٹہل رہا تھا،لیکن چائے اور کیک رس اسے واپس برآمدے میں لے آئے۔ اس نے غور سے دیکھا، تو حیران رہ گیا، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس کے لیے یقین کرنا مشکل تھا۔اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے، اخبار گُھٹنوں پر بوڑھا ہوگیا۔

 ’’اُف…!یہ اخبار کو کیا ہوا؟ اس کے صفحات کیوں سفید ہوگئے۔ کیا اخبار بھی میری طرح بوڑھا ہوگیا۔‘‘ واقعات، حادثات اخبار کے صفحات پر جینے، مَرنے لگے۔ رات بڑی بوجھل تھی، اس نے دوستوں سے کہا،’’قافلے جانے دو، مَیں اس خونریزی میں شامل نہیں ہوتا۔‘‘’’یار! پاگل ہوئے ہو، سونا، روپیا، دولت لوٹ کرساری زندگی عیش کریں گے۔‘‘ ’’کیا عیش کریں گے، اس کو عیش نہیں کہتے۔‘‘ ’’وہ بھی تو دھڑا دھڑ مسلمانوں کو لُوٹ رہے ہیں۔حتیٰ کہ ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں اُٹھا کر لے جا رہے ہیں۔ بے دردی سے قتلِ عام جاری ہے۔

 ہم نے بھی بدلہ لینا ہے۔‘‘’’یہ ظلم ہے، وہ بھی بدترین ظلم۔مجھے معاف رکھو۔‘‘’’نہیں، تمہیں ہرحال میں ساتھ چلنا ہوگا۔‘‘ وہ اسے زبردستی گھسیٹ کر ساتھ لے گئے۔ واہگہ کے قریب وہ ایک جگہ گھات لگا کر بیٹھ گئے۔ آدھی رات کا وقت تھا، انہیں ایک مختصر قافلہ جاتا نظر پڑا۔ رات کی تاریکی میں انہوں نے دھاوا بول دیا اور مَرد کاٹ کے پھینک دیئے۔ایک نوجوان لڑکی چیخی چلائی، پاؤں پڑی، ’’مجھے اپنے رب کے لیے معاف کردو۔ مَیں نے امرتسر تک جانا ہے۔ بس امرتسر، گورو کا واسطہ، رب کا واسطہ۔ تم نے میرے ماں باپ مار دیئے ،میرا جوان بھائی مار دیا۔ مَیں عورت ہوں ظالمو!تمہارے گھر کوئی بہن، بیٹی نہیں ہے؟ اسی کا واسطہ ہے، مجھے جانے دو۔ وہ سامنے امرتسر ہے، وہاں میرے نانا کا گھر ہے۔ وہ ان کے پاؤں سے لپٹ گئی، لیکن اس کی آہ وبکا رات میں تحلیل ہو گئی۔ 

اسے ایک نوجوان اپنے ساتھ لے گیا۔دو دِن بعد اس نے مولوی صاحب کو بلوایا اور کہا، ’’کسی کو مسلمان کرنا، بہت ثواب کا کام ہے۔ آپ اِسے کلمہ پڑھائیں، مَیں اس کا سہارا بنوں گا۔‘‘اس نے سَر ’’ہاں‘‘ میں ہلایا، نہیں ہلایا، لیکن وہ اس نوجوان کی بیوی قرار دے دی گئی۔ وہ وقت کی چکّی کے دو پاٹوں کے درمیان پِسنے لگی۔ سال بعد اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ 

اسے اس سے غرض نہیں تھی کہ اس کا بیٹا ہندو ہے، مسلمان یا سکھ؟ اُسے اپنی لاش کھینچنا تھی، سو وہ کھینچ رہی تھی۔ انسان کے لیے اپنی لاش ڈھونا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔بہت سے برس گزر گئے۔ گھر میں عسرت اور تنگی کی وجہ سے اس کے خاوند نے رزق کی تلاش میں لاہور کا سفر کیا اور پاؤں جم جانے کے بعد بچّوں کو اپنے پاس بلوالیا۔

ایک معمولی سا گھر لے کر وہ کرائے پر زندگی کھینچنے لگے۔ وقت کے ساتھ اُسے معلوم ہوا کہ ہر سال سکھ یاتری اپنی مذہبی رسوم ادا کرنے کے لیے لاہور، رنجیت سنگھ دی سمادھی اور گوردوارہ، ڈیرہ صاحب آتے ہیں۔ ایک سال وہ بھی چپکے سے وہاں جاپہنچی،آس اُمید پر کہ ممکن ہے کہیں کوئی اپنا چہرہ، اپنا خون نظر آجائے۔ پھر وہ ہر برس وہاں جانے لگی۔ سکھ یاتری دیکھ کر اسے عجیب سا سُکون ملتا اور وہ پہروں انہیں تکتی، خوش ہوتی اور لوٹ آتی۔

ایک دِن میں بھی غیر ارادی طور پر گوردوارے جا نکلا۔ وہاں مَیں نے ایک کپ چائے لیا اور سیمنٹ کے بینچ پر بیٹھ کر چسکی بھرنے لگا۔ چائے پیتے ہوئے اچانک میری نظر ایک عورت پر پڑی اور مَیں سکتے میں آگیا۔ مَیں نے پھر غور سے دیکھا اور سوچنے لگا، کیا میری آنکھیں دھوکا کھا رہی ہیں؟ کیا یہ وہی ہے؟ عُمر ڈھل چکی، لیکن خال وخد وہی اور ناک میں نتھلی؟ لیکن یہ یہاں کیسے اس کی شادی تو اُسی نوجوان سے ہوگئی تھی۔

مجھ میں ہمّت نہیں تھی کہ اُس سے کوئی سوال کرتا۔ اخبار میرے گھٹنوں پر کانپنے لگا، خزاں رسیدہ پتّے کی طرح۔ اگلے روز مَیں پھر گیا، وہ موجود تھی اور ہر یاتری کا چہرہ غور سے دیکھ رہی تھی۔’’یہ کس کی تلاش میں ہے؟ مَیں اس سے بات کیسے کروں ؟‘‘ مَیں اپنی سوچوں میں غرق تھا۔وہ ایک دَم اُٹھی، ایک عُمر رسیدہ شخص کی طرف دیکھا، پھر دیکھا، غور سے دیکھا اور رونے لگی۔بزرگ سکھ نے پیلے رنگ کی پگڑی باندھ رکھی تھی۔ وہ قدم قدم جھجک جھجک کر آگے بڑھی اور اس بزرگ کے سامنے جاکھڑی ہوئی۔’’تُسیں کیہڑے شہر توں آئے او؟‘‘(آپ کس شہر سے آئے ہیں؟)’’اسیں امرتسر توں آئے آں‘‘(ہم امرتسر سے آئے ہیں)۔اس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ 

سیکوریٹی موجود تھی۔ اس کی نظر ایک فوجی پر پڑی، وہ تیر کی طرح اس کے پاس پہنچی اور اس کا بازو پکڑ کر رونے لگی۔ فوجی نے پوچھا،’’ماں جی !خیریت، کیا ہوا؟ آپ حکم کریں۔‘‘’’بیٹا…بیٹا! وہ جو سامنے پیلے رنگ کی پگڑی والا سکھ کھڑا ہے ناں، وہ میرا سگا بھائی ہے۔‘‘ 

وہ فوجی کو بازو سے پکڑے اُس سکھ کے سامنے آکھڑی ہوئی۔’’بھرا جی! تسیں دیپک سنگھ ہیںناں؟‘‘(بھائی جی! آپ دیپک سنگھ ہوںاں؟)’’آہووو…‘‘(ہاں)’’تہاڈے پِتا جی دا ناںدیال سنگھ اے؟‘‘(آپ کے والد کا نام دیال سنگھ ہے؟)’’بالکل ایہو ای اے‘‘(بالکل یہی ہے)’’ماں جی دا ناں سرجیت کور؟‘‘(ماں جی کا نام سرجیت کور ہے؟)’’لیکن تُسیں…؟‘‘(لیکن تم…؟)اُس نے حیرت سے اس عورت کو سَر سے پاؤں تک دیکھا۔’’ویرا! مَیں تیری ماں جائی امرت کور‘‘(بھائی! مَیں تیری ماں جائی، امرت کور)’’اووہ…‘‘پھر وہ اس کے سینے سے لگ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ پولیس کی بجائے اس نے اپنے آپ کو فوج کی تحویل میں دینے پر اصرار کیا۔

کاغذی کارروائی مکمل ہونے پر جس روز اس نے امرتسر روانہ ہونا تھا۔ ایک طرف اس کی مٹّی، اس کا وطن اور خاندان اسے کھینچ رہا تھا،دوسری طرف اس کی اولاد۔ سرحد پر اس کی آنکھیں دھندلاگئیں۔ وہ بھی بوجھل قدموں سے لوٹ آیا۔

رات اس نے اپنے سب بچّوں، نواسے، نواسیوں اور پوتوں کو اپنے کمرے میں بلوایا اور پوچھا،’’بیٹا! مَیں آپ سب سے کچھ نہیں مانگتا۔بس، مجھے اتنا بتا دو، کیا تم، اے کے فضلِ حق، مولانا شوکت علی، خواجہ ناظم الدین، مولانا شبیر احمد عثمانی، چوہدری رحمت علی، خلیق الزماں، مولانا اشرف علی تھانویؒ، سردار عبد الرب نشتر اور پاکستان کے پہلے سیکریٹری خزانہ، وکٹر ٹرنر کو جانتے ہو؟ بولو ناں، بچّو… چُپ کیوں ہو؟کچھ تو کہو۔ دنیا کی بہترین معلومات تمھارے ایک کلک پر ہیں۔ 

یہ کون لوگ ہیں؟ اپنے آباؤاجداد میں سے کسی ایک کے بارے میں تو کہہ دو کہ ہاں ہم جانتے ہیں،تاکہ مَیں بھی چین سے مَر سکوں۔‘‘’’کمرے میں گہرا سنّاٹا تھا، بس وہ اور ایک بوڑھا اخبار…۔         

تازہ ترین
تازہ ترین