• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا سیاسی کلچر سخت نفرت،عداوت اور بعض کے گرد گھوم رہاہے، اس سے کیسے بچ سکتے ہیں

ہمارا سیاسی کلچر سخت نفرت،عداوت اور بعض کے گرد گھوم رہاہے، اس سے کیسے بچ سکتے ہیں

(ٹوم ہیرس )

اگر ہمارے رہنماؤں نے گزشتہ چند پرآشوب دور سے کچھ سیکھا ہوگاتوہم نے صرف ریفرنڈم کا انعقاد کرنا ہی سیکھا ہوگا۔

1975 سے قبل آپ کسی بھی اہم معاملے میں ریفرنڈم کرواسکتے تھےتاکہملک خود اپنے فیصلےکرسکے اس کے بعد ہم سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہوجاتے۔ مثال کے طور پرکیا برطانیہ کو کامنز مارکیٹ کا رکن رہنا چاہیے یا نہیں۔ 

آج سوشل میڈیا کے دور میں بہت زیادہ جذباتی وجوشیلے تبصرے نہ صرف نفرتمحسوس کراتے ہیں بلکہ جتنا ممکن ہوسکے اس کا پرچار کیا جاتا ہے۔ 

ریفرنڈم کابنیادی مقصد سیاسی اختلاف رائے کی نشاندہی کرناااور بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہے جس میں اعصابی تناؤ کی شدت کونہایت اہم سمجھا جاسکتا ہے ۔

آزادی کے حوالے سےاسکاٹ لینڈ کی خودساختہ خانہ جنگی کے تین سال کے بعد ہمارے شہری خلاف دستوران کے غم کو بھلانے کےلیے تیارنظر آتے ہیں تاکہ ایک سائیڈ کھونے کی وجہ سے ناراض لوگوں کو مناسکیں یا ایسے اسکاٹش خصوصیت کی طرح جیت کے بعدکہیں اتنا تلخ نہ ہوجائیں۔

برطانیہ کی یورپی یونین سے انخلا کےلئےریفرنڈم کےانعقاد کے ایک ہفتے کے بعد میں اپنے انتخابی حلقے میں کچھ شہریوں سےبات چیت کررہا تھااسی دوران اس علاقے میں ایک شہری مجھے قریب دیکھ کرتیزی سے اپنے گھر کی طرف بھاگااور درواہ بند کرکے زور زور سے چلانے لگالیکن دروازے بند اوراس کے پڑوسیوں کے پردے گرنے کے باوجود ہر کوئی اس کی بلند آواز سن سکتا تھا۔ وہ غصے میں کہہ رہا تھا کہ مجھے کبھی ووٹ نہ دیا جائے کیونکہ میں نے آزادی کے خلاف مہم چلائی تھی۔

میں نے اس وقت سوچا کسی بھی بالغ شخص کیلئے یہ ایک مخصوص رویہ ہوگا لیکن جب میں اسکاٹ لینڈ میں تھا تو وہاںریفرنڈم کے بعد میں نے کسی کابھی اس طرح رویہ نہیں دیکھا۔ اور اب یورپی یونین ریفرنڈم کے دو سال بعد ملک کے بقیہ حصوں میں وہی مایوسی اور برے رویے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

عقلمند او اعتدال پسندوزیرخارجہ السٹیر برٹ ،سیاست میںبہترین شخصیت میں سے ایک ہیں جن سے آپ کو کبھی ملنے کا اتفاق ہو ، نےاپنے سابق پارلیمنٹری ( اور پارٹی) ساتھی، ڈوگالاس کارزویل کوبریگزٹ کے مخالفین کو گٹھیاپن یا کمینہ پنقرار دینے پرسخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

الیسٹیر نے کہا کہ ’’ایسے دشنام طرازی، گالم گلوچ کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں؟آپ یقینااس سے اختلاف کریں گے لیکن یہ بچوں جیسی باتیں ’’غدار یا گھٹیا پن‘‘ہےجو میرٹ پر دلائل نہیںدےرہیں بلکہ اس ملک کو منقسمکرنے کا سبب بنیںگی۔ ‘‘ان کا موقف بالکل درست ہے۔

اس قسم کے الفاظ کا چناؤ اور انداز گفتگو سے ایساتاثر قائم ہوگا ’’جو ہم نہیں ہیں۔‘‘میرے پاس ایسے خوش فہم لوگوں کےلیے بری خبر ہے:بالکل اسی طرح جو ہم ہیں۔لیکن ہمیں ایسا نہیں بننا پڑے گا کیونکہ ہم اب بھی تبدیل کرسکتے ہیں۔

عام طور پر یہ صرف بریگزٹ یا ریفرنڈم کی بات نہیں ہے۔ لیبر پارٹی کے نازیبا الفاظ کے چناؤ کی وجہ سے خوف زدہ ہیںاوران کے خراب رویوں نے ہماری سیاسی استحکام کو بلندی تک پہنچایا۔آپ کو کوربائنسٹا یا ٹوئٹر یا فیس بک میں کنزرویٹو سپورٹرز کو بطورجھاگ یا شیطان یا کیڑے مکوڑے کےبارےمیںگرافکس انفارمیشن کے حوالےسے کو ڈھونڈنے میں زیادہ دورجانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ برطانیہ کی یورپین یونین سے انخلا کے حامی ووٹرز کند ذہن جبکہ یورپی یونین کے حمایتی غدار ہیں۔

اس قسم کی صورتحال کو ختم ہونا چاہیے لیکن مجھے خدشہ ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔

لیکن آج خیالات و تاثرات اور شیئرنگ کے دور میں جو چیزیں ہمارے ذہنوں تک پہنچتی ہیں۔ہم جو بھی لکھتے ہیں ہم دوسروں اور اجنبیوں کو بلاسوچے سمجھیں اس پراپنے خیالات کا اظہار کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ ہم بحیثیت قوم بہت سادہ ہیں اپنے احساسات اورغم و غصے کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔شایدہم جبلتی طور پرانے خیالات کے بارے میں محسوس کرتےہیں کہ ہم شیئر نہیں کرسکیں گے۔

بالکل اسی وقت برطانیہ میں کئی لوگ اپنے امریکی کزن کےلیے اپنینفرت کو بچاکر رکھیں گے۔ وہ لوگ ٹرمپ کی اوٹ پٹانگ حرکتوں کی طرف دیکھتے ہیں جو ان کو خودپسندسمجھتے ہیں ۔ گویا وہ اپنے ہی ملک پر قبضہ کرنے کے لئے ا بھی بھی کوئی مقبول تحریک چلارہے ہیں ۔

لیکن سوشل میڈیا کے دور میں ٹرمپ بلاشبہ ایک لاعلاج اورناگزیر چیر ہیں جس میںبہترین طریقے سےپذیرائی یا دھمکی دینے کے ساتھ ساتھ کے ساتھ مخالفت کی جاتی ہے۔

ٹوئٹر کی دنیا میںرکنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہر ٹوئٹ میں پیارا سا’’دل ‘‘ کا آئیکن ہونے کےباوجود ’’لائیک ‘‘ کا کوئی آپشن نہیں ۔اس میں صرف محبت اور نفرت کے آپشن کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا۔ یہ ٹرمپ ازم ہے جہاں ہرکوئی اچھی چیزوں یا ہٹلر کے عقیدے یا خیالات کے بارے میں لکھ کر اظہار خیال کرتا ہے ۔

یہ اسی طرح ہے کہ ہم اپنے مخالفوں کو کیسے ہمنوا بناتے ہیں اوراپنے پسندیدہ رہنماؤں کو قابل احترام سمجھتے ہیں ۔ اسی طرح کیسے ہماری مقصدیت اور اعتدال پسندی ختم ہوجاتی ہے۔ سب اہم بات یہ اس وقت لحاظ مروت اور اہمی عزت وتکریم وہاں دی جاتی ہے جہاں اناکو قربان کیا جاتا ہے۔

میں بڑی شدت سے لبرل پارٹی کے وننگ کیلئےایک بات محسوس کررہا ہوں۔ میں یورپی یونین سے علیحدگی کے مخالفین کےلیےغیرقانونی حمایت کرنے والوں کی جانب سے یہ واضاحت کرنے پر بہت زیادہ اطمینان محسوس کرتا ہوں لیکن اپنے سابق ساتھیوں کی تہہ دل سے عزت اور ان سے محبت کرتا ہوں ۔

 میں انہیں غداریا پانچواں کولمنسٹ کے طور پر دیکھنے سے انکار کرتا ہوں اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ مجھے بےوقوف سمجھنے سے کہیں زیاد ہ میری عزت کریں گے۔

ہمیں اس دنیا میں طشنام طرازی، بغض، نفرت کیسے ملے؟میں کوئی سادہ مزاج کا انسان نہیں ہوں کہ اس بات پر یقین کرلوں کہ صرف ایک کوک کی بوتل سے دنیا کو خرید سکتا ہوں اور ’’تصورارتی دنیا‘‘ میں گانا گا کر سب کچھ ٹھیک کرسکتاہوں۔

 ہمیں اس حوالے سے جو اقدامات کرنے کی ضرورت ہےوہ یہ کہ گہری سانس لیتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹیں۔ انسانیت کو پہنچانیں اور مخالفین کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں۔

تازہ ترین