سپریم کورٹ میں پاکستانیوں کےغیرملکی اکاونٹس سے متعلق کیس میں چیف جسٹس نے کہا کہ شیل کمپنیزکوتوڑتےہتھوڑا نہ ٹوٹ جائے،اب چارٹرڈ اکاونٹنٹ ہی رقم واپس لانے میں ہماری مدد کریں گے، کیوں نہ ملک کے 100بڑے لوگوں کوعدالت بلالیں؟
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ پاکستانیوں کے غیرملکی اکاونٹس سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
دوران سماعت جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے ملک کی کرنسی گر رہی ہے، غیرقانونی چینل سے لوگ پیسہ باہرمنتقل کرکے قانونی طریقے سے واپس لے آتے ہیں،اوپن مارکیٹ میں ڈالرخرید کر سب کچھ پاک کرلیاجاتاہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ منی چینجرکواچھی پرسنٹیج دیں تووہ زرمبادلہ کابندوبست کردیتاہے۔
اسپین،ملائشیا ،دوبئی،امریکہ اور فرانس میں لوگوں نے املاک خرید رکھی ہیں،جن لوگوں نے یہ گتھیاں بنائی ہیں وہی انہیں سلجھائیں گے،یہ سب کی ذمہ داری ہے کہ قوم کا پیسہ واپس لایا جائے،شیل کمپنوں کو توڑتے ہتھوڑا نہ ٹوٹ جائے،اب چارٹرڈ اکاونٹنٹ ہی رقم واپس لانے میں ہماری مدد کریں گے،ہم نے پاکستان سے بھاگ کر نہیں جانا ،ہمارے بچوں کا ہم پر حق ہےبچوں کو ایسا ملک دے کر جائیں جہاں وہ خوش و خرم رہیں،کیوں نہ ملک کے 100بڑے لوگوں کوعدالت بلالیں ؟ان لوگوں کوبلاکرپوچھ لیں اپنی بیرون ملک اثاثوں کی تفصیل دیں ،ممکن ہے بڑے لوگ ہماری بات مان کرتفصیلات دے دیں، کتنے لوگ ملک چھوڑ کرچلے جائیں گے ؟اپنے بچوں کوبہترین پاکستان دیناہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت کو بیرون ملک اکاونٹس کی تفصیلات لینے کاحکم دیاہے۔
گورنراسٹیٹ بینک نے کہا کہ بیرون ملک اثاثوں کی تصدیق ہوجائے گی لیکن وقت لگے گا،پوری دنیامیں ڈیکلئیرڈ اثاثوں کے گرد گھیراتنگ کیاجارہاہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گھیراتنگ کرنے سے آپ کی کیامراد ہے ؟یہاں پاکستان میں کیسے گھیراتنگ ہوگا ؟
گورنراسٹیٹ بینک نے کہا کہ پورے ملک میں کرنسی کی آزادانہ نقل و حرکت ہو رہی ہے، فارن کرنسی سے متعلق قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے، قانون فارن کرنسی ایکسچینج چلانے والوں کے لیے بڑا نرم ہے، پیسے کی منتقلی کے حوالے سے لیگل ریجیم کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس نے بیرون ملک سے رقم واپس لانے کے لیے ورکنگ گروپ تشکیل دینے کاعندیہ دے دیا اور کہا کہ ورکنگ گروپ منی لامڈرنگ اور رقم لانے سے متعلق تجاویز دے گا ،ورکنگ گروپ کی تجاویز پارلیمنٹ کے سامنے رکھیں گے،معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے رکھنے کے بعد ہم بری الذمہ ہوں گے ،ایساخوف پیدانہیں کرناچاہتے جوہماری معشیت کے لیے نقصان دہ ہو۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پاکستان کے اکاؤنٹس سے متعلق سوئس حکام سے معلومات مانگی ہے؟
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ معلوم نہیں کہ سوئس حکام کے پاس معلومات ہیں یا نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حکومت سوئس حکام سے معلومات مانگتی تو ہو سکتا ہےمل جاتیں۔
چارٹرڈ اکائونٹنٹ نے کہا کہ بیرون ملک تین اقسام کے اثاثے منتقل ہوئے، عوام کے بیرون ملک پیسے پر کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے، بیرون ملک منتقل پیسے کی ایک قسم وہ بھی ہے جس پر ٹیکس نہیں دیا گیا،ایسا پیسہ بھی منتقل ہوا جس پر ٹیکس ادا کیا گیا، بیرون ملک آف شور ٹرسٹ بنا کر بنا کر اثاثہ رکھا جاتا ہے، دیانت دار لوگوں کے لیے فارن کرنسی اکاونٹس بند نہیں کر سکتے، ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو فارن کرنسی اکاؤنٹ سے رقم منتقل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، کرپشن اور مجرمانہ فعل کی رقم بیرون ملک نہیں جانی چاہیے، 2001میں نان ریذیڈنٹ کو 182دن کی رعایت دے دی گئی۔