ایوب خان کے خلاف تحریک چل چکی تھی،مزدوروں اور کسانوں کی طرح طلباء بھی بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ لاہور میں ان دنوں ہر روز احتجاجی جلوس نکلتا تھا اور احتجاج کا مرکز زیادہ تر مال روڈ ہوا کرتا تھا۔ احتجاج کرنے والوں پر جب پولیس لاٹھی چارج کرتی تھی تو پھر مال روڈ سے ملحقہ سڑکوںپر مظاہرین سے ان کی آنکھ مچولی چل پڑتی تھی۔ آخر میںکچھ مظاہرین توپولیس سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے لیکن بہت سے بدقسمت پولیس کے ہتھے بھی چڑھ جاتے تھے۔ اب جب روز روز احتجاج کیا جائے تو یقیناََپکڑے جانے کے امکانات خودبخود ہی بڑھ جاتے تھے اور ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔’’جمہوریت کو بحال کروــ" کا نعرہ لگانے کی پاداش میں گرفتار ہوا اور تھانیدار کے روبرو پیش کر دیا گیا۔ تھانیدار نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور پھر مشورہ د ینے والے انداز میں فرمانے لگا کہ یہ جمہوریت کا چکر چھوڑ دو اور تعلیم مکمل کرنے کی طرف توجہ دو۔وہ جوانی کے دن تھے،جوش عروج پر تھا اس لئے میں نے اکڑتے ہوئے تھانیدار سے کہا کہ قانونی کارروائی مکمل کرو اور میرے مستقبل کی فکر چھوڑو۔ دل ہی دل میں یہ بھی سوچا کہ اس بیچارے کو کیا پتہ کہ جمہوریت کیا چیز ہوتی ہے۔
آج سوچتا ہوں کہ شاید وہ تھانیدار ٹھیک ہی کہتا تھا، اگر اس وقت جمہوریت کی بحالی کی جنگ کی بجائے کچھ فکر اپنے مستقبل کی کر لی ہوتی ، پڑھائی پر توجہ دے لی ہوتی تو شاید سول سروس کا امتحان ہی پاس کر لیتا اور چالیس سال افسر شاہی کے مزے لیتایا پھر کوئی کاروبار ہی کر لیا ہوتا، تو کم از کم ان پچاس سالوں میں ارب پتی نہ سہی کروڑ پتی تو بن ہی گیا ہوتا۔۔۔ کیونکہ جس منزل کے حصول کے لئے میں نے اور میرے کئی ہم عصروں نے اپنی جوانیاں ضائع کر دیں وہ منزل تو پچاس سال گزرنے کے بعد بھی نہیں آئی۔ ایوب خان جاتے جاتے اقتدار یحییٰ خان کو سونپ گئے اور پھر یحیٰی خان نے دولخت ہوا پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر دیا۔ بھٹو صاحب کے دور حکومت میں پاکستان کو انیس سو تہتر کے آئین کی صورت میں ایک دستاویز تو مل گئی لیکن اس آئین کی روح پر کبھی مکمل عمل درآمد نہ ہو سکا۔ چند ہی سالوں بعد جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر شب خون مار کر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کر دی، بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اور ملک سے جمہوریت پھر رخصت ہوئی۔ پاکستان کے آئین کے بارے میں جنرل ضیاء الحق کہا کرتے تھے کہ یہ ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے، جب چاہوں اسے پھاڑ کر پھینک دوں اور نیا بنا لوں۔
وہ صرف کہنے کی حد تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ انیس سو تہتر کے آئین میں ان کے گیارہ سالہ دور اقتدار کے دوان اتنی تبدیلیاں کی گئیں کہ آئین ایسی شکل اختیار کر گیا جو اپنے پیش رو سے بہت مختلف تھی۔ضیاء الحق کے جانے کے بعد جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے اقتدار سنبھالا تومجھ جیسے پرانے انقلابیوں نے سوچا کہ اب تاریک رات کے بعد جمہور کی جو صبح طلوع ہوئی ہے وہ تاریکیوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دے گی۔ لیکن پھربے نظیر بھٹو کی حکومت، صدر مملکت کے صوابدیدی اختیارات کا نشانہ بن گئی۔ آرٹیکل اٹھاون دو ب کا سہارالے کر صدر غلام اسحٰق خان نے بے نظیر بھٹو حکومت کو وقت سے پہلے فارغ کر دیا۔ اس کے بعد باری آئی میاں محمد نوا زشریف کی، پنجاب کے وارث کے طور پر ابھرنے والے مسلم لیگ کے رہنما بھی کچھ زیادہ خوش قسمت واقع نہیں ہوئے۔ ان کی حکومت کو بھی صدر غلام اسحق خان نے ہی چلتا کیا۔ گو نواز شریف کو سپریم کورٹ سے ریلیف مل گیا لیکن پھر بھی انہیں اور صدر غلام اسحق خان دونوں کو ہی اقتدار سے رخصت ہونا پڑا۔ ایک بار پھر اقتدار بینظیر بھٹو کے پاس آگیا لیکن اس بار بھی وہ زیادہ عرصہ وزیر اعظم نہ رہ سکیں اور ان کی اپنی پارٹی کے نامزد کردہ صدر فاروق لغاری نے اسمبلیاں توڑ دیں۔الیکشن کے بعد نواز شریف نہ صرف پھر سے وزیر اعظم بن گئے بلکہ قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے تیرہویں ترمیم کے ذریعے آئین سے اٹھاون دو ب کو باہر نکال دیا۔ لیکن اس کے باوجود بھی وہ انیس سو ننانوے میں اپنے ہی تعینات کئے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہو گئے ۔پھر جنرل مشرف نے ایک کنگز پارٹی بنا کر آئین میں اپنی مرضی کی ترامیم کروائیں اور پاکستان کی پارلیمنٹ سے صدر بھی منتخب ہو گئے۔ تقریباََدس سال اقتدار پر قابض رہنے کے بعد ،چیف جسٹس افتخار چوہدری کو نوکری سے فارغ کرتے کرتے جب جنرل مشرف خود اقتدار سے فارغ ہوئے تو پھر سے ملک میں ایک نئے جمہوری دور کا آغاز ہو گیا، جو فی الحال جاری ہے۔
اس تمام عرصے میں جب بھی جمہوری حکومتیں اقتدار میں رہیں،سیاسی جماعتیں جمہوریت کی بات تو کرتی رہیں لیکن جمہوری روایات کے برعکس انہوں نے کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اپنے مخالف کو زیر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ آج جب سیاستدان سویلین بالادستی کی بات کرتے ہیں تو وہ نہ جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ سویلین بالادستی کو سب سے زیادہ نقصان انہوں نے خود ہی پہنچایا ہے۔ وقتی فوائد کی خاطر انہوں نے کئی ایسے فیصلے کئے جو کہ بعد میں خود ان کے لئے مسائل کا سبب بنے۔ بات یہیں تک محدود نہیں رہی، عوام کے نمائندے ووٹ لے کر منتخب تو ہو گئے لیکن اسی عوام کی فلاح کے لئے انہوں نے کبھی کوئی خاطر خواہ قانون سازی کرنے کی کوشش نہیں کی ۔قانون سازی تو دور کی بات ہے، یہاں تو اسمبلی کے اجلاس میں نہ ممبران شریک ہوتے ہیں اور نہ ہی وزیر۔اس دور حکومت میں سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے تو مستعفی ہونے کی دھمکی تک دے دی تھی کیونکہ وزراء سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کو اپنی توہین سمجھتے تھے۔ پنجاب کی اسمبلی میں تو پچھلے پانچ سال کورم ہی پورا نہیں ہو سکا اوریہی وجہ تھی کہ پنجاب میں بننے والی نئی یونیورسٹیوں کا بل کتنے سیشنز تک پاس ہی نہ ہو پایا۔ جب عوام کے منتخب نمائندے ان کے فائدے کے لئے قانون سازی کرنے میں ہی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تو پھر یہ سویلین بالادستی کا نعرہ بڑا کھوکھلا سے لگتا ہے۔ عوامی نمائندگی کا حق رکھنے والے، دوسروںسے تو ووٹ کی عزت کرنے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں لیکن کیا وہ خود صحیح معنوں میں خود کو دیئے جانے والے ووٹوں کی عزت کرتے ہیں؟ جس جمہوریت کا خواب ہم نے جوانی میں دیکھا تھا وہ صرف سیاسی جماعتوں کوووٹ دے کر اقتدار میں پہنچانے کا نام تو نہیں تھی، ہم تو ایسی جمہوریت کا خواب دیکھتے تھے جہاں نمائندے عوام کے ووٹو ں سے منتخب ہو کر اسی عوام کی امنگوںکی ترجمانی کرتے۔۔۔ مگر پچاس سال بعد بھی ایسی جمہوریت ابھی دور ہی دکھائی دیتی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)