• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ، میں اور ہم جیسے سب لوگ پاکستانی سیاست کا خام مال ہیں۔ خام مال کا مطلب سمجھتے ہیں نا آپ؟ چلئے ایک دو مثالوں سے ہم خام مال کا محاورہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ مٹھائی کھاتے ہیں نا؟ اگر کسی وجہ سے نہیں بھی کھاتے پھر بھی آپ نے مٹھائی کا نام ضرور سنا ہوگا۔ اچھے اجزا سے اچھی مٹھائی بنتی ہے۔ اجزا سے مراد گھی، چینی ، پستے، بادام، اخروٹ، بیسن، سوجی وغیرہ اور اسی نوعیت کی دوسری چیزیں جن سے لذیز مٹھائی بنتی ہے ، ان اجزا کو خام مال کہتے ہیں۔ اجزا یعنی خام مال اعلیٰ ہو گا تو پھر نتیجتاً مٹھائی بھی اعلیٰ بنے گی۔ اگر خام مال ناقص ہو گا تو بننے والی چیز، یعنی آپ کی مٹھائی بھی ناقص بنے گی۔ آپ ناقص گوشت، گلے سڑے پیاز ، ٹماٹر، بدبودار دہی، بوسیدہ مسالوں اور چاول سے ذائقہ دار بریانی نہیں بنا سکتے۔ اسی طرح ناقص کھاد سے اچھی فصلیں نہیں اگتیں۔ ہم یعنی آپ اور میں سیاسی خام مال ہیں۔ ہم سے حکومتیں بنتی ہیں۔ ہم اگر پڑھے لکھے، سمجھدار اور اچھے ہونگے تو پھر نتیجتاً حکومت بھی اچھی بنے گی۔ ہم اگر جاہل، بدکردار اور بکائو مال ہوں گے تو پھر ہماری حکومت بھی اقربا پروری، رشوت خوری، چور بازاری، لوٹ کھسوٹ، اور ملک کے خزانوں پر ڈاکہ ڈالنے والوں کی حکومت ہو گی۔ قاتل، لٹیرے اور دوسرے ملکوں کی شہریت رکھنے والے ہمارے حکمران بن جاتے ہیں۔ حکومت اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ارکان، ایم پی اے، ایم این اے اور سینیٹر بناتے ہیں۔ کوئی شخص اپنی مرضی سے ، اپنے بل بوتے پر اسمبلی میں جا کر بیٹھ نہیں سکتا۔ اسے ووٹ دے کر، اپنا نمائندہ بنا کر ہم اسمبلی کے ایوانوں میں بھیجتے ہیں۔ آپ کے اور میرے ووٹ سے مخصوص لوگ ارکان اسمبلی بنتے ہیں۔ وہی لوگ حکومت بناتےہیں اور ہمارے حاکم بن جاتے ہیں۔ میں کسی بھی حکومت سے وابستہ وزرا وغیرہ کو برا بھلا نہیں کہتا۔ میں خود کو برا بھلا کہتا ہوں۔ خود کوکو ستا ہوں۔ میرے حکمران میرے اپنے برے کاموں کا پھل ہوتے ہیں۔
ستر برس سے اک ہی نوعیت کی غلطی لگا تار کرتےہوئے اب ہم ووٹ دینے والوں کو تھوڑی تھوڑی عقل آنے لگی ہے۔ ہمارے ووٹ کے بل بوتے پر اسمبلیوں میں جا کر بیٹھنے والے ہم ووٹ دینے والوں سے اکثر وعدہ خلافی کرتے ہیں۔ ہم سے جھوٹ بولتے ہیں۔ ہمیں دھوکہ دیتے ہیں لہٰذا ہم ووٹ دینے والوں نے اپنی تحریک چلا دی ہے۔ آپ جب چاہیں اس تحریک کے ممبربن سکتے ہیں۔ تحریک کانام ہے، ووٹ دینے والوں کے بنیادی حقوق، یعنی Basic Right of the Voters اپنی تحریک میں شامل نکات کو ہم پاکستان کے آئین کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ مگر کیا کریں اپنے پیر پر خود کلہاڑا چلانے والوں کے پاس پچھتانے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ہم ووٹر اپنے حقوق کے لئے آئین میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں۔ بلکہ یوںکہنا درست ہو گا کہ ہم آئین میں اپنے بنیادی حقوق کا اندراج دیکھنا چاہتے ہیں۔ نکات اور نکات کی وضاحت کرنے سے پہلے میں اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ ہم جن لوگوں کو اپنا ووٹ دے کر اسمبلی کے ایوانوں تک پہچاتے ہیں، وہی لوگ ہم ووٹ دینے والوں کے نکات کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اب آ پ ہم ووٹروں کے نکات اور نکات کی وضاحت سنیں۔
ہم ووٹر اک شخص کو ووٹ دےکر، اپنا نمائندہ بنا کر اسمبلی میں بٹھاتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہم اس ایم این اے یا ایم پی اے کے باس(Boss) ہوتے ہیں۔ جس طرح مالکان کسی مل، کارخانے، فیکٹری، کاروباری ادارے،اسپتال میں ڈاکٹر اور صنعتی ادارے میں انجینئر لگا سکتے ہیں اور ناقص کارکردگی کی بنا پر ان کو ملازمت سے فارغ کر سکتے ہیں۔ عین اسی طرح ہم ووٹروں کو اختیار ہونا چاہیے کہ ہم جس شخص کو ووٹ دے کر اسمبلی میں بٹھاتے ہیں اس شخص کو ناقص کارکردگی کی بنا پر اپنا ووٹ واپس لے کر اسمبلی کے ایوانوں سے نکال سکیں۔ کیا برائی ہے اس نکتے میں؟ سیدھی سی بات ہے ، فلسفہ نہیں ہے۔ ہم اگر ووٹ دے سکتے ہیں، تو اپنا ووٹ واپس بھی لے سکتے ہیں۔ آئین میں کہیں بھی لکھا ہوا نہیں ہے کہ ہم ووٹر ووٹ دینے کے بعد اپنے ہاتھ کاٹ دیتے ہیں۔ ووٹ دینے کے بعد کنوئیں میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ ووٹ دینےکے بعد ہم ووٹر کیا اپنے تمام حقوق سےمحروم ہو جاتے ہیں؟ آئین نے ہمیں پانچ برس بعد پھر سے ووٹ ڈالنے کا حق دے رکھا ہے۔ ہمارا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ ہم نے اگر غلط فیصلہ کرتے ہوئے غلط آدمی کو اپنا نمائندہ بنا کر اسمبلی کے ایوان میں بٹھا دیا ہے، تو پھر ہمیں یہ حق ہونا چاہیے کہ ناقص کارکردگی دکھانے والے رکن اسمبلی کے خلاف ووٹ ڈال کر اسے اسمبلی کے ایوان سے نکال دیں۔ پانچ برس تک ایسے شخص کو برداشت کرنا ہمیں پاگل بنانے کے مترادف ہے۔ اس ایک نکتے کو آئین کی شق بنانے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمارے نمائندے چوکنا رہیں گے لگن سے کام کریں گے۔ ہم ووٹ دینے والو ں کو ڈنگر اورکنکر نہیں سمجھیں گے۔ اسمبلی کے آرام دہ ماحول میں بیٹھے ہوئے ارکان جب جان جائیں گے کہ ووٹ دینے والےووٹ دے کر ان کو اگر اسمبلی کے ایوان تک پہنچاسکتے ہیں، وہی ووٹر اپنا ووٹ واپس لےکر ان کو اسمبلی سے باہر بھی کر سکتے ہیں۔ جزاا ور سزا سے رویوں میں بڑی تبدیلی آتی ہے۔


مانا کہ ووٹ دینےوالے ہم خاص پڑھے لکھے نہیں ہوتے۔ ہماری بہت بڑی تعداد خواندہ بھی نہیں ہے۔ مگر ہم سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اسمبلی میں بیٹھنے والے لوگ قاعدے قوانین بناتے ہیں۔ آئین میں اضافہ اور ترامیم کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ کام ان پڑھ ، معمولی پڑھے لکھے، اور صرف خواندہ لوگ نہیں کر سکتے۔ میٹرک فیل، مڈل پاس، انٹر پاس ارکان ملک نہیں چلا سکتے اور جب چلاتے ہیں تو ہر شے کو چلتا کر دیتے ہیں ہم ووٹ دینے والے ان پڑھ سہی، ہمارا مطالبہ ہے کہ اسمبلی میں بیٹھنے والے ہمارے نمائندے پڑھے لکھے ہوں ۔ کیا یہ مطالبہ ناجائز ہے؟ ہم ووٹ دینے والوں کا مطالبہ ہے کہ ارکان اسمبلی اپنے اثاثے ظاہر کرنے کے علاوہ اپنی تعلیم و تربیت کے بارے میں بھی بتائیں۔ ورنہ پھر کسی دفتر میںکلرک لگنے کے لئے بی اے پاس ہونےکی شرط مضحکہ خیز لگتی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین