• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ادب پارے: حفیظ جالندھری

حفیظ جالندھری، سر عبدالقادر کی صدارت میں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں چندہ جمع کرنے کی غرض سے اپنی نظم سنارہے تھے، جلسے کے اختتام پر منتظمِ جلسہ نے بتایا کہ 300روپے جمع ہوئے۔ حفیظ نے مسکراتے ہوئے کہاکہ یہ میری نظم کا اعجاز ہے ’’لیکن حضور!‘‘ منتظم نے متانت سے کہا، ’’200روپے ایک ایسے شخص نے دیئے ہیں جوبہرا تھا۔‘‘

۔۔۔۔۔o۔۔۔۔۔

حفیظ جالندھری ، سر کے بالوں سے محروم تھے، کسی بے تکلف دوست نے پوچھا، سر کے بال نہ ہونے سے کوئی مسئلہ تو نہیں بنتا۔

’’مسئلہ کیا بنےگا، البتہ وضو کرتے وقت یہ پتا نہیں چلتا کہ منہ کی سرحدیں کہاں تک ہیں۔‘‘

۔۔۔۔۔o۔۔۔۔۔

دوسری جنگِ عظیم کا زمانہ تھا۔ حفیظ جالندھری برطانوی حکومت کے Song Pubkicity Department کے انچارج تھے۔ ان کی ڈیوٹی تھی ہر مشاعرے میں جنگ کی تائید اورفوجی بھرتی کے موافقت میں کوئی گیت ضرور پڑھیں، چنانچہ کلام سنانے سے پہلے اس قسم کا ایک نہ ایک شعر حاضرین کو زبردستی سنایا کرتے تھے۔ ان کا سب سے مشہور گیت تھا۔

اڑوسن، پڑوسن چہے کچھ کہے

میں تو چھورے کو بھرتی کر آئی رے

اس کا تو خیر مذاق اڑایا ہی جاتا تھا، جب ایک مرتبہ انہو ں نے یہ غزل پڑھی،

ناکامیابی یا کامیابی

دونوں کا حاصل، خانہ خرابی

پڑھتے پڑھتے جب اس شعر پر پہنچے،

دنیا و دیں سے بیگانہ ہو جا

دیوانہ ہو جا، بن جا شرابی

سامعین میں سے کسی من چلے نے کہہ دیا، ’’جزاک اللہ! کیا نیشن بلڈنگ قوم کو سنوارنے کا پروگرام ہے۔‘‘

۔۔۔۔۔o۔۔۔۔۔

ایک مشاعرے میں ساغر نظامی اپنی غزل سنارہے تھے، جب انہو ںنے یہ شعر پڑھا۔

بہت تلخ تھی زندگانی مگر

گلوں، گل رخوں میں بسر ہوگئی

حفیظ صاحب نے بے اختیار داد دیتے ہوئے کہا، ’’سبحان اللہ ! کیا بات کہی ہے ’’بسر ہوگئی‘‘ سے یہاں مراد ’’شیریں ہوگئی۔‘‘

۔۔۔۔۔o۔۔۔۔۔

دلّی کے ایک ہندوپاک مشاعرے میں حفیظ جالندھری اپنی غزل سنارہے تھے کہ فراق گور کھپوری نے دفعتاً بلند آواز سے کہنا شروع کیا، ’’واہ حفیظ پیارے! کیاگلا پایا ہے، یار میرا سارا کلام لے لو، مگر اپنی آواز مجھے دے دو۔‘‘ حفیظ فوراً شعر ادھورا چھوڑ کرفراق سے کہنے لگے،

’’فراق صاحب! میں ا ٓپ کا نیاز مند ہوں، میری آوازتو کیا آپ مجھے بھی لے لیجئے ، لیکن خدا کے لئے مجھے اپنا کلام نہ دیجئے۔‘‘

۔۔۔۔۔o۔۔۔۔۔

پطرس بخاری اور حفیظ جالندھری اکھٹے سفر کررہے تھے کہ ایک اسٹیشن پر ایک دوست اسی ڈبے میں داخل ہوئے، جس میں وہ دونوں بیٹھے تھے۔ پطرس نے یہ کہہ کر حفیظ کاتعارف اُن سے کرایا۔‘‘ آپ ہیں ہندوستان کے نامور شاعر، فردوسیِ اسلام، مصنف شاہنامۂ اسلام، نغمۂ زار اور سوزو ساز حضرت ابوالا ثر حفیظ جالندھری۔‘‘ اس دوست نے انتہائی عالمِ اشتیاق میںہاتھ بڑھا کر اُن سے مصافحہ کرتےہوئے کہا، ’’ اچھا آپ جالندھر کے رہنے والے ہیں۔ السلام علیکم!‘‘

۔۔۔۔۔o۔۔۔۔۔

حفیظ جالندھری پہلی بارحج کرنے کے بعد واپس آئے تو اُن کے چہرے پر ریش دراز کا اضافہ ہوچکا تھا، کسی مشاعرے میں ان کایہ حلیہ دیکھ کر سوہن لال ساحر کپور تھلوی نے داڑھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ، کیوں خان صاحب ! یہ شاہنامۂ اسلام کاتازہ ایڈیشن ہے؟‘‘

تازہ ترین
تازہ ترین