ٹوم ہیرس
آج کے فیصلے کی بنیاد پر سیاستدانوں اور حکومت کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ متاثرین کی جانب سے پولیس کی کردار کشی اور ممکنہ طور پر ہونے والی بربادی کے ان نقصانات سے کس طرح بچنا چاہیے۔ یہ ایک ایسی وقتی راہ ہے جس سے ممکنہ جاری اخراجات کو ظاہر کرنے کا وسیع پیمانے پرسمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔
برطانیہ میں سلسلہ وار ریپ کے بدنام زمانہ کیس ’’وربوائز کیس‘‘ متاثرین کیلئے پہلے ہی بدتر سمجھا جا رہا تھا اور اس کیس کے مجرم جان وربوائز کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے 100؍ سے زائد خواتین کو ہوس کا نشانہ بنایا۔
یہ کیس برطانیہ کی میٹروپولیٹن پولیس کیلئے بھی بدترین کیس ثابت ہوا ہے کیونکہ ادارے کی فاش ناکامی کی وجہ سے ہی جان وربوائز کے متاثرین کی تعداد 100؍ سے تجاوز کر گئی تھی۔ جان وربوائز کا اصل نام جان ریڈ فورڈ تھا اور وہ ٹیکسی چلاتا تھا، یہی وجہ ہے کہ اسے بلیک کیب ریپسٹ کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔
لیکن آج سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے، جس میں ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کی توثیق کی گئی ہے، سے اس کیس کی کایہ پلٹ دے گی کہ پولیس نے جرم کی تحقیقات کے لئے کس طرح رویہ اختیار کئے رکھا اور متاثرین کے ساتھ اس کا رویہ کیسا رہا۔
بلیک کیب ٹیکسی چلانے والے ووربوائز نامی ڈرائیور نے جن دو خواتین کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا نے میٹروپولیٹن پولیس کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے اورموقف اختیار کیا ہے کہ پولیس کی ووربوائز کو گرفتار کرنےمیں ناکامی سے ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اسی طرح سے یہ خبر تھریسامے کے لیے بھی اچھی ثابت نہیں ہوتی۔
کم از کم 20 سال قبل میٹ پولیس کو سیاہ فام نوجوان سٹیفن لارنس کیس میں تحقیقات کے بعدمیکفسن کی جانب سے ایک 'نسل پرست ادارہ بتایا گیا تھا۔جنسی زیادتی کے واقعات اور اس کے متاثرین کیساتھ فورسز کے رویے پر شدید مذمت کی جارہی ہے۔ ووربوائز کا معاملہ اس سے الگ نہیں بلکہ یہ بھی اسی طرح کے جرائم کرنے والا مجرم ہے۔
دسمبر 2011 میں برطانیہ کی ایک ایجنسی کراون پراسکیوشن سروس (سی پی ایس) کی جانب سے فراہم کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 2009 سے 2010 اور 2016 سے 2017 کے دوران عصمت دری کے واقعات کی شکایت میں اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ سزاپانے والوں کی تعداد اس سے کم ہے۔دوسرے الفاظ میں بیان کیا جائے تو 2010 سے عصمت دری کے ملزمان کو سزادینے کے امکانات نصف ہوچکے تھے۔
عصمت دری کے واقعات میں صحیح معنوں میں تحقیقات نہ کرنا ہی ناکامی نہیں تھی بلکہ فورسز کی سرگرمیوں کے برعکس افسران کی جانب سے کیے گئے عمل کے نتیجے میں گزشتہ سال دوہائی پروفائل کیسز متاثر ہوئے تھے، جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ خفیہ اداروں کو دفاع میں آنے والے ثبوت تک رسائی نہیں ملی جس سے ممکنہ طورپر جنسی زیادتیوں کے ان ملزمان کو کیخلاف کارروائی میں مدد مل سکتی تھی۔
گزشتہ دو دہائیوں میں نسل پرست ادارےکے لیبل سے بچنے کے لیے میٹروپولیٹن پولیس نے ادارے کو ترقی پذیر بنانے کی بہت کوششیں کیں، لیکن اب یہ ادارہ متاثرہ خواتین سے توہین آمیز سلوک کرنے میں ملوث پایا گیا ہے۔
آج ہونے والے فیصلے کے شدید اثرات میٹروپولیٹن پولیس اور بالخصوص لندن پر مرتب ہوں گے کیونکہ اب اگر متاثرین کی جانب سے سنگین قسم کے جرائم کی شکایات کرنے کے باوجود پولیس افسران نے مکمل اور مناسب طریقے سے تحقیقات نہ کی تو متاثرین ان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
آج کیس کی سماعت میں لورد کیر نے کہا کہ "اکثرت رائے سے ہم نے یہ طےکیا ہے کہ فراہم کیے گئے مقدمات جوکافی حد تک سنگین سمجھے جاتے ہیں ان میں پولیس کو تحقیقات میں ناکامی کی جواب دہی ہوگی"۔
لہذا دو متاثرین جن کو 2014 میں 41ہزار پائونڈ کا ہرجانہ دیا گیا تھا ، ان کی جانب سے دائر کیا گیا مقدمہ قانونی جائز اور درست تھا ، دوسری جانب ملک بھر میں پولیس کے تمام اداروں کا بجٹ سخت مشکل اور دباؤ کا شکار ہےاور ہرجانے کی رقوم میں اضافے سے اسے مزید مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے ۔
سیاسی طور پر اس فیصلے سے وزیراعظم کے اپنے فیصلے پر مایوسی پھیلتی نظر آرہی ہےکیونکہ یہ وہی تھریسا مے تھیں جنہوں نے چار سال قبل وزیر داخلہ کے طور پر ہرجانے کے خلاف پولیس کی اپیل کی حمایت کی ، یہ وہی تھریسامے تھیں جنہوں نے بعد میں اعلیٰ عدلیہ کے دیے گئے فیصلے کیخلاف میڑوپولیٹن پولیس کی جانب سے کی گئی ایک اپیل کی حمایت کی ،جو آج ہونے والی سماعت میں متفقہ طور پر عدالت کی جانب سے مسترد کردی گئی۔
انتہائی معذرت کیساتھ یہ کیس انسانی غلطیوں، غلط فیصلوں اور خواتین کیساتھ توہین آمیز رویے اختیار کرنے کے حوالے سے ابتداء سے لیکر اختتام تک معذرتوں سے بھرپور ہے۔ اس کے آخری خدوخال کا موازنہ اگر ووربوائز کے متاثرین کو درپیش ناانصافیوں، تشدد اور غیر انسانی سلوک سے کیا جائے تو اس میں سب سے اہم مسئلہ معاشی بوجھ کا ہوگا جبکہ اس سے چند افسران بلکہ قومی سطح کے سیاستدانوں کا کیرئیر بھی خطرے میں ہوگا۔
سپریم کورٹ نے قانون میں کسی قسم کی تبدیل نہیں کی بلکہ وہی فیصلہ پڑھ کر سنایا جو قانون کی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔لہذا میٹروپولیٹن پولیس کو ووربوائز کیس کی تحقیقات میں قانونی ذمہ داریوں کی مکمل آگاہی کے ہر لحاظ سے اپنے کیے گئے اعمال اور فیصلوں پر معذرت کرنی پڑی۔
آج کے فیصلے کی بنیاد پر سیاستدانوں اور حکومت کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ متاثرین کی جانب سے پولیس کی کردار کشی اور ممکنہ طور پر ہونے والی بربادی کے ان نقصانات سے کس طرح بچنا چاہیے۔
یہ ایک ایسی وقتی راہ ہے جس سے ممکنہ جاری اخراجات کو ظاہر کرنے کا وسیع پیمانے پرسمجھوتا نہیں کیا جائے گا،لیکن خفیہ اداروں کے ناقص فیصلوں کی وجہ سے یہ کوئی نہیں چاہتا کہ پولیس فورس وسائل سے محروم ہو اورمستقبل میں متاثرین کو انصاف نہ ملے۔
اسی طرح اگر سنگین جرائم میں تحقیقات کی سربراہی کرنے والوں کی توجہ ہرجانے کی بڑی رقوم ادا کرنے کے خطرے پر مرکوز ہو تو اس کے نتیجے میں اس طرح کے جرائم جلد حل ہوں گے اور ہم سب ان کی اس کارکردگی پر ان کے شکرگذار ہوں گے اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوگا۔