• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زبان کیا ہے؟ کوئی لفظ ایسا نہیں، جو حروفِ تہجی کے دائرہ کار سے باہر جاسکے

زبان کیا ہے؟ کوئی لفظ ایسا نہیں، جو حروفِ تہجی کے دائرہ کار سے باہر جاسکے

پروفیسر شاہد کمال

ابتدائے آفر نیش میں کہ جب انسان پتھروں میں رہنا تھا تو ایک دوسرے کو اپنی بات سمجھانے کے لیے مختلف اشاروں اور بے ہنگم آوازوں کا استعمال کرتا تھا۔ یہ آوازیں اوراشارے اُن کے مخصوص حالات اور مزاج کے مطابق ہوتے تھے۔ رفتہ رفتہ لوگوں نے جب یہ محسوس کیا کہ اپنی بات دوسرے کو سمجھانے کے لیے مختلف اشارےاور آوازیں مخصوص ہوگئی ہیں تو اس ترتیب کا احساس ہوتے ہی انسان نے شعوری طور پر اس بات پر غور کرنا شروع کیا کہ کس بات کے اظہار کے لیے کس انداز کا اشارہ یا کیسی آواز استعمال ہوتی ہے، پھر آہستہ آہستہ ان آوازوں کا رواج ہوتا چلا گیا اور یہ بے ہنگم سی آوازیں مستقل حیثیت ملنے کے سبب ایک منظّم شکل میں ڈھلنی شروع ہوگئیں۔

ہر خطے کے لوگ اپنے اپنے انداز میں اپنے جذبات کے اظہار کے لیے مختلف اشارےاور آوازیں نکالتے تھے،جس کی سب سے بڑی قباحت یہ تھی کہ رابطے کا یہ ذریعہ ہر چھوٹے سے گروہ تک محدود ہوتا ، اس سے باہر کے کسی شخص کو اپنی بات سمجھانے کے لیے دشواری رہتی، اس کے علاوہ یہ کہ یہ گفتگو انسان کے وجود سے مشروط تھی، کیونکہ بات کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے دونوں اشخاص کا سامنے ہونا ضروری ہوتا تھا اور یہ ذریعہ اسی حد تک کار آمد تھا، لیکن سماعت یا بصارت کی حدود سے نکل جانے کے بعد اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں تھا۔

انسان نے پہلے پہل مختلف نشانیوں کے ذریعے پیغام رسانی شروع کی، اس کے بعد درختوں اور پتوں پر مختلف انداز کے مختص شدہ نشانات کندہ کرنے شروع کئے اور یہیں سے جذبات کے اظہار کے لیے تحریر کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ گویا کہ انسان نے اپنی صوتیات کو اپنی یادداشت میں محفوظ کرنے اور پھر اسے تازہ کرنے کے لیے تمام آوازوں اور اشاروں کو شکل دینی شروع کی، جیسے جیسے یہ نشانات متفقہ ہوتے گئے، زبان کی ایک باقاعدہ شکل سامنے آتی گئی اور یوں ہر خطہ کے لوگوں نے معاشرتی رابطے کے لیے باقاعدہ زبانوں کی ترویج کے بارے میں سوچنا شروع کردیا، جس کے نتیجے میں روئے زمین پر مختلف گروہوں میں یہ عمل شعوری طور پر شروع ہوگیا۔ ہر خطے میں بسنے والے ہر گروہ نے اپنی صوتیات کو حروف اور پھر لفوں کی شکل دی اور آج ہمارے عہد تک آتے آتے بنی نوع انسان اس بات پر متفق ہوگئی کہ دنیا میں بسنے والا کوئی بھی شخص، جو کوئی بھی زبان بولتا ہو، وہ کوئی ایسی آواز نہیں نکال سکتا، جس کے ہجّے وہ اپنے حروف تہجّی کے ذریعے نہ کرسکتا ہو، اس تمام صورتحال کے نتیجے میں وہ مستحکم چارٹ سامنے آیا ،جس کی تالیف اِس قدر جامع ہے کہ زبان کا کوئی لفظ ایسا نہیں جو حروف تہجّی کے دائرہ کار سے باہر جاسکے۔ اس مذکورہ بالا گفتگو سے یہ بات تو بہر حال سامنے آتی ہے کہ زبان کا فروغ اس کے استعمال سے ہوتا ہے ، اس کی تفہیم کے لیے بڑا حصہ آدمی کی سماعت کا ہوتا ہےاور بہت کم حصہ اس کی بصارت کا، جس سے بعض اوقات ان الفاظ کا بھرپور تاثر سامنے آجاتا ہے ،جن کی صوتیات اس کے کان میں آئی ہو، یہی وجہ ہے کہ آدمی صرف وہی زبان سیکھتا ہے، جس کی صوتیات وقتاً فوقتاً اس کے کان میں آرہی ہو اور اس عمل میں شعوری کوشش کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی سو ہم جب کسی ایسی جگہ جاتے ہیں، جہاں کی زبان ہم نہیں جانتے تو اُس وقت ہماری حالت بالکل وہی ہوتی ہے،جو ابتدائے آفرنیش میں انسان کی تھی۔ ہم اپنی بات سمجھانے کے لیے اشاروں وغیرہ کا سہارا لیتے ہیں، کیونکہ اُس وقت ہماری کیفیت گونگے آدمی کی سی ہوجاتی ہے، لیکن اگر ہم اس ماحول میں کچھ دن گزارلیں تو وہاں کی بولی آہستہ آہستہ ہمارےکان میں پڑتی ہے اور ہم لاشعوری طور پر اسے سیکھتے جاتے ہیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ تمام الفاظ ہماری Vacabloryکا حصہ بن جاتے ہیںاور ہم اس ذخیرۂ الفاظ کو تاثر کے مطابق ترتیب دے کر اس زبان کے بولنے والوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ سو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہزاروں برس پہلے کی یہ بے ہنگم آوازیں ہمارے عہد تک آتے آتے باقاعدہ طور پر زبانوں کی شکل اختیار کرگئی ہیں اور ہر زبان کی صوتیات حروفِ تہجّی کی شکل میں موجود ہیں، جو اس قوم کے مجموعی مزاج کے عین مطابق ہوتے ہیں۔ یوں جب کوئی زبان اپنے ارتقاء کے مرحلے سے گزر کر ایک باقاعدہ تحریری شکل اختیار کرلیتی ہے تو وہ اُس معاشرے کے لوگوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بن جاتی ہے، لیکن بات یہاں پر تمام نہیں ہوتی الفاظ کے اس ذخیرے کو محفوظ کرنے کے لیے کچھ ایسی سرگرمیوں کی ضرورت ہوتی ہے، جو زبان کے مستقبل کی ضمانت بن سکیں، ایسی صورتحال میں کسی بھی زبان میں ادب کی تخلیق ہوتی ہے، جو زندگی سے جڑا ہوا ایک ایسا آئینہ ہے،جس میں سوسائٹی کے ہر رویے کی تصویر بہت واضح اور صاف دکھائی دیتی ہے۔ قابل ِ ذکر بات یہ ہے کہ یہ تصویر تخلیق کار کے شعور سے ہوتی ہوئی اُس کے لاشعور سے منعکس ہوکر لفظوں کی شکل میںو ارد ہوتی ہے، جو اپنی ہیئت کے اعتبار سے بہر حال مختلف ہوسکتی ہے۔ یوں جب تک سوسائٹی کے اس رویےکا تسلسل موجود رہتا ہے، تب تک ادبی تخلیقات اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہیں اور کوئی بھی زبان نہ صرف کاغذ پر محفوظ ہوتی رہتی ہے، بلکہ اپنے عہدے کے لوگوں کی کیفیات اور احساسات کی تصویر کشی بھی کرتی رہتی ہے۔

تازہ ترین