پروفیسر محمد یونس جنجوعہ
قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے:’’پھر ہم نے وارث کئے کتاب کے وہ لوگ جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چُن لیا۔‘‘یہ آیت مسلمانوں کی فضیلت پر شاہد ہے ۔فضیلت والے اس مقام کا تقاضا ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں ۔
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا:’’بلاشبہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘(سورۃ الحجرات)گویا ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کا خیر خواہ اور غم خوار ہو۔ہر انسان پسند کرتا ہے کہ اُس کی عزت ہو،اس کو نفع پہنچے ،اُس کی خیر خواہی کی جائے۔
اُس کی غیر حاضری میں اُس کے اچھے کاموں کی تعریف کی جائے۔پس اخوت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مثالی رویہ رکھے ،بلکہ ایسارویہ تو مسلمان ہونے کی علامت ہے۔حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتاہے۔‘‘
اس مضمون کو مختلف احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔ملاقات کے وقت السلام علیکم کہنا شعائر ِ اسلام میں سے ہے۔ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے ملاقات کرتا ہے تو اُس وقت اُس کے لئے سلامتی کی دُعا کرتا ہے ۔
جسے دُعا دی جاتی ہے وہ بھی جواباًانہی الفاظ میں یا ان سے بہتر الفاظ میں دُعا دیتا ہے ۔حضرت حذیفہ بن یمان ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک ایمان والا نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اپنے مسلمان بھا ئی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتاہے۔‘‘
نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’مومن جب مومن سے ملتا ہے،اسے سلام کرتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر مصافحہ کرتا ہے تو دونوں کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں، جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں۔‘‘سلا م اس قدر محبت پید ا کرنے کا باعث ہے کہ رسول ﷺ نے بارہا اس کی تلقین فرمائی ہے۔
آپﷺ نے فرمایا:’’دو مسلمان آپس میں ملتے اور مصافحہ کرتے ہیں تو جداہونے سے پہلے دونوں کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔‘‘(سنن ابو دائود)ملاقات کے وقت مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ خوشی کے جذبات اور خندہ پیشانی سے ملتاہے تو یہ بڑا فضیلت کا عمل ہے۔
حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو خوش کرنے کے لئے اس طرح ملتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے خوش کر دے گا۔‘‘(رواہ الطبرانی فی الصغیر)مسلمان بھائی کے لئے نیک تمنا اور اچھی دُعا بڑ ے اجر و ثوا ب کا باعث ہے۔
اگر یہ دُعا کسی کی غیر حاضری میں کی جائے تو اس کی فضیلت زیادہ ہو جاتی ہے۔حضرت ابو درداء ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا :’’مسلمان کی دُعااپنے مسلمان بھائی کے لئے پیٹھ پیچھے قبول ہوتی ہے۔
دُعا کرنے والے کے سر کی جانب ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے ،جب بھی یہ دُعا کرنے والا اپنے بھائی کے لئے بھلائی کی دُعا کرتا ہے تو اس پر وہ فرشتہ آمین کہتا ہے(اور دُعا کرنے والے سے کہتا ہے)اللہ تعالیٰ تمہیں بھی اس جیسی بھلائی دے جو تم نے اپنے بھائی کے لئے مانگی ہے۔(صحیح مسلم)
جب مسلمان جمائی لیتا ہے تو ’’الحمدللہ ‘‘کہتا ہے ۔جو شخص یہ کلمہ سنتا ہے اُس پر لازم ہے کہ وہ جواباً ’’یرحمک اللہ‘‘کہے۔یعنی اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے۔گویا جب کسی نے اللہ کی حمد کی تو سننے والا اسے دُعا دے کہ اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم کرے۔
یہ اندازِ محبت اور خیر خواہی کامظہر ہے۔زندگی میں بعض اوقات کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے یا مصیبت کا کوئی وقت آ جاتا ہے تو اسی صورت میں اپنے مسلمان بھا ئی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا باعث ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :’’جو کوئی اپنے بھائی کی حاجت پوری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری فرماتا ہے۔‘‘(ابو دائود)گویا دوسرے مسلمان کی حاجت پوری کرنے سے بندہ اللہ کی ذمہ داری میں آ جاتا ہے۔
مسلمان بھائی کو جس طرح کی مدد کی ضرورت ہو مشکل میں اُس کا ساتھ دینا اجروثواب کاباعث اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا سبب ہے۔
حضرت ابنِ عباس ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص اپنے کسی بھائی کے کام کے لئے چل کر جاتا ہے تو اس کا یہ عمل دس سال کے اعتکاف سے افضل ہے اور جوشخص ایک دن کا اعتکاف بھی اللہ کی رضا کے لئے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں حائل فرما دیتا ہے،ہر خندق زمین وآسمان کی مسافت سے زیا دہ چوڑی ہے۔‘‘(طبرانی ،مجمع الزوائد) اسلامی بھائی چارے میں محبت ،الفت اور اپنائیت کا عنصر اس قدر اہم ہے کہ ایک مسلمان کسی دوسرے مسلمان کا بدخواہ اوردوسرے کے لیے اذیت کا باعث نہیں ہو سکتا ۔
اگر ایسا ہو تو اس کا اسلام ہی مشکوک ہو جاتا ہے۔ حضر ت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘(صحیح بخاری)یوں مسلمان اپنے بھائیوں کے لئے شرافت،نرمی اور حمایت کا مجموعہ ہو جاتا ہے۔
مہمان کی عزت کرنا،اس کے آرام اور ضروریات کا خیال رکھنا اسلامی اخلاق کی اہم تعلیم ہے۔ حضر ت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔‘‘آپ ﷺ نے یہ بات تین بار ارشاد فرمائی ۔
ایک شخص نے عرض کیا:یا رسول اللہﷺ!مہمان کا اکرام کیا ہے؟ارشاد فرمایا:’’تین دن۔اور جو اس کے بعد بیٹھا رہے تو میزبان کا کھانا پلانا مہمان پر احسان ہے۔‘‘(مسند احمد)مسلمان بھائی کا اکرام یہ بھی ہے کہ اگر وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کی جائے۔عیادت کے موقع پر ایسی امید افزا گفتگو کی جائے کہ مریض کا دل خوش ہو جائے اور عیادت اس کے لئے سکون اور چین کا باعث ہو ۔
عیادت بڑی فضیلت کا کا م ہے۔حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:’’جو مسلمان کسی مسلمان کی صبح کو عیادت کرتا ہے تو شام تک ستّر ہزار فرشتے اُس کے لئے دُعا کرتے ہیں اور اُسے جنت میں ایک باغ مل جاتا ہے۔‘‘(ترمذی)مریض کی عیادت جہاں بیمار کے لئے خوش آئند ہوتی ہے، وہاں عیادت کرنے والا مریض سے اپنے حق میں دُعا بھی کروا سکتا ہے اور مریض کی دُعا مستجاب ہوتی ہے۔
حضر ت عمر بن خطاب ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:’’جب تم مریض کے پاس جائو تو اس سے کہو کہ وہ تمہارے لئے دُعا کرے،کیونکہ اس کی دُعا فرشتوں کی دُعا کی طرح ہوتی ہے۔‘‘(ابنِ ماجہ)
اگر کوئی مسلمان بھائی ضرورت مند ہو اور وہ قرض کا سوال کرے تو اُسے انکار کر کے مایوس اور بد دل نہیں کرنا چاہئے، بلکہ حسبِ استطاعت اس کی مدد کرنی چاہئے ۔اس طرح ایک مسلمان بھائی اپنی ضرورت پوری کر لے گا اور ضرورت کے وقت کام آنے والا شخص بے حساب اجروثواب پائے گااور اگر مقروض کے نامساعد حالات کی وجہ سے اسے قرضے کی ادائیگی میں مہلت دی جائے تو یہ عمل قرضے کے ثواب سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے ۔
حضرت عمر ان بن حصینؓ روایت کرتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کا کسی دوسرے شخص پر کوئی حق (قرضہ وغیرہ)ہو اور وہ اس مقروض کو ادا کرنے کےلیے دیر تک مہلت دے تو اسے ہر دن کے بدلے صدقے کا ثواب ملے گا۔‘‘(مسند احمد)
اگر مسلمان بھائی عمر میں بڑا ہو تو اس کی تعظیم کی جائے ،ادب واحترام کے ساتھ بلایا جائے ،اُسے عزت کا احساس دلایا جائے اور اگرمسلمان بھائی عمر میں چھوٹاہو تو اس کے ساتھ شفقت اور ہمدردی کا سلوک کیا جائے۔
اسلامی اخلاق کی یہ چیزیں آپس کی محبت اور مودت میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔اس لئے اسلامی تعلیمات میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :’’جو شخص ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے اور ہمارے بچوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔‘‘(مسند احمد)مسلمان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کا عیب ظاہر نہ کرے ۔
اگر کسی مسلمان کو کسی دوسرے مسلمان کی کمزوری ،راز،عیب،غلطی یا گناہ کے کام کا علم ہو جائے تو اُسے دوسروں پر ظاہر نہ کرے،بلکہ اُس کی پردہ پوشی کر کے اُسے ندامت سے بچائے۔یہ بڑے اجرو ثواب کا کام ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’جو شخص دُنیا میں کسی مسلمان کے عیبوں پر پردہ ڈالے گا۔ اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کے عیبوں پر پردہ ڈالے گا۔‘‘(مسند احمد)
اگر کسی مسلمان بھائی سے قصور سرزدہو جائے یا جسمانی تکلیف پہنچے تو حتیٰ الوسع اسے معاف کر دینا چاہئے ۔یہ مسلمان بھائی کا اکرام ہے۔
اگر وہ اپنی غلطی پر معذرت کرے تواُس کی معذرت قبول کر لینی چاہئے۔حضر ت ابو درداءؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کو بھی(کسی کی طرف سے )جسمانی تکلیف پہنچے پھر وہ اسے معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند فرما دیتا ہے اور ایک گناہ معاف فرما دیتا ہے۔‘‘(ترمذی)
اپنے مسلمان بھائی کے بارے میں بدگمانی سے منع کیا گیا ہے اور ہر اس طرزِ عمل اور گفتگو سے باز رہنے کا حکم ہے جس سے اس کی عزت میں فرق آتا ہو یا اہانت ہوتی ہو۔خانہ کعبہ دنیا کے مسلمانوں کا مرکزی مقام ہے۔
اس کا احترام ہرمسلمان کے دل میں ہے۔نماز ادا کرتے وقت مسلمان اُس کی طرف رُخ کرتے ہیں۔حج کے موقع پر اس کا طواف کرتے ہیں۔خانہ کعبہ اللہ کا گھر ہے،اس کی عظمت بہت زیادہ ہے۔خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھ کر اُسے عقیدت سے دیکھنا بھی ثواب کا باعث ہے،لیکن رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق ایک مسلمان کی عزت و حرمت خانہ کعبہ سے بھی زیادہ ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کعبہ کو دیکھ کر ارشاد فرمایا :’’لا الٰہ اِلا اللہ(اے کعبہ)تو کس قدر پاکیزہ ہے،تیر ی خوشبو کس قدر عمدہ ہے اور تو کتنا زیادہ قابلِ احترام ہے (لیکن)مومن کی عزت واحترام تجھ سے زیادہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے تجھے قابلِ احترام بنایا ہے اور (اسی طرح)مومن کے مال ،خون اور عزت کو بھی قابلِ احترام بنایا ہے۔اس بات کو بھی حرام قرار دیا ہے کہ ہم بندۂ مومن کے بارے میں ذرا بھی بد گمانی کریں۔‘‘(طبرانی،مجمع الزوائد)