اسلام آباد(نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں مبینہ جعلی ڈگریوں کے کاروبار میں ملوثʼʼ ایگزیکٹ سافٹ وئیر کمپنی‘‘سے لی گئی پی ایچ ڈی کی مبینہ جعلی ڈگری پر باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں 19ویں سکیل میں پروفیسر کی نوکری حاصل کرنے والے ملزم فواد خان کے خلاف ایف آئی اے کی ایف آئی آر کی منسوخی کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ڈی جی ایف آئی اے کی اپیل کو باقاعدہ سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت مئی کے پہلے ہفتہ تک ملتوی کردی ہے ۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس منظور احمد ملک اور جسٹس سردار طارق مسعود پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سوموار کے روز اپیل کی سماعت کی تو ایف آئی اے کے سپیشل پراسیکیوٹر جنرل ،سید حامد علی شاہ ، ایف آئی اے کے تفتیشی انسپکٹر اسفند یار خان اور ملزم پروفیسر فواد خان پیش ہوا ۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے چار مختلف مقدمات میں قرار دیا ہے کہ اگر کسی ایسی جگہ پر ایف آئی آر درج ہو جائے جس میں دائرہ کار نہ بنتا ہوتو بھی وہ ایف آئی ار منسوخ نہیں بلکہ متعلقہ ادارے کو منتقل کردی جائے گی ،لیکن ملزم فواد خان کی درخواست کی سماعت کے دوران پشاور ہائی کورٹ نے ان فیصلوں کو مد نظر نہیں رکھا ہے ، عدالت کے استفسار پرسپیشل پراسیکیوٹر جنرل نے بیان کیا کہ ملزم فواد خان کے خلاف ایف آئی اے نے ایگزیکٹ سافٹ وئیر کمپنی سے پی ایچ ڈی کی مبینہ جعلی ڈگری پر باچہ خان یونیورسٹی میں 19ویں سکیل میں پروفیسر کی نوکری حاصل کرنے کے جرم میں ایف آئی آر درج کی تھی ، جس میں ابھی تفتیش نامکمل تھی کہ ملزم کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست پر عدالت نے اسے ایک صوبائی فنڈز سے چلنے والی یونیورسٹی کا معاملہ قرار دیتے ہوئے یہ کہہ کر کہ یہ ایف آئی اے کے دائرہ اختیارمیں نہیں آتا ملزم کے خلاف درج ایف آئی آر ہی ختم کردی ہے ،فاضل لاء افسر نے مزید کہاکہ اعلیٰ ڈگریوں کی تصدیق کے معاملات ہائر ایجوکیشن کمیشن کے دائرہ کار میں آتے ہیں ، اس لئے ایم اے یا پی ایچ ڈی کی سطح کی ڈگری کے معاملات پر ایف آئی اے ہی تحقیقات کا اختیار رکھتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نہ صرف ملزم کی ایگز یکٹ سے لی جانیوالی پی ایچ ڈی بلکہ الخیر یونیورسٹی سے جاری ہونے والی بی ایس کی ڈگری بھی جعلی ہے اور اس حوالے سے الخیر یونیورسٹی نے لکھ کر دے دیا ہے کہ یہ اس کی ڈگری نہیں ۔انہوں نے کہاکہ ملزم نے امریکہ میں پیرا مائونٹ کیلی فورنیا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے سے متعلق کوئی سفری دستاویز بھی پیش نہیں کی ہے۔ اس نے جعلی ڈگری کی تصدیق سول مجسٹریٹ صوابی محمد طیب جان جو اس کے سگے بھائی ہیں، سے کروائی ہے۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اس کیس میں دو معاملات ہیں ،اول جعلی ڈگری کا اجراء اور دوئم اس کے ذریعے یونیورسٹی میں نوکری حاصل کرنا۔انہوں نے کہا کہ اس عمل میں تو ملزم کے علاوہ اور بھی مختلف لوگ آتے ہیں،دونوں صورتوں میں سب کے خلاف قانونی کارروائی بنتی ہے۔انہوں نے ریمارکس دیئے کہ اول تو پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ ہی درست نہیں تھا اور اگر ایف آئی اے کے دائرہ کار سے متعلق کوئی غلطی بھی ہوگئی تھی تو وہ مقدمہ کسی دوسرے تحقیقاتی ادارے کو منتقل کیا جانا چاہئے تھا۔دوران سماعت ملزم نے عدالت سے وکیل کی خدمات لینے کے لئے مہلت طلب کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے دفتر خارجہ اور امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے کے ذریعے ان تمام دستاویزات کی تصدیق کروالی ہے جنہیں ایف آئی اے والے جعلی قرار دے رہے ہیں۔ جس پر جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کہیں سفارتخانے والے بھی اس کیس میں ملزم نہ بن جائیں۔جس پر کمرہ عدالت میں ایک قہقہہ بلند ہوا۔انہوں نے ملزم سے استفسار کیا کہ پی ایچ ڈی کی یہ ڈگریاں گھر بیٹھے کس طرح مل جاتی ہیں تو ملزم نے بتایا کہ یہ ڈسٹنس ایجوکیشن ہے۔بعد ازاں فاضل عدالت نے اپیل کو باقاعدہ سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے ملزم کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کو بھی عدالتی ریکار ڈ کا حصہ بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت مئی کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔